Inquilab Logo

ایسی بھی ہے پریشانی

Updated: March 28, 2020, 6:03 AM IST | Editorial | Mumbai

 اِس وقت ملک کا ہر شہری لاک ڈاؤن میں ہے۔ اس لاک ڈاؤن میں خوف، پریشانی اور اشیائے ضروریہ کے حصول میں دشواری کے باوجود اکثریت اُن لوگوں کی ہے جو اپنے اہل خانہ کے ساتھ اپنے گھروں میں آرام سے ہیں ۔ ’’اپنے گھر میں آرام سے ہونے‘‘ کی اس حقیقت پر جس قدر ممکن ہو، شکر ادا کرنا چاہئے کیونکہ اپنے ہی ملک میں ایسے لوگ بھی ہیں جو کسی نہ کسی جگہ پر پھنسے ہوئے ہیں ۔

An empty road in Mumbai. Photo: Inquilab
ممبئی کی ایک خالی سڑک۔ تصویر: انقلاب

 اِس وقت ملک کا ہر شہری لاک ڈاؤن میں ہے۔ اس لاک ڈاؤن میں خوف، پریشانی اور اشیائے ضروریہ کے حصول میں دشواری کے باوجود اکثریت اُن لوگوں کی ہے جو اپنے اہل خانہ کے ساتھ اپنے گھروں میں آرام سے ہیں ۔ ’’اپنے گھر میں آرام سے ہونے‘‘ کی اس حقیقت پر جس قدر ممکن ہو، شکر ادا کرنا چاہئے کیونکہ اپنے ہی ملک میں ایسے لوگ بھی ہیں جو کسی نہ کسی جگہ پر پھنسے ہوئے ہیں ۔ گھر پہنچنے کا کوئی ذریعہ اُن کے سامنے نہیں ہے۔ بہت سوں کے پاس پیسے ہیں اور بہت سوں کے پاس پیسے بھی نہیں ہیں ۔ ہر طرف کرفیو جیسی صورتحال ہے چنانچہ کوئی چاہے کہ کسی جگہ رُک کر کچھ کھا پی لے یا کسی سے مدد مانگ لے تو یہ بھی ممکن نہیں ہے۔ 
 سب سے زیادہ پریشانی اُن دہاڑی مزدوروں کو لاحق ہے جو لاک ڈاؤن کے بعد کام سے نکال دیئے گئے۔ موٹر گاڑیوں کی آمدورفت بند ہونے کے سبب اُن کے پاس پیدل سفر پر روانہ ہونے کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں تھا۔ کسی کا گھر ڈھائی سو کلومیٹر کی دوری پر ہے تو کسی کا چار سو کلومیٹر کے فاصلے پر۔ اپنے معمولی اسبابِ زندگی کے ساتھ یہ لوگ دور دراز واقع اپنےدیہاتوں اور قصبوں کی جانب نکل پڑے ہیں ۔ گزشتہ چند دنوں میں ایسے کئی قافلوں کی تصاویر مختلف اخبارات میں شائع ہوئی ہیں ۔ ان تصویروں میں مردوں کے علاوہ خواتین اور بچے بھی ہیں ۔ اپنے سروں پر تھیلے اور گٹھریاں اُٹھائے ہوئے ان لوگوں کی ہمت اور حوصلے کو اسی وقت سمجھا جاسکتا ہے جب ان کی مجبوری کا احساس کیا جائے۔ ایک معاصر انگریزی اخبار کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ چند دنوں میں گجرات راجستھان سرحد پرواقع قصبہ رتن پور میں تقریباً ۲۶؍ ہزار لوگ پہنچے ہیں جن کی میڈیکل ٹیموں کے ذریعہ اسکریننگ کی گئی اور جن لوگوں کو قرنطینہ کی صلاح دی گئی اُن کے ہاتھ پر اسٹیمپ لگایا گیا اور اب ضلع انتظامیہ اُنہیں سرکاری موٹر گاڑیوں کے ذریعہ اُن کے گاؤں پہنچا رہا ہے۔ اخبار مذکور کا کہنا ہے کہ اس کے نمائندوں کی ٹیم نے جے پور آگرہ ہائی وے پر سیکڑوں لوگوں کو اپنا سامان سر پر اُٹھائے پیدل راستہ چلتے ہوئے دیکھا۔
 ذرا سوچئے، ہم آپ دو کلومیٹر پیدل چلنے پر آمادہ نہیں ہوتے اور یہ لوگ سیکڑوں کلومیٹر کی مسافت طے کرنے کی ہمت کربیٹھے جبکہ انہیں علم ہے کہ راستے میں موسم کی سختی جھیلنی پڑے گی اور کھانے پینے کیلئے کچھ نہیں ملے گا۔ اگر کچھ ملا تو وہ پولیس کی ٹیمیں ہوں گی جو اُنہیں ممکنہ طور پر پریشان کریں گی، گالیاں دیں گی اور ممکن ہے کہ حراست میں لے لیں ۔ دہلی اور این سی آر میں بھی یومیہ اُجرت پر کام کرنے والوں کی بہت بڑی تعداد موجود رہتی آئی ہے۔ لاک ڈاؤن کے بعد انہیں بھی کہہ دیا گیا کہ اب کام نہیں ہے، اس لئے اپنے گھرو ں کو لوٹ جائیں ۔ ان کے پاس واپسی کا کوئی ذریعہ نہیں تھا ، سو یہ بھی پیدل چل پڑے۔ ان میں کسی کسی کو تو بندیل کھنڈ اور بہار کے کئی قصبوں اور دیہاتوں تک جانا ہے یعنی سیکڑوں کلومیٹر کا سفر طے کرنا ہے۔
  ایک دیگر اخبار کی خبر کے مطابق دہلی سے گوالیار جانے والے ایک قافلے کے کچھ لوگوں کو بدایوں میں پولیس نے روکا اور مردوں کو کان پکڑ کر بیٹھنے اور مینڈک کی طرح پھدکنے کی سزا دی گئی۔ اس طرح کہیں تو پولیس نے تعاون دیا اور کہیں سزا۔ قصہ مختصر یہ کہ ایسے جتنے بھی قافلے اِس وقت ملک کی متعدد شاہراہوں پر ہیں ،وہ درس عبرت ہیں ۔ ظاہر ہے کہ ہم اُن تک پہنچ نہیں سکتے اس لئے اُن کی مدد بھی نہیں کرسکتے مگر اُنہیں دیکھ کر یا اُن کے بارے میں جان کر اپنے حالات کا شکر ادا کرنا اور اُن کے ساتھ ہمدردی رکھنا وہ کم سے کم انسانی، اخلاقی اور دینی تقاضا ہے جو ہم پورا کرسکتے ہیں ۔ سماج کے بہت نچلے طبقہ کے یہ لوگ کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتے بلکہ محنت مزدوری کرکے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالتے ہیں ۔ اب تک کی زندگی میں سیکڑوں آزمائشوں سے گزرنے کے باوجودا نہوں نے کبھی سوچا بھی نہ ہوگا کہ ایسا وقت بھی آئیگا جب حالات اُن گناہوں کی سزا د یں گے جو کبھی کئے ہی نہیں ۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK