Inquilab Logo

کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی

Updated: August 12, 2022, 12:27 PM IST | Shamim Tariq | Mumbai

خبر یہ ہے کہ یوپی میں ۸۰۰؍ سے زائد سرکاری وکلاء برطرف کر دیئے گئے ہیں ۔ یوپی میں جن وکیلوں یا لیگل آفیسروں کو برطرف کیا گیا ہے ممکن ہے انہوں نے انصاف دلانے میں مستعدی یا ایمانداری نہ دکھائی ہو یا اس کے اہل نہ ہوں یا کسی کے مفاد کے تحفظ کو ترجیح دی ہو مگر یہ بھی تو ممکن ہے کہ ان کو اس لئے ہٹایا گیا ہو کہ ان کی جگہ اپنے پسندیدہ لوگ مقرر کئے جاسکیں۔

 Allahabad High Court.Picture:INN
الہ آباد ہائی کورٹ۔ تصویر:آئی این این

اس خبر میں کہ یوپی میں ۸۰۰؍ سے زائد سرکاری وکلاء برطرف کر دیئے گئے ہیں براہِ راست تو برطرف کئے جانے والوں پر کوئی الزام نہیں لگایا گیا ہے مگر اس میں یہ پیغام ضرور پوشیدہ ہے کہ جن سرکاری وکیلوں اور قانونی افسروں کو برطرف کیا گیا ہے وہ ’مؤثر پیروی‘ کرنے میں ناکام تھے۔ یہ سوال البتہ بہت اہم ہے کہ نئے سرکاری وکلاء کی جو فہرست جاری کی گئی ہے ان میں شامل کیا تمام وکلا مؤثر پیروی یا ایسی پیروی کرنے میں کامیاب ہوں گے جن سے حکومت مطمئن ہو؟ اس سوال کا بس ایک ہی جواب ہے کہ یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ اسی ضمن میں یہ خبریں بھی توجہ چاہتی ہیں کہ ہندی کا ایک بہت مشہور ناول جو انعام سے نوازا گیا ہے ہاتھرس کے ایک صاحب کیلئے پریشان کن بن چکا ہے کیونکہ اس میں کچھ ایسے مذہبی حوالے ہیں جن سے ان کے جذبات مجروح ہوئے ہیں۔ وہ صاحب ہاتھرس میں ایف آئی آر لکھوانے پہنچے تو ناول ’ریت سمادھی‘ کی خالق گیتانجلی شری کے اعزاز کیلئے آگرہ میں منعقد ہونے والا پروگرام اس اندیشے کے تحت ملتوی کردیا گیا کہ کہیں کوئی ناخوشگوار واقعہ نہ ہوجائے۔ تخلیق کاروں کی زندگی میں اس قسم کے واقعات ہوتے رہتے ہیں کہ جہاں حکومت اور حکومت کو گمراہ کرنے والوں کا ٹولہ ہمیشہ سرگرم رہتا ہے وہیں تخلیق کاروں میں بھی یہ روش عام ہوتی جارہی ہے کہ وہ مذہبی حوالوں سے لوگوں کے مذہبی جذبات کو مجروح کریں یا اتنی سنسنی پیدا کریں کہ خود مشہور ہوں یا اپنی تخلیق کو مشہور کردیں۔ یہ دونوں رویے غلط ہیں۔ تخلیق کار کی تخلیق میں سنسنی خیزی کیلئے کوئی جگہ نہیں ہونا چاہئے، دوسری طرف اس سے یہ توقع یا اس پر یہ دبائو بھی غلط ہے کہ وہ کسی شخص، اشخاص یا جماعت سے اجازت لے کر لکھے۔ جو ایسا کرتے ہیں ان کی تحریریں یا تخلیقات ردی میں پھینک دی جاتی ہیں۔ حیرت ہے کہ آج کے دور میں تخلیق کاروں کو بھی سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کیا جاتا ہے یا نشانہ بنایا جاتا ہے، وہ بھی اتنے بھونڈے طریقے سے کہ منشاء سامنے آجاتا ہے۔ اگر کوئی شخص کسی مذہبی شخصیت، اصول یا قول کو اپنی تخلیق میں اس لئے استعمال کرتا ہے کہ اس کی بات بڑے حلقے تک پہنچے اور اس حلقے کی مسرت و بصیرت کا سامان ہونے کیساتھ سماجی اخلاقیات سے بھی اس کا تعلق استوار ہو تو اس پر یا اس کی تخلیق کو ادب تسلیم کئے جانے سے انکار کر دیا جاتا ہے لیکن کوئی شخص مذہبی اصولوں یا مذہبی شخصیتوں کو نشانہ بناتا ہے تو اس کیلئے صلہ و ستائش کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں۔ اچھے برے، کھرے کھوٹے میں فرق کرنے یا ان کو ایک دوسرے سے الگ کرنے کا معیار خود ادب ہے۔ ادب کی پرکھ کیلئے کوئی غیر ادبی معیار کبھی قبول کیا ہی نہیں جاسکتا۔ کون سی تحریر ادب کے دائرے میں ہے کون سی تحریر اس کے دائرے میں نہیں ہے اس کا فیصلہ بھی وقت کرتا ہے۔ وقت نے کتنے ایسے تخلیق کاروں کی کتابوں کو جنہیں بڑے بڑے اعزازات سے نوازا گیا تھا اور وہ عہدے اور مراعات کے مستحق ٹھہرائے گئے تھے، دیمک کی خوراک بنا دیا۔ تخلیق کار جدت طبع اور ندرت فکر کا حامل ہوتا ہے مگر وہ قدما کی توصیف و تعریف اس لئے کرتا ہے کہ قدما کے اکتسابات و افکار کو محفوظ رکھنے کے ساتھ نئی نسل کی ذہنی تربیت میں ان سے کام لے سکے۔ اس کا مقصد قدامت کو گوارا یا رائج کرنا نہیں پرانے اکتسابات کی پارینگی اور فرسودگی کو دور کرنا ہوتا ہے۔  تخلیق کار کی سب سے بڑی خصوصیت جرأت اظہار ہوتی ہے اپنے محبوب و مطلوب کے سامنے بھی وہ ساری باتیں کہہ دیتا ہے بادشاہ وقت کے سامنے بھی، جنہیں وہ صحیح سمجھتا ہے مگر خوش سلیقگی سے۔ تخلیق کار کی جرأت اظہار میں بے باکی و بے راست بازی کے ساتھ تہذیب و شائستگی اور تہہ در تہہ نزاکتیں نہ ہوں تو سمجھئے اس کا فن پختگی کو پہنچا ہے نہ ذہن۔ تخلیق فن کرنے والوں کے خلاف بیشک کافی جھگڑے اس لئے پیدا ہوئے کہ اعتراض کرنے والے مخلص تھے نہ سمجھدار، بلکہ ایک شیطانی مشن کی تکمیل کیلئے کبھی اِس پر کبھی اُس پر غیر ضروری اعتراضات کررہے تھے یا بہتان باندھ رہے تھے، مگر اس لئے بھی فتنے پیدا ہوتے رہے کہ تخلیق کاروں نے سنسنی پھیلانے کی کوشش کی یا اپنی بات کو سنجیدگی اور شائستگی سے نہیں کہہ سکے۔ادب یا فن پارہ قابل اعتبار تب سمجھا جاتا ہے جب اس میں متضاد کیفیات و خیالات کا خوبصورت امتزاج ہو۔ ایسا نہ کرسکنے والے اکثر عیب جوئی اور بیہودگی پر اُتر آتے ہیں مگر بدلے میں انہیں احساسِ شکست و محرومی کے سوا حاصل کیا ہوتا ہے؟  ’ریت سمادھی‘ پر کیا اعتراض ہے اس کا مجھ کو علم نہیں کہ اعتراض کرنے والے کے مذہب اور مذہبی جذبات سے مَیں واقف نہیں ہوں۔ مگر امکان تو دونوں ہی موجود ہے کہ تخلیق کار کے فن میں پختگی نہ ہو یا اس کے خلاف ایف آئی آر در ج کرانے والے کو کوئی استعمال کررہا ہو۔ یوپی میں جن وکیلوں یا لیگل آفیسروں کو برطرف کیا گیا ہے ممکن ہے انہوں نے انصاف دلانے میں مستعدی یا ایمانداری نہ دکھائی ہو یا اس کے اہل نہ ہوں یا کسی کے مفاد کے تحفظ کو ترجیح دی ہو مگر یہ بھی تو ممکن ہے کہ ان کو اس لئے ہٹایا گیا ہو کہ ان کی جگہ اپنے پسندیدہ لوگ مقرر کئے جاسکیں۔ قانونی پیروی کرنے والوں کا مرتبہ بھی اسی طرح بلند ہے جس طرح تخلیق کار کا مگر اس وقت کے ملکی حالات میں دونوں ہی سوالات کی زد میں ہیں۔ بدعنوانی یہاں بھی ہے اور وہاں بھی، اس سے بھی زیادہ پریشان کن بلکہ شرمناک بات یہ ہے کہ ان کے خلاف شور مچانے والوں کی نیتوں اور باتوں پر بھی اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔ اکثر اپنے مفاد کیلئے، کسی کی شہرت سے حسد کرکے یا فتنہ و فساد پھیلانے کیلئے بھی اعتراض کرتے ہیں۔ ایسے میں ایک سچے تخلیق کار، ایک ایماندار قانونی پیروی کار کیلئے جہاں یہ ضروری ہے کہ وہ کسی ظالم ٹولے کے دبائو میں نہ آئے وہیں یہ بھی ضروری ہے کہ بہتان باندھنے اور افواہیں پھیلانے والوں کے سامنے غالب کا یہ مصرع دُہرا کر چپ ہوجائے کہ ’کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی‘۔ غالب نے یہ مصرع اپنے لئے کہا تھا مگر چونکہ دوسروں کی برائیاں خود سے منسوب کرنا بھی شرافت ہے، ’بدی شیطان کرتا ہے اور ہم شرمائے جاتے ہیں۔‘ اس لئے یہی ہمارے جینے کی ادا بھی ہونا چاہئے اور ضمیر سے اٹھنے والی صدا بھی۔

allahabad Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK