Inquilab Logo

عدلیہ پر غیر معمولی بوجھ اور مقننہ و انتظامیہ پر؟

Updated: June 26, 2022, 11:06 AM IST | Aakar Patel | Mumbai

عدالتوں پر مقدمات کا بوجھ بڑھنا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ البتہ نئی بات یہ ہے کہ اب ایسے مقدمات کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہیں جن میں شہری اپنے حقوق کے تحفظ کیلئے انتظامیہ کے خلاف عدالت سے رجوع ہوئے ہیں۔

An eminent judge of our Supreme Court made an important point during his address abroad
ہمارے سپریم کورٹ کے جج صاحبان میں سے ایک فاضل جج نے بیرون ملک خطاب کے دوران ایک اہم نکتہ پیش کیا

ہمارے سپریم کورٹ کے جج صاحبان میں سے ایک فاضل جج نے  بیرون ملک خطاب کے دوران ایک اہم نکتہ پیش کیا۔ اس خطاب کی رپورٹنگ شائع کرتے ہوئے ایک لیگل ویب سائٹ نے اس رپورٹ کو جو عنوان دیا اس کا مفہوم اس طرح ہے: ’’اگر عدالتوں کو شہریوں کے حقوق کی حفاظت کا واحد شعبہ قرار دیا گیا تو یہ ڈھلوان یا پھسلن پر چلنے کے مترادف ہوگا۔‘‘
 فاضل جج ، جن کا نام درج کرنا اتنا اہم نہیں جتنا اُن کے بیان کردہ نکتے کو سمجھنا ہے ، نے جو کچھ کہا اس کا لب لباب یہ ہے: ’’ملک میں مقدمہ بازی کا بڑھتا رجحان اس بات کا اشارہ ہے کہ سیاسی اُمور میں صبروتحمل کی کمی آگئی ہے۔ یہ ڈھلوان یا پھسلن کی طرح ہے کیونکہ عدلیہ کو حقوق کے تحفظ کے معاملات میں واحد شعبہ بنادیا گیا ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ عاملہ اور مقننہ بھی اس جانب توجہ دیں۔‘‘ 
 فاضل جج کے الفاظ واضح ہیں اور مفہوم بھی واضح ہے، پھر بھی سوچنے اور غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اُنہوں نے کیا کہا اور جو کہا اس کا مطلب کیا ہے۔ میرے خیال میں اس کا مفہوم یہ ہے کہ شہریوں کو اپنے حقوق کیلئے حکومت اور منتخبہ نمائندوں سے بھی رجوع کرنا چاہئے۔ عدالتیں بھی اہم ہیں مگر عدالتیں ہی حق کی حفاظت یا حق کے حصول کی واحد جگہ نہیں ہیں۔ یہی طریقہ ہے جس کے تحت دُنیا کی جمہوریتیں جاری و ساری رہتی ہیں اور شہریوں کے حقوق کا تحفظ ہوتا ہے۔ اپنے حقوق کیلئے شہریوں کو جہاں جہاں سے مدد مل سکتی ہے اُن میں سے ایک عدلیہ بالخصوص سپریم کورٹ ہے۔ امریکہ کا سپریم کورٹ سال میں صرف ۸۰؍ مقدمات فیصل کرتا ہے۔ ہندوستان میں ۷۰؍ ہزار کیسیز معرض التواء میں ہیں۔ اس کا معنی یہ ہے کہ امریکہ کے اور ہمارے نظام عدل میں بہت بلکہ غیر معمولی فرق ہے جبکہ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ ہندوستان کا نظام عدل امریکی نظام سے مشابہ ہے۔
 ۱۹۴۹ء میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ ہندوستان میں سپریم کورٹ قائم ہوگا جس میں ججوں کی تعداد ۸؍ سے زیادہ نہیں ہوگی (آرٹیکل ۱۲۴)۔ امریکی سپریم کورٹ کے ججوں کی تعداد ۹؍ ہے۔ مگر وقت کے ساتھ ہمارے یہاں ججوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہا۔ فی الحال ہمارے سپریم کورٹ میں ۳۰؍ جج ہیں۔ امریکی جج صاحبان کسی مقدمے کو ایک ساتھ سنتے ہیں جبکہ ہندوستان میں الگ الگ بنچ قائم کئے گئے ہیں جنہیں ضمانت کی عرضیوں سے لے کر املاک اور جائیداد کے مقدمات تک کم و بیش ہر چیز کی سماعت کرنی پڑتی ہے۔ امریکہ میں ایسے مقدمات کی سماعت نچلی عدالتیں کرتی ہیں۔ ہمارے ملک میں ایسا نہیں ہوتا اس لئے نظام عدل کو تبدیلیوں سے گزرنا پڑا جبکہ ابتداء میں اس کی توقع نہیں کی گئی تھی۔ 
 آئیے لوَٹ چلیں سپریم کورٹ کے فاضل جج کے بیان کردہ نکتے کی طرف۔ ہندوستان میں نظام عدل کا شہریوں سے گہرا تعلق  دن بہ دن بڑھتا جارہا ہے۔ اس کا ثبوت معرض التواء مقدمات کی تعداد میں بتدریج اضافہ ہے۔ اسی پس منظر میں جج صاحب نے کہا کہ شہریوں کا زیادہ تعلق عدالتوں سے ہوگیا ہے یعنی شہریو ںکو بار بار عدالت سے رجوع کرنا پڑرہا ہے ۔ وہ، ملک کے سیاسی عمل سے خود کو جوڑ نہیں پارہے ہیں۔ (بہ الفاظ دیگر، معاملات کو سیاسی سطح پر بھی فیصل ہوجانا چاہئے تاکہ کم سے کم معاملات عدلیہ تک پہنچیں: مترجم)۔ میرے خیال میں یہ نکتہ بالکل صحیح تناظر میں پیش کیا گیا ہے مگرسوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہورہا ہے؟
 جواب یہ ہے کہ ملک میں اسٹیٹ یعنی حکومت اپنی ذمہ داریوں کو سمجھ نہیں رہی ہے۔ اگر حکومت اور اس کا انتظام و انصرام سنبھالنے والی سیاسی جماعت لوگوں کے مکانات کو کسی مقدمہ اور اس مقدمہ کے فیصل ہوئے بغیر منہدم کرنے کے درپے ہو تو متاثر ہونے والے لوگ کہاں جائینگے؟ اگر کوئی اور اُن کا مکان توڑے تو وہ حکومت کے پاس شکایت لے کر جائیں، مگر حکومت خود مکان توڑنے کا حکم جاری کرے تو؟ ایک صورت یہ نکلتی ہے کہ وہ دیگر قانون سازوں (اپوزیشن پڑھئے) کے پاس بھی جاسکتے ہیں اور اُن سے مطالبہ کرسکتے ہیں کہ حکومت پر دباؤ ڈالئے اور ہونے والی کارروائی کو رُکوائیے مگر کیا یہ نہیں ہورہا ہے؟ بلاشبہ، جو لوگ یعنی شہری خود، شہری حقوق کی تنظیمیں، حقوق انسانی کیلئے سرگرم رہنے والے کارکنان وغیرہ متاثر ہورہے ہیں وہ ہر ممکن کوشش کرتے ہیں کہ حکومت سے بات چیت کریں مگر جیسا کہ عرض کیا گیا، جو سیاسی جماعت حکومت میں ہے، انہدامی کارروائی اسی کی ترغیب یا حکم پر ہو تو کیا کیا جاسکتا ہے؟ اس کامعنی یہ ہوگا کہ آپ اُسی سے مدد مانگنے کی کوشش کریں گے  جس کے خلاف مدد مانگنا ہو۔ مگر جج صاحب نے یہ بات نہیں کہی۔ تاہم، اُنہوں نے جو دوسری بات کہی اس سے یہی مفہوم اخذ کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کی بنیادی ذمہ داری شہریوں کے حقوق کی حفاظت ہے۔ ایسا کرتے وقت اس کے دائرۂ عمل میں عوام کے منتخب کردہ نمائندوں کے افعال کو شامل کرنا درست نہیں ہوگا۔ اگر عدالت کو ایسا کرنا پڑا تو اُسے اپنی آئینی حیثیت سے ہٹنا پڑے گا جس سے جمہوری معاشرہ کی خدمت کا تقاضا بھی پورا نہیں ہوگا۔ جمہوری معاشرہ کے استحقاق میں شامل ہے کہ عوام کو اپنے منتخب کردہ نمائندوں سے حقوق کے تحفظ کے سلسلے میں بھرپور تعاون ملتا رہے ۔ صحتمند جمہوریتوں کیلئے ضروری ہے کہ اس کے شہری اقتدار کے تمام شعبوں سے بامعنی تال میل کرسکیں، اُنہیں ضروری رہنمائی حاصل ہو اور جن نمائندوں کو اُنہوں نے منتخب کیا ہے اُن سے مسائل کے حل کی توقع کی جاسکتی ہو۔ یہاں یہ بات واضح رہنی چاہئے کہ فاضل جج کے مطابق، عدلیہ شہریوں کے مسائل سننے کیلئے تیار ہے، اگر اقتدار کے جو دیگر بازو ہیں مثلاً مقننہ، انتظامیہ، شہریوں کے حقوق کو متاثر کرنے کے درپے ہوں تب بھی عدلیہ شہریوں کے مسائل کو نظر انداز نہیں کرے گا ۔
 تاہم، ملک میں شہریت سے متعلق مقدمات، سیاسی جماعتوں کو حاصل ہونے والے سرمائے سے متعلق مقدمات، یا جبس بے جا کے مقدمات (بالخصوص کشمیریوں کے دائر کردہ) کی سماعت نہیں ہوسکی ہے۔ فاضل جج نے جو کہا وہ مبصرین اور سماجی کارکنان کے ذریعہ اُٹھائے گئے سوالوں کے جواب میں ہے جبکہ ہمارا ملک ایک ایسی سمت میں گامزن ہے جس کا تعین حکومت نے کیا ہے وہ حکومت جو ایک سیاسی جماعت کی قیادت میں جاری ہے اور وہ سیاسی جماعت جو اس کے ایک غیر متنازع لیڈر کی قیادت میں چل رہی ہے۔ جس سمت کا تعین کیا گیا ہے اس کی تائید آئین سے ہوتی ہے نہ ہی جمہوری روایات سے نہ ہی جدید طرز حکمرانی یا طرز عمل سے۔ n

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK