Inquilab Logo

غیر ملکی سرمائے کے حصول کا دُہرا معیار

Updated: September 27, 2020, 4:52 AM IST | Aakar Patel

کیا یہ دُہرا معیار نہیں ہے کہ سیاسی جماعتیں تو غیر ملکی عطیات حاصل کرسکتی ہیں جن کیلئے بڑی گنجائشیں پیدا کی گئی ہیں مگر غیر سرکاری تنظیموں پر قدغن لگائی جارہی ہے تاکہ اِن تنظیموں کی سرگرمیاں محدود ہوجائیں جبکہ یہ جو خدمات انجام دے رہی ہیں وہ بہت سوں کے بس کی نہیں۔

office - Pic : INN
آفس ۔ تصویر : آئی این این

دی فارین کانٹری بیوشن (ریگولیشن) ایکٹ (ایف سی آر اے)  ایک مضحکہ خیز پرانا قانون ہے۔ یہ ہندوستان میں ۱۹۷۶ء میں ایک ایسے قانون کے طور پر نمودار ہوا جس کا مقصد ملک کے انتخابی نظام اور جمہوریت میں بیرونی مداخلت کو روکنا تھا تاکہ سیاسی جماعتوں، اُمیدواروں، صحافیوں، اخبارات کے پبلشروں، سرکاری افسروں اور اراکین پارلیمان کو ممکنہ بیرونی سرمائے کے حصول سے روکا جاسکے۔ بعد میں، لبرلائزیشن یا آزاد کاری کا معنی یہ تھا کہ مذکورہ لوگوں کو غیر ملکی سرمایہ قانونی طور پر حاصل ہو۔ ہندوستانی حکومت نے اس سرمائے کے حصول کو فروغ دیا کیونکہ یہ براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری تھی جس پر موجودہ حکومت بھی ناز کرتی ہے اور وقتاً فوقتاً اس کا تذکرہ کرتی ہے۔مثال کے طور پر میڈیا، جس میں اخبارات اور ٹی وی چینل دونوں شامل ہیں، نہ صرف یہ کہ غیر ملکی سرمایہ حاصل کرسکتا ہے بلکہ اس سرمائے کی وجہ سے متعلقہ میڈیا گروپ بیرونی تسلط کو بھی قبول کرسکتا ہے۔ فی الحال، ملک میں سب سے بڑے میڈیا گروپ فیس بُک اور گوگل ہیں جو سرتاپا غیر ملکی ہیں اور غیر ملکوں ہی سے ان کا انتظام و انصرام جاری ہے۔ اخبارات بھی اور نیوز چینلس بھی شیئرس کی خریداری کی شکل میں بیرونی سرمایہ قبول کرسکتے ہیں۔ اس دوران یہ بھی ہوا کہ سیاسی جماعتوں نے خود کو مذکورہ قانون سے بچائے رکھنے میں اپنے لئے گنجائش نکال لی ہے۔ جنوری ۱۳ء میں،دہلی ہائی کورٹ میں مفاد عامہ کی ایک عرضی داخل کی گئی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ بی جے پی اور کانگریس، دونوں ہی کو ’’ویدانتا/ اسٹرلائٹ‘‘ نامی کمپنی کی جانب سے حاصل شدہ رقوم سے مذکورہ قانون کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔ ۲۸؍ مارچ ۱۴ء کو ہائی کورٹ نے بی جے پی اور کانگریس کو خلاف ورزی کا مرتکب پایا اور حکم دیا کہ مودی حکومت اور الیکشن کمیشن آف انڈیا دونوں پارٹیوں کے خلاف کارروائی کریں۔
 دسمبر ۱۵ء میں اطلاعات ملیں کہ حکومت اس قانون میں ترمیم کرنے جارہی ہے جس سے دونوں ہی پارٹیوں کی گلوخلاصی ممکن ہوگی۔ ۲۰۱۶ء کے بجٹ میں یہ ممکن بھی ہوگیا جب ’’غیر ملکی ذریعہ‘‘ کی تعریف ہی تبدیل کردی گئی جس سے سیاسی جماعتوں کو ملنے والی غیر ملکی فنڈنگ قانون کے دائرے میں آگئی مگر یہ کام عجلت میں کیا گیا تھا اس لئے ۲۰۱۸ء میں ایک ترمیم منظور کی گئی تاکہ سیاسی جماعتیں مبرا ہوں۔ مارچ ۱۸ء میں ایک منسوخ شدہ قانون میں ترمیم ہوئی جوکہ قطعی مضحکہ خیز عمل تھا۔
 یہ مذکورہ قانون کا سیاسی پس منظر تھا جو کہ قانونی ترمیم کا مقصد بھی تھا۔ مگر اب اس کا اطلاق کچھ اس طرح کیا جارہا ہے کہ سیاست پر غیر ملکی سرمائے کے اثرات کم کرنے کے بجائے اسے ایک ہتھیار کے طور پر غیر سرکاری تنظیموں (این جی او) کے خلاف استعمال کیا جارہا ہے۔ کوئی بھی حکومت سول سوسائٹی کے ساتھ میں نہیں ہے مگر  بی جے پی تو ان تنظیموں کے خلاف کافی جارح ہے۔
  ۲۱؍ فروری ۱۶ء کو اکنامک ٹائمس میں ایک خبر میں شائع ہوئی تھی، جس کی سرخی کچھ اس طرح تھی: ’’وزیر اعظم مودی کا کہنا ہے کہ وہ این جی اوز کی سازش کا نشانہ رہے ہیں‘‘۔ خبر میں وزیر اعظم کی بھبنیشور کی ایک تقریر کا حوالہ دیا گیا جس میں مودی نے این جی اوز کو غیر ملکی ایجنٹ تو قرار دیا مگر اس الزام کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا بلکہ یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ یہ این جی اوز اُن کی حکومت کو برخاست کرانے کے درپے ہیں۔
 مودی کے اب تک کے دورِ اقتدار میں اُن کی ہمہ وقت کوشش یہی رہی کہ این جی اوز کا اثرورسوخ کم اور دائرۂ کار محدود کیا جائے۔ یاد رہنا چاہئے کہ ہندوستان میں این جی اوز کی مجموعی تعداد ۳۰؍ لاکھ ہے جن میں محلوں میں پائی جانے والی تنظیموں سے لے کر دُنیا کی سب سے طاقتور تنظیم آر ایس ایس تک کا شمار کیا جاتا ہے۔ یہ تنظیمیں تعلیم، آفاتِ سماوی کے دوران راحتی کام، خواتین پر تشدد کے خلا ف مہم، عوامی صحت، انسانی حقوق، نظام ِ تعزیرات اور ایسے ہی کئی دیگر شعبوں میں فلاحی خدمات انجام دیتی ہیں۔ ایک رپورٹ میں یہ اندازہ پیش کیا گیا تھا کہ۲۰۱۴ء سے ۲۰۱۸ء تک ان تنظیموں کو غیر ملکوں سے ملنے والا سرمایہ ۴۰؍ فیصد کم ہوا ہے۔
 اس ماہ، اس میں ایک اور ترمیم کی گئی جس کا مقصد اس فنڈنگ کو مزید کم کرنا ہے۔ یہ ترمیمی بل کسی پیشگی اطلاع یا مشورہ کے بغیر پیش کیا گیا اور کسی خاص بحث کے بغیر منظور کرلیا گیا۔ اس سے ملک میں غیر سرکاری تنظیموں کی خدمات متاثر ہوں گی بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ اس میں اُن کیلئے اشارہ ہے کہ اپنا دفتر سمیٹ لیں۔
 میں نے غیر سرکاری فلاحی خدمات کے سیکٹر میں چند برس کام کیا ہے اور بلا تردد کہہ سکتا ہوں کہ اس میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہے جن میں بلا کا کمٹمنٹ ہے اور کئی ایسے کام ان کے مرہون منت ہیں جو سرکاری کارندوں کیلئے نہایت مشکل ہیں۔ بی جے پی کا الزام ہے کہ ان تنظیموں کا اپنا ایجنڈا ہے جبکہ ان میں سے کئی تنظیموں کو دُنیا میں بڑی قدرومنزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ مَیں نے جس تنظیم کیلئے اپنی خدمات پیش کیں اُسے نوبیل امن انعام تک مل چکا ہے۔ ایسی تنظیموں کےپر کترنے یا اُنہیں ہراساں کرنے کی کوشش نہ تو ملک اور حکومت کے نہ ہی عوام کے مفاد میں ہے۔
 غیر سرکاری تنظیموں کا سیکٹر ایسا ہے کہ جس میں اپنی خدمات پیش کرنے والے نہایت پُرعزم لوگ ہیں جو فلاحی اُمور سے وابستگی کیلئے کارپوریٹ کمپنیوں کی ملازمتیں چھوڑ کر اس سیکٹر سے وابستہ ہوئے ہیں جہاں اُنہیں کارپوریٹ کمپنیوں کی تنخواہ کا عشر عشیر بھی نہیں ملتا۔ ایسے شعبے کو محدود کرنا کہاں کا انصاف ہے؟ چلتے چلتے اس ستم ظریفی کو بھی محسوس کرتے چلئے کہ آج ہمارا ملک بیرونی کمپنیوں اور اداروں کو اسلحہ، گن، الکحل، تمباکو، پٹرولیم اور ادویات گویا بہت سے شعبوں میں غیر ملکی سرمایہ کاری کی دعوت دیتا ہے مگر تعلیم، صحت اور انسانی حقوق جیسے شعبوں میں سرمایہ کاری کے راستے مسدود کرتا ہے۔ اس سے ظاہر ہے کہ ہم کچھ ایسا کررہے ہیں جو بالکل بھی ٹھیک نہیں ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK