Inquilab Logo

الیکشن کی بریا نی

Updated: January 24, 2022, 12:08 PM IST | Afzal Ansari | Mumbai

( منظر : را ت کے دس بجے ہیں ۔ پڑھا ئی کے کمرے میں ایک کنارے بڑی سی میز ہے جس کے چا رو ں طرف چھ کرسیا ں بچھی ہیں۔کمرے میں دیو ار سے لگی ایک بڑی الما ری ہے جو کتا بو ں سے بھری ہے ۔

Picture.Picture:INN
علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این

پردہ اُٹھتاہے  منظر :  را ت کے دس بجے ہیں ۔ پڑھا ئی کے کمرے  میں  ایک کنارے  بڑی سی میز  ہے جس کے چا رو ں طرف چھ کرسیا ں بچھی ہیں۔کمرے  میں  دیو ار سے لگی  ایک  بڑی الما ری ہے جو کتا بو ں سے بھری ہے ۔  میز پڑھنے  پڑ ھا نے اور کھا نا کھا نے کے لیے بھی  استعما ل ہوتی ہے۔ میز پر کچھ کتا بیں بکھری پڑی ہیں ۔ کچھ فا ئلیں بھی کھلی پڑی ہیں ۔ پرو فیسر اشرف حسین ایک فا ئل  کے کاغذات  الٹ پلٹ کررہے ہیں  جیسے کسی چیز کی تلا ش ہو ۔ پچھلے آدھے گھنٹے سے وہ یہی کررہے ہیں ۔ الما ری سے  فا ئل نکا لتے ہیں ۔ اس کے کا غذات الٹ پلٹ کر دیکھتے ہیں اور بند کرکے میز پر رکھ دیتے ہیں ۔ ان کی بیگم فرزانہ آتی  ہے اور جھا نک کر چلی جا تی ہے ۔ پندرہ منٹ بعد پھر آتی ہے ۔ پرو فیسر اشرف  اپنے کا م میں مصرو ف ہیں  ۔ 

 فرزانہ (کمرے میں داخل ہو کر ) :   پچھلے ایک گھنٹے سے آخر  یہ کیا کررہے ہیں آپ۔رات کے وقت یہ فضول کام لے کر بیٹھ گئے ۔    پرو فیسر اشرف:    دیکھ  رہی ہوں  پھر بھی پو چھ رہی ہو ۔ 

فرزانہ : ہا ں مگر کچھ وجہ بھی تو ہو ؟ آخر ان کتا بو ں اور فا ئلو ں میں کیا ہے جس کیلئے  انہیں نکا ل  میز پر بکھیر  رہے ہیں ۔   پرو فیسر اشرف:   ( مسکرا تے ہو ئے ) تمہارے پیا ر بھرے خطوط  جو تم  مجھے لکھا کرتی تھیں، جب میں پی ایچ ڈی کیلئے دہلی میں تھا ۔ سنبھا ل کر رکھے تھے میں نے ۔  شائع کرانے کی سوچ رہاہوں  ، بہ عنوان  فرزانہ کے خطوط ۔ 

 فرزانہ : ( طنز سے )  زہے نصیب ،کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا۔ میری  ایسی قسمت جو میری چیز آپ سنبھا ل کر رکھیں ۔ شا دی کے  بعد جب  تا ج محل  گئے تھے اور اس کے سا منے مسکرا تے ہو ئے  جو تصویر کھنچو ائی تھی  اسے تک تو گم کردیا آپ نے ۔ ہما رے پہلے سفر کی وہ نشانی تھی ۔  جب  سوچتی ہو ں تو بہت غصہ آتا ہے آپ پر ۔

  پرو فیسر اشرف: کتنی با ر یا د دلا ئو گی اس با ت کو۔میں تمہاری تصویر لے کر کیا کروں گا۔ (گنگناتے ہوئے)جو بات تجھ میں ہے  تیری تصویر  میں نہیں ۔گھبرائو  نہیں  تا ج محل کبھی  گئے تو مسکرا کر پھر کھنچو ا  لیں گے ۔ مسکرانے  پر کو ئی پا بندی تو نہیں لگ  جا ئے گی۔

  فرزانہ:    گزشتہ کئی برسوں سے یہ سنتی آرہی ہو ں ۔لیکن  نہ آگرہ گئے اور نہ تاج  پھر دیکھا  ۔  

 پرو فیسر اشرف: اچھا ٹھیک ہے ۔ یہا ں سے جا ئو مجھے اپنا شنا ختی کا رڈ ڈھونڈھنے دو ۔ کل میو نسپلٹی کا الیکشن ہے سو چ رہا ہو ں صبح پہلے ووٹ  دے دو ں پھر ما رننگ وا ک پر جائوں۔ پہلے ووٹ پھر واک  ۔  

فرزانہ (مسکراتے ہو ئے ) : آپ بھی گھر گھر رسو ئی گیس کا سلنڈر دینے والے طاہرکی طرح با ت کر رہے ہیں ۔  آج  وہ سلنڈر لے کرآیاتو ایک کاغذ دے کر کہا   ’’  پہلے ووٹ ڈلے گا،   پھر چو لھا جلے  گا  ۔ ‘‘ میں تو ہکا بکا  رہ گئی کہ کیا ہوا اسے جو یہ کہہ رہا ہے ۔ جب  باورچی خانے میں سلنڈر پہنچا کر اس نے  پھر وہی کہا تو میں بگڑ گئی کہ تو کو ن ہوتاہے  بولنے والا۔ میں  جب چاہوں چو لھا  جلائوں میری مرضی ۔ جواب دیا کہ کل ہماری یو نین کی میٹنگ بلائی گئی تھی ۔ الیکشن آفس کے ایک با بو آئے تھے چشمہ پہنے ۔ان کا حکم ہے ہر گھر میںیہ کہنے کا  ۔ کا غذ پر مو ٹے حرفوں میں بھی  یہی لکھاہے دیکھ لیجئے۔  ہم نے اپناکام کردیا اب آپ جا نیں ۔  

پرو فیسر اشرف  :  سچ! الیکشن کمیشن کی یہ کو شش بہت اچھی ہے کہ انتخا ب کے وقت اپنا پیغا م سب کے پاس پہنچا تا  ہے ۔  فرزانہ:    مگر اس کا  فا ئدہ ؟ ڈھاک کے تین پات  ۔جتنا کر و  ووٹ ۶۰؍ فیصد ۔  بڑھتا  ہی نہیں،کبھی اس سے بھی کم ۔   

پرو فیسر اشرف: فا ئدہ ہے کیو ں نہیں ، ایک  جمہو ری مزا ج بنتا  ہے ۔جا نتی ہو  ہمارے پڑوسی ممالک میں جو اتنے تنازعات   اور انتشا ر ہے اس کا سبب کیا  ہے؟ وہا ں کے حکمرا ں جمہو ری سیا ست کو  آگے بڑھنے نہیں دیتے  ۔عوام چپ رہے کچھ نہ بو لے ۔ حکو مت کی کرسی پر جو بھی بیٹھا چھوڑنے کا  نا م نہیں لیتا ۔ کچھ تو با ہر وا لوں کی سا زش   اور کچھ ان کی  اپنی کوتا ہی  جس سے  وہاں  ایسا بر ا حا ل ہے ۔ مگر افسوس  وہ  اپنی روش تبدیل کرنے کو تیار نہیں ہیں ۔    (کا ل بیل بجتی ہے ۔ )   فرزانہ  ذرا  دیکھنا کو ن ہے ۔ نہیں ٹھہرو میں دیکھتا ہوں۔ تم میرا الیکشن کا شناختی کارڈ ڈھونڈو۔ (پروفیسر اشرف  دروا زہ کھو لتے ہیں ۔  اختر دو سا تھیو ں کے سا تھ کھڑا ہے۔ )

 اختر :    آدا ب بھا ئی جا ن ۔

پرو فیسر اشرف  (  مسکراتے ہو ئے )  :  ارے بھا ئی  اختر تم، اتنی را ت گئے؟  خیر تو ہے؟  ماشااللہ تمہاری اردو  پہلے سے کافی نکھر گئی ہے   ۔بدھ کو فہیم ہوٹل  کے نکڑ پر جب تم تقریر رہے تھے میں بھی کھڑا سن رہاتھا۔تمہارے انداز بہت اچھا تھا ۔   اختر :  شکریہ بھا ئی جا ن ۔ہاں میں نے اسٹیج  پر سے دیکھا تھا آپ کو ۔  بھا ئی جا ن میں یہ کہنے آیا تھا کہ کل دن کا کھا نا مت بنوا ئیے گا۔  

 پرو فیسر اشرف(مسکراتے ہوئے): کیو ں کیا  تمہار ی شادی کی بارات  ہے جس کی دعو ت دینے آئے ہو ۔  

اختر :  یا د نہیں آپ کو؟  کل الیکشن ہے۔  ہما ری پا رٹی کی طر ف سے محلہ کے خا ص لو گو ں کے لیے مٹن بریا نی کا انتظا م ہے۔ آپ بے فکر رہئے ،   میں  وقت پر خو د پہنچا  جا ئو ں گا ۔  

پرو فیسر اشرف ( عا جزی سے ) :  دیکھو بھا ئی  اختر بھروسہ رکھو۔ میں سچ کہتا ہوں  ووٹ تمہا ری پا رٹی کو ہی دو ں گا  ۔مگر خدا کیلئے بریانی کا مت کہو ۔

 اختر : کیو ں بھا ئی جا ن  ایسی کیا نا را ضگی ۔ ہم سے کوئی خطا ہوئی جس کی یہ سزا  ہے  ۔ڈاکٹر مشتاق بھی لینے سے انکا ر کر رہے تھے  ۔ہمارے یقین دلانے پر مانے  ۔ 

 پرو فیسر اشرف:  کیوں بھول گئے ،پچھلے  میو نسپلٹی کے چنا ئو میں تمہا ری پارٹی کی بریا نی کھا کر سب بیمار پڑ گئے تھے  ۔ بدہضمی ہو گئی تھی ۔ مجھے اور مشتاق صا حب کو ہی نہیں محلہ کے اور لو گو ں کو بھی  شکایت ہے ۔

اختر :  یقین ما نئے سا را قصو ر اس  جھنّو  پرومو ٹر کا  تھا  ۔ اپو زیشن  کے سا تھ مل گیا تھا ۔

:پروفیسراشرف: یہی تو خرابی ہے۔کرے حکومت، الزام  اپوزیشن پر ۔

اختر  : یقین ما نئے الیکشن سے دو روز پہلے وہ  اپنے امیدوار  راجو بھا ئی  سے آکر بولا  پو رے محلہ کو بریا نی کھلا ئو ں گا ۔ یہ  اپو زیشن کی  چال تھی کہ خرا ب  بریانی کھلا کر ہمیں  بدنا م کرے ۔ ہما ری عقل ما ری گئی تھی جو جھنّو کی  با ت  مان گئے  ۔ 

 پرو فیسر اشرف : مگر اس کے با رے میں سنا ہے کہ  وہ تمہا ری پا رٹی کا   خاص آدمی ہے ۔جھنڈا پکڑے آگے آگے رہتا ہے ۔  

اختر : خاص اب  ہوا ہے پہلے نہیں تھا ۔ابھی اپنی حکومت ہے اس  لئے پلٹی کھاگیا ۔اچھا بھا ئی جا ن چلتے ہیں اور بھی کئی جگہ جا نا ہے  ۔ شب بخیر ۔  

پرو فیسر اشرف:( گھر کا گیٹ بند کرتے ہو ئے )  ارے  فرزانہ میرا شنا ختی کا رڈ ملا ؟

 فرزانہ :  ہا ں ملا  ۔ میز سے کتا بو ں اور فا ئلو ں کو ہٹا یئے ۔ کھا نا لگا تی ہوں۔ گیارہ بجنے کو آئے۔آج آلو کے پراٹھے اور چکن چانپ ہے۔  اشرف:  پہلے میرا شنا ختی کا رڈ دو پھر میں کتا بیں ہٹا ئوںگا۔ 

 فرزانہ :  میں آپ کی چا لا کی  اچھی طرح جا نتی ہو ں ۔کا رڈ مل جا نے کے بعد مکر جا ئیں گے۔ کتا بیں نہیں ہٹا ئیں گے اور مجھے کہیں گے رکھ دو  ۔ بکھیڑا آپ نے پھیلایا ہے آپ ہی درست کریں ۔   

 پرو فیسر اشرف:  اچھا ،لو  (کتا بیںالما ری میں رکھنا شروع کرتے ہیں ۔ )  اب تو بتا ئو ۔

 فرزانہ :  وہ آپ کے آفس کے بیگ میں بالکل اندر والے خانے میںپڑا ہے ۔ بغل میںلڑکا  شہر میں ڈھنڈورا  ۔

  پرو فیسر اشرف:  واہ کما ل ہو گیا  ۔ میں اتنی دیر خوا ہ مخوا ہ پریشا ن ہو ا ۔ بیگ کی طرف خیال ہی نہیں گیا ۔(پردہ گرتاہے)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK