Inquilab Logo

حصول علم نہ رُکے

Updated: July 25, 2021, 10:36 AM IST | Mumbai

جن ملکوں کی آبادی کم ہے وہاں معیارِ تعلیم بھی بلند ہے اور تعلیم یافتہ آبادی بھی زیادہ ہے۔ مگر معیارِ تعلیم کے بلند ہونے اور آبادی کے بڑے حصے کے تعلیم یافتہ ہونے کا تعلق آبادی کے کم یا زیادہ ہونے سے نہیں ہے

Countries with low populations have higher standards of education and higher educated populations.Picture:INN
جن ملکوں کی آبادی کم ہے وہاں معیارِ تعلیم بھی بلند ہے اور تعلیم یافتہ آبادی بھی زیادہ ہے۔ تصویر آئی این این

 جن ملکوں کی آبادی کم ہے وہاں معیارِ تعلیم بھی بلند ہے اور تعلیم یافتہ آبادی بھی زیادہ ہے۔ مگر معیارِ تعلیم کے بلند ہونے اور آبادی کے بڑے حصے کے تعلیم یافتہ ہونے کا تعلق آبادی کے کم یا زیادہ ہونے سے نہیں ہے۔ ایسا ہوتا تو چین، جس کی آبادی دُنیا میں سب سے زیادہ ہے، اس کے بیشتر عوام تعلیم سے بے بہرہ ہوتے۔ ۲۰۱۸ء کے اعدادوشمار کے مطابق چین میں ۱۵؍ تا ۲۴؍ سال کے ۹۹ء۸؍ فیصد افراد ، ۱۵؍ سال سے زائد عمر کے ۹۶ء۸؍ فیصد افراد اور ۶۵؍ سال یا اس سے زیادہ عمر کے ۸۵؍ فیصد افراد خواندہ ہیں۔ خواندگی کے معاملے میں چھوٹی عمر کے لوگوں  اور بڑی عمر کے لوگوں کی اس تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ چین نے تعلیم کے فروغ میں اہم اور مؤثر کردار ادا کیا ہے۔ ہمارے ملک کی آبادی بھی زیادہ ہے مگر تعلیم، معیارِ تعلیم اور اعلیٰ تعلیم کے میدان میں ہماری کارگزاری اس قابل نہیں ہے کہ تعلیمی اعتبار سے ترقی یافتہ ملکوں کے مقابلے میں رکھی جائے۔ سابقہ حکومت نے حق تعلیم (رائٹ ٹو ایجوکیشن) کے تحت جو اقدامات کئے اُن سے اگر غیر معمولی فائدہ نہیں ہوا تھا، تب بھی قابل ذکر فائدے کا اعتراف اس حکومت کے مخالفین بھی کریں گے۔ اس کے ذریعہ گھر گھر تعلیم کے پہنچنے سے حالات بدلنے لگے تھے مگر اب حالات ایک بار پھر پرانے ڈھرے پر آتے جارہے ہیں۔ ڈراپ آؤٹ کا خطرہ بھی بڑھ گیا ہے۔ کووڈ کی وباء نے، جس کے سبب تعلیمی ادارے ۱۰۰؍ فیصد کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کرپارہے ہیں، ایسی عجیب و غریب صورت حال پیدا کردی ہے کہ طلبہ خود اپنے تعلیمی نقصان سے بددل ہیں۔ اس سلسلے میں کچھ کیا جانا چاہئے:
 ہماری رائے یہ ہے کہ اسکول اور کالج کھلیں نہ کھلیں، آن لائن تعلیم کا بہت زیادہ فائدہ ہو نہ ہو، طلبہ کو حصول علم کی کاوشیں پہلے سے زیادہ تیز کردینی چاہئیں۔ کل تک وہ (طلبہ) کلاس روم میں پڑھائی کرتے تھے اور اپنے اساتذہ سے استفادہ کرتے تھے، آج اس کا موقع نہیں ہے تب بھی علم کا حصول جاری رہ سکتا ہے کیونکہ اب حصول علم روایتی طریقوں کا مرہون منت نہیں ہے۔ آج کا طالب علم انٹرنیٹ پر جس موضوع کی تفصیل حاصل کرنا چاہے، وہ اُسے میسر ہے۔ انٹرنیٹ پر مختلف ویب سائٹس کے تعلق سے شبہ ہوسکتا ہے کہ یہ کتنی قابل بھروسہ ہیں مگر نیٹ پر جو کتابیں دستیاب ہیں اُن پر شبہ نہیں کیا جاسکتا۔ ان میں بیشتر کتابیں نہایت مفید مطلب ہیں جن کے مطالعے سے طلبہ کسی موضوع پر کماحقہ قدرت حاصل کرسکتے ہیں۔ نیٹ کو مثبت طریقے سے کلاس روم سمجھا جائے اور تعلیم یافتہ لوگوں کو،جو مدد کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں، رہنما مان لیا جائے تو طلبہ جو کچھ کتابوں میں پڑھیں گے اُن کی تفہیم کیلئے ایسے مددگار لوگوں کی خدمات حاصل کرسکتے ہیں۔ یہ لوگ، اُن کے اپنے اساتذہ کے علاوہ ہیں۔ اُن کے اپنے اساتذہ بھی طلبہ کی تعلیم کیلئے فکر مند ہیں لہٰذا جو طلبہ جوش و خروش کے ساتھ اُن سے رجوع ہوں گے وہ اُن کی ہر ممکن رہنمائی سے قطعی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ 
 صورت حال بالکل ایسی ہے کہ وہ راہ عام جس سے ہر خاص و عام گزرتا تھا، مسدود ہے مگر منزل تک پہنچنے کے دیگر راستے بالکل کھلے ہوئے ہیں اور ان پر کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ طلبہ کو راہ عام کے بند ہونے کا ملال کئے بغیر دیگر راہوںپر گامزن ہونے کی کوشش کرنی چاہئے تاکہ حصول تعلیم بند نہ ہو، ذہن و دل کو روشن کرنے کا سلسلہ جاری رہے اور جب کبھی امتحان ہو طلبہ خود کو تیار پائیں، اُنہیں کسی قسم کی گھبراہٹ نہ ہو۔ اسکول کھلنے کے انتظار میں رہنا کار لاحاصل ہے۔    n

education Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK