معیشت کی حالت ہنوز خراب ہے۔ گزشتہ ہفتے تیسری سہ ماہی کے اعداد و شمار سے معلوم ہوا کہ اکتوبر تا دسمبر ۲۰۲۰ء کے دوران ہماری معیشت میں اضافہ (صفر اعشاریہ چار فیصد) ضرور ہوا ہے مگر اتنے کم بلکہ معمولی اضافے سے ہم موجودہ خستہ حالی سے باہر نہیں نکل سکتے۔
EPAPER
Updated: March 01, 2021, 9:28 AM IST
|
Editorial
معیشت کی حالت ہنوز خراب ہے۔ گزشتہ ہفتے تیسری سہ ماہی کے اعداد و شمار سے معلوم ہوا کہ اکتوبر تا دسمبر ۲۰۲۰ء کے دوران ہماری معیشت میں اضافہ (صفر اعشاریہ چار فیصد) ضرور ہوا ہے مگر اتنے کم بلکہ معمولی اضافے سے ہم موجودہ خستہ حالی سے باہر نہیں نکل سکتے۔ معیشت کی حالت ہنوز خراب ہے۔ گزشتہ ہفتے تیسری سہ ماہی کے اعداد و شمار سے معلوم ہوا کہ اکتوبر تا دسمبر ۲۰۲۰ء کے دوران ہماری معیشت میں اضافہ (صفر اعشاریہ چار فیصد) ضرور ہوا ہے مگر اتنے کم بلکہ معمولی اضافے سے ہم موجودہ خستہ حالی سے باہر نہیں نکل سکتے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ معیشت کی بحالی انگریزی حرف ’’کے‘‘ جیسی ہوگی (اسے کے شیپ ریکوری کہتے ہیں)۔ اس میں معیشت کے چند شعبے دوسروں کے مقابلے میں زیادہ تیز رفتار اور بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ (وی شیپ میں جتنی تیزی سے معیشت زوال پزیر ہوتی ہے اُتنی ہی تیزی سے رو بہ عروج ہوتی ہے جبکہ یو شیپ میں زوال کے بعد بہت دھیمی رفتار سے آگے بڑھتے ہوئے بالکل ’’یو‘‘ کے انداز میں کچھ عرصے کے بعدبحالی کی طرف گامزن ہوتی ہے)۔ ان ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ گزرنے والی سہ ماہی میں شرح نمو صفر اعشاریہ چار فیصد تھی جبکہ آئندہ سہ ماہی (جو ۳۱؍ مارچ کو ختم ہوگی) میں ہم ۱ء۵؍ فیصد کی شرح نمو درج کروا سکیں گے اس کے باوجود رواں مالی سال کے اختتام پر یہ شرح منفی ۷ء۵؍ فیصد ہی ہوگی۔آگے بڑھنے سے پہلے اس ستم ظریفی کو بھی ملاحظہ فرمالیجئے کہ دہلی کی سرحدوں پر اور ملک بھر میں کسان مصروف و مجبورِ احتجاج ہیں مگر رواں مالی سال میں جس ایک سیکٹر سے سب سے زیادہ اُمید ہے وہ شعبۂ زراعت ہی ہے۔ زرعی پیداوار میں اضافے کے سبب اپریل تا دسمبر ۲۰۲۰ء زرعی اشیاء کی برآمد سابقہ ۲۶ء۳۴؍ بلین ڈالر سے بڑھ کر ۲۸ء۹۱؍ بلین ڈالر ہوگئی جبکہ ملک کی مجموعی برآمدات ۳۷؍ بلین ڈالر سے کم ہوئی ہیں۔
وزیر مالیات نے صفر اعشاریہ چار فیصد کے اضافے کو وی شیپ (تیزی سے بحالی) کی جانب سفر قرار دیا ہے، خدا کرے کہ ایسا ہو، جبکہ ٹھوس حقائق اسے مشکوک بناتے ہیں۔ وہ ٹھوس حقائق کیا ہیں؟ پہلی بات: افراط زر بڑھ رہا ہے۔ پیٹرول، ڈیزل، ایل پی جی اور غذائی اشیاء کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں جو معیشت کے پیروں میں نئی زنجیریں ڈال سکتی ہیں۔ اس سے ڈیمانڈ کم ہوگی جو براہ راست پیداوار پر اثر انداز ہوتی ہے۔ اگر خدانخواستہ ایسا ہوا تو معیشت کی سست رفتاری کم نہیں ہوسکے گی۔ دوسری بات: بے روزگاری کے کم ہونے کا امکان دکھائی نہیں دیتا۔ حکومت نے بجٹ میں انفراسٹرکچر ڈیولپمنٹ کیلئے خطیر رقم مختص کی ہے جس کیلئے ابھی انتظار کرنا پڑے گا جبکہ بے روزگاری لاک ڈاؤن کے پہلے بھی بڑھی ہوئی تھی۔ علاوہ ازیں، ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ کورونا لو َٹ کر آتا ہوا دکھائی دے رہا ہے اور کئی ریاستیں ایک بار پھر لاک ڈاؤن پر غور کررہی ہیں۔ اگر کورونا نے پیچھا نہیں چھوڑا تو معیشت کے رفتار پکڑنے کا امکان معدوم ہی رہے گا۔
افراطِ زر، بے روزگاری اور کورونا کا نیا خطرہ نہ ہوتا تو شعبۂ صنعت نے بجٹ کا جس طرح خیرمقدم کیا اس سے مارکیٹ میں نئی جان پیدا ہوتی۔ فروری میں نیتی آیوگ گورننگ کونسل کی چھٹی میٹنگ سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم مودی نے معیشت کی رفتار میں تیزی لانے کیلئے مرکز اور ریاستوں کے درمیان بہتر تال میل کی اہمیت پر زور دیا۔ اس سے یقینی فائدہ ہوسکتا ہے مگر معاشی جدوجہد میں اشتراک و تعاون کی کیفیت اُس وقت تک پیدا نہیں ہوسکتی جب تک سیاسی اشتراک و تعاون کو یقینی نہیں بنایا جاتا۔ اگر ریاستوں سے مرکز کے تعلقات میں دراڑیں پائی جائیں تو متحدہ معاشی جدوجہد کا امکان مفقود ہی رہے گا جبکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ معیشت کی بحالی کیلئے پورا ملک متحد ہو!