Inquilab Logo

یورپی یونین کی قراردادیں

Updated: January 28, 2020, 10:34 AM IST | Editorial

یورپی یونین کی پارلیمنٹ میں داخل کی گئی ۶؍ قرار دادوں میں ہندوستان کو سی اے اے اور کشمیر کے حالات پر مورد الزام ٹھہرایا گیا ہے۔ یہ پارلیمنٹ دُنیا کی بہت بڑی طاقتوں میں سے ایک ہے جس کے ۷۵۱؍ اراکین میں سے ۶۲۶؍ کی پارٹیوں نے یہ قراردادیں پیش کی ہیں جن میں پروگریسیو اَلائنس آف سوشلسٹس اینڈ ڈیموکریٹس، یوروپین پیوپلز پارٹی اور یوروپین یونائٹیڈ لیفٹ اینڈ نورڈک گرین لیفٹ شامل ہیں۔

یورپی یونین کی قراردادیں ۔ تصویر : آئی این این
یورپی یونین کی قراردادیں ۔ تصویر : آئی این این

 یورپی یونین کی پارلیمنٹ میں داخل کی گئی ۶؍ قرار دادوں میں ہندوستان کو سی اے اے اور کشمیر کے حالات پر مورد الزام ٹھہرایا گیا ہے۔ یہ پارلیمنٹ دُنیا کی بہت بڑی طاقتوں میں سے ایک ہے جس کے ۷۵۱؍ اراکین میں سے ۶۲۶؍ کی پارٹیوں نے یہ قراردادیں پیش کی ہیں جن میں پروگریسیو اَلائنس آف سوشلسٹس اینڈ ڈیموکریٹس، یوروپین پیوپلز پارٹی اور یوروپین یونائٹیڈ لیفٹ اینڈ نورڈک گرین لیفٹ شامل ہیں۔ قراردادوں پر آج مباحثہ ہوگا جبکہ آئندہ روز ان کے تعلق سے فیصلہ کیا جائیگا۔ یورپی یونین کا وطن عزیز کیخلاف قراردادیں منظور کرنا ہمارے لئے ٹھیک نہیں ہے۔ اس سے عالمی سطح پر جو رائے بنے گی وہ بھی اُتنی ہی ضرر رساں ہوگی جتنی کہ عالمی میڈیا میں شائع ہونے والی اب تک کی رپورٹیں ہیں۔ اس سے قبل مشہور انگریزی جریدہ ’’اکنامسٹ‘‘ کے انٹیلی جنس یونٹ نے ۱۶۵؍ ملکوں کی جمہوری صحت کا جائزہ لیتے ہوئے ہندوستان کو ۵۱؍ واں مقام دیا جو پچھلے سال کی ریٹنگ سے ۱۰؍ مقام نیچے تھا۔ اس کے بعد اسی جریدہ نے ہندوستان کے حالات پر ایک کور اسٹوری شائع کی جس کے سرورق پر ہندوستان کو ’’ عدم رواداری کا شکار‘‘ (اِن ٹالرنٹ ) قرار دیا۔ یہی نہیں، مشہور امریکی اخبارات وال اسٹریٹ جرنل اور واشنگٹن پوسٹ سمیت مختلف ملکوں کے متعدد اخبارات ہندوستان کے فیصلوں کا ناقدانہ جائزہ لینے والی رپورٹیں شائع کرچکے ہیں۔ گزشتہ دنوں دیووس میں ممتاز عطیہ دہندہ اور سرمایہ کار جارج سوروس نے ورلڈ اکنامک فورم کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ہندوستان کو ہدف تنقید بنایا اور کشمیر کے حالات نیز شہریت ترمیمی قانون کو ’’سب سے بڑا اور سب سے خطرناک دھچکا‘‘  قرار دیا۔ یہاں فہرست سازی مقصود نہیں بلکہ یہ بتانا ہے کہ کس طرح وطن عزیز کی شبیہ عالمی سطح پر تسلسل کے ساتھ خراب ہورہی ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ وزیر اعظم مودی اپنے بیرونی دوروں کیلئے مشہور ہیں جنہوں نے پچاسوں ملکوں کے دوروں کی بابت ہمیشہ یہی تاثر دیا ہے کہ وہ ملک کی شبیہ میں چار چاند لگانے اور بیرونی سرمایہ کاروں کو ملتفت کرنے کیلئے کوشاں ہیں۔ اُن کی اس قدر تگ و دو سے کیا حاصل ہوگا اگر عالمی شخصیات، ادارے اور میڈیا ہندوستان کے تعلق سے بدظن اور بددل رہیں!
 یورپی پارلیمنٹ کی زیر بحث قراردادوں پر نئی دہلی نے فوری ردعمل کا اظہار کیا اور کہا کہ قراردادوں پر بحث اور اُن کی منظوری سے قبل یورپی یونین کو حکومت ہند سے رجوع کرکے صحیح معلومات حاصل کرنی چاہئے۔ یہ بھی کہا کہ عمل میں لائے جانے والے اقدامات ’’ضروری جمہوری طریق کار کی تکمیل‘‘ کا نتیجہ ہیں۔ تیسری بات جس کی یادد ہانی کرائی گئی، وہ یہ ہے کہ یہ ہندوستان کا داخلی معاملہ ہے۔ 
 بلاشبہ یہ داخلی معاملہ ہے مگر اس موڑ پر حکومت کو سوچنا ہوگا کہ آخر حالات اس قدر پریشان کن ہوئے ہی کیوں کہ بیرونی میڈیا، حکومتیں اور ادارے اپنا ردعمل ظاہر کرنے پر مجبور ہوں۔ اُن کے درمیان میں آنے کی  وجوہات ہیں۔ وہ یہ کہ سی اے اے کی وجہ سے خدانخواستہ جو صورتحال پیدا ہوگی اس کے اثرات بیرون ملک بھی مرتب ہوسکتے ہیں، پناہ گزینوں کا سنگین بحران پیدا ہوسکتا ہے، اس کے علاوہ ہندوستان کی جمہوریت پر شکوک و شبہات کے بادل منڈلا رہے ہیں، آئین پر سوال اُٹھ رہا ہے اور آبادی کے بہت بڑے طبقے کے حقوق کی پامالی کا خطرہ پیدا ہورہا ہے اس لئے درحقیقت یہ ہماری کارروائیاں ہیں جو دیگر ملکوں کو موقع فراہم کررہی ہیں۔ 
  یورپی یونین ہندوستان کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار (ٹریڈنگ پارٹنر) ہے۔ چین اور امریکہ کا نمبر اس کے بعد ہی آتا ہے۔ ویسے بھی متعدد تجارتی شرائط پر اس کا اور ہمارا نباہ مشکل سے ہورہا ہے، مذاکرات بمشکل آگے بڑھ رہے ہیں، اسلئے ضروری ہے کہ کشمیر پالیسی از سرنو مرتب کی جائے اور شہریت ترمیمی قانون کو واپس لیا جائے تاکہ ہمارے داخلی اُمور میں کوئی شخص، ادارہ یا حکومت دخل نہ دے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK