Inquilab Logo

مذہب اسلام کی اہانت کاخاتمہ اتحاد ِ اُمت ہی میں مضمر ہے

Updated: August 21, 2020, 12:22 PM IST | Anwarul Haque Qasmi Nepali

صرف یہ کہہ کر کہ ہم مسلمان اقلیت میں ہیں ، خاموشی ہی ہمارے لئے زیادہ موزوں ہے؛ ہم کوئی کامیابی حاصل نہیں کرسکتے، ہمیں مثبت جمہوری لائحہ عمل اپنانا ہوگا

Jama Masjid - Pic : PTI
جامع مسجد ۔ تصویر : پی ٹی آئی

    ہم مسلمان ہیں، ہم نے اپنا معبود حقیقی صرف خدائے وحده لا شریک کو تسلیم کیا ہے، ہم نے اس بات کا بھی سچے دل سے اقرار کیا ہے کہ جب سے یہ دنیا قائم ہے خدائے لم یزل نے اس کرہ ارضی میں اپنی عبادت و اطاعت کو یقینی بنانے کیلئے وقفے وقفے سے کم و بیش ایک لاکھ  چوبیس ہزار انبیاء کرام کو مبعوث فرمایا، جن میں سب سے اول حضرت آدم  علیہ الصلاۃ والسلام  تھے اور آخر ی پیغمبر حضرت سرور کونین محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم تھے، جن پر اب رہتی دنیا تک کے لئے نبیوں اور رسولوں کا سلسلہ ختم ہوچکا ہے۔ فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: أناخاتم النبيين لانبي بعدي. میں  آخری نبی ہوں،  میرے بعد اب کوئی نبی آنے والا نہیں ہے، میرے بعد  اگر کوئی نبوت کا دعویٰ کرتا ہے ، تو وہ اپنے دعوے میں جھوٹا ہے، اس کی تکذیب کرو، تصدیق   ہر گز مت کرو!
   ہمیں اللہ اور اس کے آخری نبی سرور کائنات محمد ٰمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان  پر نازل کردہ آخری کتاب ’’قرآن مجید‘‘سے نیز دیگر شعائر اللہ سے بے پناہ عقیدت و محبت ہے، جب تک ہمارے جسم میں جان ہے، ہم جسم کے ہر ہرعضو سے اللہ کی وحدانیت و معبود حقیقی ہونے  اور فخر کائنات محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت اور قرآن مجید کےمنزل من الله  ہونے کا اقرار بھی کرتے رہیں گے، زبان و قلم کے ذریعے اشاعت اسلام کا فریضہ بھی انجام دیتے رہیں گے۔
    اگر کوئی بدبخت ہمارے’’معبود‘‘کے خلاف، ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘کے خلاف،’’قرآن مجید‘‘کے خلاف اور ’’صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین‘‘ کے خلاف زبان طعن دراز کرے گا، یا کچھ لکھے گا، تو ہم اسے ہرگز ہرگز برداشت نہیں کریں گے۔ ہمارے اسلاف نے حفاظتِ اسلام کے لئے ’’جان‘‘کی ضرورت پڑی تو جان، ’’خون‘‘ کی ضرورت پڑی تو خون اور ’’اولاد ‘‘کی ضرورت پڑی تو اولاد، الغرض ہر اعلیٰ سے اعلیٰ اور ادنیٰ سے ادنیٰ  چیز کو بسروچشم قربان کیا مگر مذہب اسلام کی معمولی اہانت و تذلیل قطعی برداشت نہیں کی  کیونکہ دین اسلام کی سربلندی میں ہماری سربلندی ہے اور اس کی تذلیل درحقیقت ہماری تذلیل ہے، اگردین اسلام محفوظ ہے، توپھر ہم بھی محفوظ ہیں  اگر وہ محفوظ نہیں تو ہم بھی محفوظ نہیں۔یہ ایمان اور عقیدے کا معاملہ ہے۔ خوش قسمتی کی بات ہے کہ  وطن عزیز نے بھی اپنے آئین میں مذہبی آزادی کو یقینی بنایا ہے اور اقوام متحدہ کا چارٹر بھی مذہبی آزادی کو فوقیت دیتا ہے۔ 
    یادرہے کہ ہمارا ملک  ایک جمہوری ملک ہے، یہاں ہر مذہب کے ماننے والوں کو مکمل آزادی اور اختیارکلی ہے کہ وہ اپنے مذہب کے مطابق آزادانہ زندگی بسر کرے اور اپنے مذہب کے تمام ہی مقتضیات پر عمل کرے۔ کسی کو یہ قطعی  اجازت نہیں ہے کہ وہ کسی دوسرے مذہب کی تحقیر یا تذلیل و توہین کرے، اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو وہ قانوناً جرم عظیم کا مرتکب سمجھا جاتا ہے، اور اس کے خلاف حکومت سخت ایکشن بھی لیتی رہی ہے؛ مگر گزشتہ چند برسوں سے حالات دن بہ دن بدل رہے ہیں اور ایسا لگتا ہے جیسے جمہوریت ختم ہوتی جارہی ہے۔ کانگریس کے طویل دور اقتدار میں بھی ایسے مسائل درپیش آئے مگر موجودہ حکومت جس پارٹی کی ہے اُس نے تو دعویٰ کیا تھا کہ اس کا انداز حکمرانی مختلف ہوگا! اس کے باوجود اب توجو چاہتا ہے بلادریغ مذہب اسلام کی توہین کرتا ہے اور افسوس کہ موجودہ حکومت یا تو بالکلیہ اس کے خلاف ایکشن ہی نہیں لیتی  یا لیتی بھی  ہے تو بہت کچھ معاملات کےوقوع کےبعد۔
    اسی سلسلے کی ایک کڑی ہےکہ حال ہی میں ایک ممبر اسمبلی اکھنڈ شری نواس مورتی کے  بھانجے نوین نامی شخص نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں اہانت آمیز جملہ سوشل میڈیا ( فیس بک) پر پوسٹ اور وائرل کیا جس  سے مسلمانوں کو سخت صدمہ لازمی اور فطری تھا جو ہوا۔
     شان رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں اہانت آمیز جملہ سے ہرمرد مومن کارنجیدہ اور ملول ہونا،یہ تو ان کے کامل مومن ہونے کی علامت ہے ؛کیوں کہ ہم اس وقت تک سچے  اور پکے بلکہ معمولی بھی مومن نہیں ہوسکتے، جب تک ہمارے افکار و قلوب میں عظمت رسول اور عشق  رسول صلی اللہ علیہ وسلم موجزن نہ ہو۔  اس دنیائے فانی کایہ  نظام ہے کہ محبوب و معشوق کی تذلیل و تحقیر سے  محب وعاشق کا رنجیدہ دل اور کبیدہ خاطر ہونا ایک فطری بات ہے، تو جب معمولی  محبوب و معشوق کی تذلیل سے معمولی محب وعاشق  کا کبیدہ خاطر ہونا فطری ہے، تو کیا غیر معمولی اور عظیم محبوب  و معشوق کی شان اقدس کی تذلیل  وتحقیرسے غیر معمولی اور عظیم محب وعاشق یعنی ہرفردِ مومن کا رنجیدہ دل  ہونا   فطری نہیں؟ بلکہ یہ تو زیادہ  فطری ہے۔  اگر کسی مومن کو تکلیف نہیں ہوئی تو وہ مومن و مسلم ہی نہیں ہے۔
    کرناٹک کے شہر بنگلور کے نوین نامی شخص کا  شان رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں اہانت آمیز جملہ   فیس بک پر وائرل ہوتے ہی مسلمانوں میں غم و غصے کا ماحول پیدا ہو گیا۔ اسی انتقامی کارروائی کے لئے مسلم نوجوان۱۱؍ اگست کی رات گستاخ نوین کے خلاف برہمی و ناراضگی اور احتجاج ظاہر کرنے کے لئے رکن اسمبلی کے گھر پہنچے جہاں کافی ہنگامہ ہوا، اور دیکھتے  ہی دیکھتے شہر کا ماحول بالکل خراب ہوگیا، تو مجبوراً( بغیر فائرنگ کے اس مشتعل بھیڑ کو قابو اور کنٹرول میں کرنے کی بظاہر ساری صورتیں مفقود ہونے کی وجہ سے) فائرنگ ہوئی، جس کے سبب۳؍ افراد کی موت ہو گئی اور کئی افراد زخمی  ہوگئے، الغرض سانحہ بنگلور  فرقہ وارانہ تشدد کی ایک کھلی تصویر تھی، جس نے بڑے پیمانے پر تباہی و بربادی مچائی، اس تشدد کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہی ہے۔
    سوال یہ ہے کہ جمہوری ملک ہندوستان میں آئے دن مذہب اسلام اور مسلمانوں کی برملا تذلیل و تحقیر کیوں کی جاتی ہے ؟کیا ہندوستان کے  پندرہ کروڑمسلمانوں میں اتنی طاقت و قدرت نہیں ہے ،کہ وہ مذہب اسلام کی توہین پر دائمی قدغن لگا سکیں؟ یا صرف یہ کہہ کر چپ رہنا مناسب ہوگا کہ ہم مسلمان اقلیت میں ہیں  اس لئے سکوت اور خاموشی ہی ہمارے لئے زیادہ موزوں ہے؟
     ان سارے سوالات کا جواب  بس یہی ہے کہ آج اغیار ہمارے دین اسلام کی تذلیل و تحقیر علانیہ یا خفیہ طور پر صرف اس لئے کر رہے ہیںکہ ہماری صفوں میں اتحاد و اتفاق نہیں ہے، ہم اپنی محفلوں اور مجلسوں میں اسلام اور مسلمانوں کے  دشمنوں کو مدعو کرنا تو پسند کرتے ہیں ،مگر ایک سچے، پکے اور جید عالم دین کو محض مسلکی  ہم آہنگی نہ ہونے کی وجہ سےپسند نہیں کرتے، اور دشمنان اسلام ہیں کہ وہ ہماری مجلسوں میں آکر بظاہر ہمارے رنجیدہ اور شکستہ قلوب کو تسلی دے کر ہماری اوقات کو بھانپ  لیتے ہیں، پھر یہ ہمیں حاشئے پر لانے کے لئے طرح طرح کی تدبیریں اختیار کرنے لگتے ہیں، اور افسوس کہ ہمیں  اس کا علم بھی نہیں ہو پاتا ، کہ یہ  سب کچھ انہی مار آستین کی کارستانیوں کا نتیجہ ہے، تو پھر کیا ہماری تذلیل و تحقیر نہیں کی جائے گی؟ تو کیا تعظیم و توقیر کی جائے گی ؟
    اگر ہم چاہتے ہیں کہ باعزت وپرامن زندگی بسر کریں اور مذہب اسلام، شعائر اللہ کی پھر کبھی تحقیر و تذلیل نہ ہو، تو ہمیں جملہ احکامات خداوندی پر عمل کرنے اور مرضیات رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے موافق زندگی بسر کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی صفوں میں اتحاد و اتفاق قائم کرناہوگا، مسلکی اختلافات اور آپسی ناچاقی کو برطرف کرکے ہمیں باہم متحد و متفق ہونا پڑے گا۔ یہی نہیں ہمیں اپنی معاشی، تعلیمی، سماجی اور شہری حیثیت اور شناخت کو مستحکم کرنے کیلئے سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا کہ ہم کس طرح ہمدرد اور انصاف پسند برادران وطن کی مدد سے خود کو سنوار سکتے ہیں اور اپنی سیاسی حیثیت کو مضبوط کرتے ہوئے اس ملک کے ذمہ دار شہری کی حیثیت سے اپنا قدوقامت بلند کرسکتے ہیں۔ 
کون نہیں جانتا کہ اتحاد سب سے بڑی قوت ہے کسی بھی قوم کی۔ اگر ہماری قوم میں بھی اتحاد پیدا ہوجائے اور ہم سر جوڑ کر بیٹھنے، ایک دوسرے کی سننے، کسی نتیجے تک پہنچنے اور اتفاق رائے کا ماحول پیدا کرنے میں کامیاب ہوجائیں تو اس کے نہایت خوشگوار اثرات مرتب ہوں گے اس کیلئے ہمیں کچھ اس طرح ہو جانا پڑے گا کہ کبھی خیال و تصور میں بھی یہ بات نہ آئے کہ زندگی میں کبھی ہمارے مابین کسی طرح کا کوئی اختلاف رہا ہے، تب ہی جاکر ہمیں  اپنے مقصد میں کامیابی مل سکتی ہے اور ہم اسلام کی سربلندی کے ساتھ زندگی بسر کر سکتے ہیں،ورنہ یہ خواب ہمیشہ تشنۂ تعبیر رہے گا!
  اگر ہم متحد ہو گئے تو یہ اتحاد کئی مسائل کا حل ثابت ہوگا۔ اخیر میں واضح کردوں کہ اتحاد کے معنی اختلافات کو برقرار یا بالائے طاق رکھ کر ایک پلیٹ فارم پر آنا ، ایک دوسرے کو سمجھنا، ایک دوسرے کی طاقت بننا اور اتفاق رائے قائم کرنا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK