Inquilab Logo

خوف کیوں ؟

Updated: March 21, 2020, 9:21 AM IST | Editorial | Mumbai

  کورونا وائرس کے تعلق سے خوف اور تشویش میں مبتلا ہونا اس معمولی جرثومے سے آدھی شکست تسلیم کرلینے کے مترادف ہے۔ خوف کے بجائے مقابلے کی تیاری ہو تب ہی اسے چاروں شانے چت کیا جاسکتا ہے۔ مقابلے کا راز جہاں باخبری اور احتیاط میں پنہاں ہے وہیں خود کو یہ سمجھانے میں بھی ہے کہ کورونا ایک جرثومہ ہی تو ہے، ایسے کتنے جرثومے ہمارے آس پاس ہمہ وقت ٹہلتے رہتے ہیں جن کا شکار ہوکر اس دارِ فانی سے کوچ کرجانے والوں کی تعداد کئی ملکوں میں جتنی ہے اُتنی تو کورونا کی وجہ سے پوری دُنیا میں نہیں ہوئی۔

Citizens can be seen in masks because of the Coronavirus. Photo Midday
کورونا وائرس کے سبب شہری ماسک میں دیکھے جاسکتےہیں۔ تصویر: مڈڈے

  کورونا وائرس کے تعلق سے خوف اور تشویش میں مبتلا ہونا اس معمولی جرثومے سے آدھی شکست تسلیم کرلینے کے مترادف ہے۔ خوف کے بجائے مقابلے کی تیاری ہو تب ہی اسے چاروں شانے چت کیا جاسکتا ہے۔ مقابلے کا راز جہاں باخبری اور احتیاط میں پنہاں ہے وہیں خود کو یہ سمجھانے میں بھی ہے کہ کورونا ایک جرثومہ ہی تو ہے، ایسے کتنے جرثومے ہمارے آس پاس ہمہ وقت ٹہلتے رہتے ہیں جن کا شکار ہوکر اس دارِ فانی سے کوچ کرجانے والوں کی تعداد کئی ملکوں میں جتنی ہے اُتنی تو کورونا کی وجہ سے پوری دُنیا میں نہیں ہوئی۔ اس سلسلے کے مزید چند اعدادوشمار ملاحظہ فرمالیجئے: پوری دُنیا کی آبادی ۷ء۵؍ ارب ہے۔ کورونا کتنوں کو زیر کرسکا؟ اب تک صرف ۷؍ ہزار لوگوں کو۔ جتنے لوگ اس سے متاثر ہوئے اُن کا صرف ۲؍ فیصد ایسے تھے جو فوت ہوئے، بقیہ بقید حیات ہیں اور عام علاج سے انہیں صحت مل گئی یا وہ تیزی سے شفایاب ہورہے ہیں ۔ اس کے برخلاف، صرف ہندوستان میں ملیریا سے متاثر افراد کی تعداد ۲۰۱۹ء میں ۶۶؍ ہزار سے زیادہ ریکارڈ کی گئی۔ علاج معالجہ کی نسبتاً بہتر سہولت اور عوام کی باخبری کی وجہ سے ملیریا بھی اب قابو میں آرہا ہے چنانچہ اس سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد بھی کم ہورہی ہے۔ ۲۰۱۵ء میں پورے ملک میں اس مرض (ملیریا) میں مبتلا ہوکر لقمۂ اجل بن جانے والوں کی تعداد۳۸۴؍ ، ۲۰۱۶ء میں ۳۳۱؍، ۲۰۱۷ء میں ۱۹۴؍ اور ۲۰۱۸ء میں ۹۶؍ تھی۔ معلوم ہوا کہ کورونا سے نہ تو متاثر ہونے والوں کی تعداد زیادہ ہے نہ ہی فوت ہونے والوں کی۔ قارئین جانتے ہیں کہ غذائیت کی کمی کے سبب بھی ہزاروں لوگ بالخصوص بچے دم توڑ دیتے ہیں ، دیہی علاقوں کا تو حال ہی نہ پوچھئے، کئی بیماریاں علاج معالجہ کے فوری اور مؤثر انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے ہلاکتوں کا سبب بنتی ہیں ۔ہم میں شاید ہی کوئی ہو جو ان حقائق سے واقف نہ ہو۔ 
 انسان احتیاط رکھے، جن چیزوں سے ماہرین نے منع کیا ہے وہ نہ کریں اور اگر کچھ علامات نظر آئیں تو فوری طور پر علاج کروائے تو یقینی طور پر کورونا کہلانے والا یہ وائرس اُس کا کچھ نہ بگاڑ سکے گا۔ گزشتہ چند دنوں میں کئی مبصرین نے لکھا ہے کہ کورونا جتنی تیزی سے پھیلتا ہے اُس سے زیادہ تیزی سے اس کا خوف سفر کرتا ہے۔مبصرین کا یہ مشاہدہ غلط کیسے ہوسکتا ہے جبکہ ہمارا آپ کا مشاہدہ بھی یہی ہے۔
 ہم اس خیال سے متفق نہیں ہیں کہ کورونا کے پیچھے بڑی عالمی طاقتوں کی کوئی سازش یا منصوبہ ہوگا جس کے ذریعہ وہ نامعلوم فائدہ اُٹھانا چاہتے ہوں گے۔ بالفرض محال اس تھیوری میں معمولی سی بھی سچائی ہو تب بھی ہر خاص و عام پر لازم یہی آتا ہے کہ ہر ممکن احتیاط کے ساتھ، خود کو ہمیشہ کی طرح ہشاش بشاش رکھیں ، نہ تو گھبرائیں نہ ہی خوفزدہ ہوں تاکہ اُس مفروضہ سازش یا منصوبے کی کامیابی کا آلۂ کار بننے سے محفوظ رہ سکیں ۔ 
 ماہرین کا کہنا ہے کہ کورونا کے متاثرین میں دو طرح کے مریض ہوتے ہیں ۔ پیکنگ یونیورسٹی کے تحقیق کار ووہان (چین) کے متاثرین کے معائنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ایک کورونا وائرس وہ ہے جو زیادہ جارح (ایل ٹائپ) ہوتا ہے جبکہ دوسرا اتنا جارح نہیں (ایس ٹائپ) ہوتا۔ پہلی قسم کا وائرس ووہان میں ابتدائی دنوں میں پایا گیا تھا جس پر جنوری کے اوائل میں قابو پالیا گیا تھا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جتنی اموات چین میں ہوئیں اُتنی اگر کسی دوسرے ملک میں ہوئی ہے تو اب اٹلی کا نام آرہا ہے جبکہ کسی اور ملک میں اتنی اموات نہیں ہوئی ہیں ۔ 
 ابتدائی سطور میں ہم نے لکھا ہے کہ خوف کھاجانا کسی مرض سے آدھی شکست تسلیم کرلینے جیسا ہے جبکہ قوت ارادی وہ ہتھیار ہے جس سے مکمل فتح حاصل ہوسکتی ہے۔ فیصلہ ہمیں کرنا چاہئے کہ کس صف میں رہیں ، شکست والی صف یا فتح والی۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK