Inquilab Logo

دُنیا میں موجود ہر فن و صنعت اَصلاً قرآن سے ثابت ہے

Updated: December 03, 2021, 1:59 PM IST | Dr Tahir-ul-Qadri

قرآن اپنے ماننے والوں کو محض ذکر و عبادت اور اَخلاق و رُوحانیت کا ہی درس نہیں دیتا بلکہ دنیا میں ہر قسم کی علمی، فنی، صنعتی، سائنسی اور فوجی ترقی کی راہیں بھی کشادہ کرتا ہے

One hundred 14 years ago, it was said that after the conquest of the moon, human endeavors will not end..Picture:INN
؍۱۴؍سو سال قبل یہ فرمادیا گیا ہے کہ تسخیرِ مہتاب کے بعد اِنسان کی تگ و دَو ختم نہیں ہو جائے گی بلکہ جاری رہے گی۔ تصویر: آئی این این

واقعہ ٔ  تسخیر ِ ماہتاب اور قرآن‘(گزشتہ سے پیوستہ)قرآن قسم کھا کر کہہ رہا ہے کہ قسم ہے چاند کی جب وہ پورا ہو جائے،  اے بنی آدم! تم ضرور سواری کرتے ہوئے جاؤ گے… کہاں سے کہاں تک… ایک طبق سے دُوسرے طبق تک۔ پہلا طبق تو یقیناً زمین ہے کیونکہ مخاطب اہلِ زمین تھے جو کسی دُوسرے طبق تک جائیں گے۔ دُوسرے طبق کا تعین بھی حکیمانہ انداز میں کیا گیا۔ اگر یہاں دُوسرے طبق کے لفظ کی بجائے سیدھا چاند ہی کہہ دیا جاتا تو پھر تسخیرِ کائنات کی مہم صرف طبقِ مہتاب تک ہی محدود و محصور تصور کی جاتی۔ ربِ ذوالجلال کو یہ منظور نہ تھا کہ انسان کی پرواز زمین کے بعد چاند پر جا کر رک جائے بلکہ وہ چاند کے بعد دیگر اَجرامِ فلکی کی تسخیر بھی چاہتا تھا۔ اِسی لئے لفظ طَبَقٍ کو تنوین کے ساتھ عام کر دیا تاکہ یکے بعد دیگرے اِنسان اَجرام و طبقاتِ کائنات کو تسخیر کرتا چلا جائے اور رازِ کائنات فاش کرنے کی مہم جاری رہ سکے۔ لیکن پہلا طبق جس پر اوّلاً اِنسان پہنچے گا وہ چاند ہو گا۔ اِس لئے اُس کی قسم پہلے کھائی گئی کیونکہ زمین کے سب سے زیادہ قریب چاند ہی کا طبق تھا اور باقی سب اُس کے مقابلے میں دُور تھے۔ آج سے چودہ سو سال قبل اہلِ زمین کو یہ پیشین گوئی سنائی گئی کہ تم میں سے کم از کم تین شخص کسی چیز پر سوار ہو کر پرواز کریں گے اور زمین کے طبق سے چاند تک پہنچیں گے، لیکن تسخیرِ مہتاب کے بعد اِنسان کی تگ و دَو ختم نہیں ہو جائے گی بلکہ جاری رہے گی۔ اَب اِسی طرح مریخ کے طبق تک بھی اِنسان رسائی حاصل کرتا دکھائی دے رہا ہے۔ اِنسانی پرواز کی یہ کامیاب کاوِشیں دراصل واقعہ ٔ  معراج کی صحت و حقانیت پر رَوشن مادّی دلیلیں بنتی جا رہی ہیں۔ بقول علامہ اِقبال ؔ :
سبق ملا ہے یہ معراجِ مصطفی سے مجھے
کہ عالمِ بشریت کی زد میں ہے گردُوں
اور یہ حقیقت بھی ہے کہ معجزات و کرامات جن کے اِمکان و وقوع کو انسانی عقل منطقی پیمانوں پر سمجھنے سے قاصر تھی، سائنس و ٹیکنالوجی کے فروغ نے کسی حد تک اُن کے سمجھنے کی مادّی اور عقلی بنیادیں فراہم کر دی ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ امر منکشف ہوتا جا رہا ہے کہ انسان جسے ایک دَور میں ناممکن سمجھتا ہے وہ مستقبل میں نہ صرف ممکن بلکہ واقع ہو جاتا ہے۔ اِس لئے نام نہاد تعقل پسند طبقے کے اِنکارِ خوارق کی یہ دلیل کہ یہ بات عقل کے خلاف ہے اور سمجھ میں نہیں آتی قابلِ اِلتفات نہیں رہتی کیونکہ عقل کا اِنحصار صرف محسوسات و مشاہدات پر ہوتا ہے اور جب تک کوئی حقیقت محسوس نہ ہو یا اُس کی کوئی مثل مشاہدے میں نہ آئی ہو، عقل اُس کے اِمکان کو کیونکر سمجھ سکتی ہے! اِس لئے عقل کا فیصلہ جزئی و اِضافی ہوتا ہے، وہ کلی و مطلق نہیں ہو سکتا۔ جبکہ قرآن کا ہر دعویٰ ابدی ہے، اِس لئے عین ممکن ہے کہ اِنسانی عقل قرآن کے بعض دیگر دعاویٰ و اِعلانات کو آج ممکن نہ سمجھے لیکن مستقبل کے کسی دَور میں وہ سب کچھ ممکن اور واقع نظر آنے لگے۔ لہٰذا محض عقل کے قصورِ فہم کی بنا پر کسی حقیقت کا اِنکار کر دینا نادانی ہے، عافیت اِیمان بالغیب میں ہی ہے۔ طبق محض کسی سیارے کی سطح (soil surface) کو نہیں کہتے بلکہ کسی سیارے اور اُس کے گرد فضائی حدود پر مشتمل اُس وسیع و عریض حلقے کو کہتے ہیں جہاں تک اُس سیارے کی کششِ ثقل اثرانداز ہوتی ہے اور یہ علاقہ یا طبق سیارے کی سطح کے گرد فضا میں ہزاروں میل تک محیط ہوتا ہے۔ جس طرح ہوائی جہاز کی پرواز زمین کی سطح پر نہیں بلکہ اس سے اوپر فضا میں ہزاروں فٹ کی بلندی پر ہوتی ہے لیکن طبق ارضی میں ہی تصور کی جاتی ہے۔ چنانچہ قرآن بھی طبق ارضی سے پرواز کر کے انسان کے دیگر طبقات فلکی تک پہنچنے کی پیشگوئی کر رہا ہے۔ انسان کی ایسی کامیابیوں کی وجہ یہ بھی ہے کہ اس کائنات کے اندر یعنی آسمانوں اور زمین کی وسعتوں میں جو کچھ موجود ہے وہ اِنسان کے لئے تخلیق کیا گیا ہے اور انسان ہی کے لئے مسخر کیا گیا ہے، جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :’’اور اُس (اللہ) نے آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے وہ سب تمہارے لئے مسخر کر دیا ہے۔‘‘(الجاثيه:۱۳)اس کے بعد سورۂ اِنشقاق کی زیر مطالعہ آیت سے آگے فرمایا گیا :
’’تو اُنہیں کیا ہو گیا ہے کہ (قرآنی پیشین گوئی کی صداقت دیکھ کر بھی) اِیمان نہیں لاتے۔‘‘الغرض دُنیا میں موجود ہر فن و صنعت جو اِنفرادی، اِجتماعی اور عالمی سطح پر اِنسانی زندگی کی بقا و دوام اور فروغ و اِرتقاء کے لئے ضروری ہے اَصلاً قرآن سے ثابت ہے۔ علوم و فنون کے حوالے سے قرآنِ مجید کی جامعیت کے بیان سے یہ حقیقت بھی اظہر من الشمس ہو گئی کہ قرآن اپنے ماننے والوں کو محض ذکر و عبادت اور اَخلاق و رُوحانیت کا ہی درس نہیں دیتا بلکہ دنیا میں ہر قسم کی علمی، فنی، صنعتی، سائنسی اور فوجی ترقی کی راہیں بھی کشادہ کرتا ہے تاکہ ملت ِ اسلامیہ ایک ہمہ گیر ترقی پسند اُمت کے طور پر اُبھرے اور آفاقی سطح پر اِنقلاب بپا کر کے عظیم مقام حاصل کر لے کیونکہ اُس کے بغیر عالمگیر غلبہ  ٔ حق کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ جس کی نشاندہی قرآن نے پیغمبر ِ اِسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقصد ِ بعثت کے حوالے سے فرما دی ہے۔اِرشادِ ربانی ہے :’’اللہ وہ ہے جس نے اپنے رسولِ معظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہدایت اور دینِ حق دے کر اِس لئے بھیجا کہ اُس نظامِ حق کو دُنیا کے تمام نظاموں پر غالب کر دے۔ خواہ مشرک اُس کی مخالفت کرتے رہیں۔‘‘ (الصف:۹)گزشتہ اَنبیائے کرام کے زمانوں میں وحی کا سلسلہ جاری تھا اور ہر ایک الہامی کتاب کا بدل اگلے زمانے میں بنی نوع اِنسان کو کسی دوسری اِلہامی کتاب یا صحیفے کی صورت میں میسر آ رہا تھا۔ اِس لئے اُن کتابوں کو اِس قدر جامع بنانے کی ضرورت نہ تھی اور نہ ہی کسی کتاب کو ہمیشہ کے لئے اپنی اصلی حیثیت میں باقی رہنا تھا۔ اس کے برعکس خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد نہ کوئی اور نبی یا رسول آ سکتا تھا اور نہ قرآن کے بعد کوئی آسمانی وحی۔ چنانچہ ضروری تھا کہ نبوت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آفاقی، کائناتی، ابدی، کلی، حتمی، قطعی اور آخری بنانے کے لئے ہر اِعتبار سے کامل اور جامع بنایا جائے اور اِس طرح وہ کتاب جو نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازِل ہوئی اُسے بھی عالمگیر اور ابدی بنانے کے لئے اِس قدر جامع کیا جائے کہ اِنسانیت کو سب کچھ اُس کتاب کے دامن سے میسر آ سکے اور کسی کو دُوسری سمت متوجہ ہونے کی کوئی ضرورت ہی نہ رہے۔
قرآن اپنی جامعیت کا ذِکر اِس انداز میں کرتا ہے :
’’وہ (اُن پر) پاکیزہ اَوراقِ (قرآن) کی تلاوت کرتے ہیں جن میں درُست اور مستحکم اَحکام  ہیں۔‘‘ (البينه:۲۔۳)
کوئی ضرورت کی چیز جس پر اِنسانی زندگی کا اِنحصار ہو، قرآن سے خارج نہیں۔ باوجود قلتِ حجم کے اُس میں وہ تمام علوم و معارِف بیان کر دیئے گئے ہیں، جن کا اِحصاء و اِستیفاء کوئی فرد نہیں کر سکتا تھا۔
خود قرآن اِعلان کرتا ہے :
’’اور اگر زمین میں جتنے درخت ہیں سب قلم بن جائیں اور سمندر ون کی سیاہی، اُس کے بعد سات سمندر اور ہوں تو بھی اللہ کے کلمات ختم نہ ہوں گے (یعنی کلامِ اِلٰہی کی وُسعت و جامعیت کا اِحاطہ نہیں ہو سکے گا)، بیشک اللہ تعالیٰ غالب حکمت والا ہے۔‘‘ (لقمان:۲۷)
قرآنِ مجید کے اِسی اِعجازِ جامعیت اور ابدی فیضان کا ذِکر کرتے ہوئے اِمام جلالُ الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ یہ شعر نقل کرتے ہیں ،(ترجمہ):
 ’’قرآن چودھویں رات کے چاند کی مانند ہے، تو اُسے جس طرف سے بھی دیکھے وہ تیری آنکھوں کو چمکتا ہوا نور عطا کرے گا۔ یہ قرآن آفتاب کی طرح آسمان کے وسط میں ہے لیکن اُس کی روشنی دُنیا کے مشارق و مغارب سب کو ڈھانپ رہی ہے۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK