Inquilab Logo

غیر جانبدارانہ تحقیقات ضروری

Updated: January 28, 2021, 12:29 PM IST | Editorial

کسانوں کی ٹریکٹر ریلی کے دوران جو تشدد ہوا وہ کسی اگر مگر کے بغیر قابل مذمت ہے۔ اس کے پس پشت کون تھا یہ تحقیق طلب ہے۔ اس کیلئے غیر جانبدارانہ جانچ بہت ضرو ری ہے۔

Farmers Flag on Red Fort - Pic : INN
کسانوں کا جھنڈا لال قلعہ پر ۔ تصویر : آئی این این

 چھبیس جنوری کو کسانوں کی ٹریکٹر ریلی کے دوران جو تشدد ہوا وہ کسی اگر مگر کے بغیر قابل مذمت ہے۔ اس کے پس پشت کون تھا یہ تحقیق طلب ہے۔ اس کیلئے غیر جانبدارانہ جانچ بہت ضرو ری ہے۔ ہم کوئی قیاس آرائی نہیں کرناچاہتے کہ یہ کس کا کیا دھرا ہے، پہلے سے طے شدہ تھا یا جگہ جگہ کھڑی کی گئی رُکاوٹوں کی وجہ سے چند نوجوان بپھر گئے اور دیگر نے اُن کا جوش دیکھ کر اپنا ہوش کھو دیا، یا، پردۂ زنگاری میں کوئی اور ہے؟ اس کے تعلق سے صحیح نتیجہ کوئی ایسا کمیشن یا کمیٹی ہی اخذ کرسکتی ہے جو متاثرہ علاقوں تک جائے، عینی شاہدین سے بات چیت کرے، منظر عام پر آنے والے ویڈیو اور سی سی ٹی وی فوٹیج دیکھے، حکام سے بازپرس کرے اور ایک جامع رپورٹ عوام کے سامنے لائے۔بہرحال جو کچھ ہوا اُس کے ذمہ داروں کو کسی طور معاف نہیں کیا جاسکتا۔ اس سلسلے میں تین باتیں علی الخصوص قابل ذکر ہیں:
 پہلی بات: تشدد عام دنوں میں بھی قابل قبول اور قابل معافی نہیں ہے چہ جائیکہ یوم جمہوریہ کو ہو، جو ملک میں قیام ِ جمہوریت کی عظیم الشان سالگرہ کے طور پر منایا جاتا ہے اور ملک کے ہر جمہوریت پسند شہری کیلئے یوم آزادی کے ساتھ سب سے بڑے قومی تہوار کا درجہ رکھتا ہے۔ دوسری بات: ایسا دل دہلا دینے والا تشدد کہیں اور نہیں، قومی راجدھانی میں ہوا، اور تیسری بات یہ کہ اب تک کے پُرامن کسان احتجاج کے درمیان ہوا۔ کوئی مانے یا نہ مانے، اس سے کسان تحریک کو ضرر پہنچا ہے جس کیلئے ماہِ ستمبر سے مظاہرین اپنا گھربار، روزی روٹی اور آرام و آسائش کو فراموش کئے ہوئے تھے بالخصوص گزشتہ دو مہینوں میں تمام مظاہرین نے، خواہ وہ چھوٹی عمر کے ہوں یا بڑی عمر کے، مردو ہوں یا خواتین، ایسی ایسی قربانیاں دیں کہ جن کے سرسری ذکر کیلئے بھی کئی صفحات درکار ہوں گے۔ انہی قربانیوں کا نتیجہ تھا کہ برف پگھلی اور حکومت پہلے ترمیم کیلئے اور پھر بارہ تا اٹھارہ ماہ کیلئے متنازع قوانین کو مؤخر کرنے پر آمادہ ہوگئی، یہ الگ بات کہ کسانوں نے اسے منظور نہیں کیا۔ اس دوران اچھی بات یہ ہوئی کہ کسان تنظیموں نے تشدد کی مذمت کی۔  
 اہم سوال یہ ہے کہ دہلی پولیس کیوں ناکام رہی؟ کیا اس کے پاس کوئی انٹیلی جنس رپورٹ نہیں تھی؟ کیا اسے یہ احساس نہیں تھا کہ اتنا بڑا مجمع بے قابو بھی ہوسکتا ہے؟ کیا یہ سب اس لئے ہوا کہ جو پولیس افسران اور اہلکار موقع پر موجود تھے اُنہوں نے اپنی ذمہ داری سے چشم پوشی کی؟ ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ نوبت یہاں تک آنی ہی نہیں چاہئے تھی۔ حکومت نے اُس سیاسی بصیرت سے کام نہیں لیا جو ایسے حالات سے نمٹنے کیلئے ازحد ضروری ہوتی ہے۔ دہلی کے جن علاقوں میں تشدد ہوا اُن میں لال قلعہ بھی شامل ہے۔ حیرت ہے کہ یوم جمہوریہ پر بھی لال قلعہ پر کوئی سیکوریٹی نہیں تھی جس کی وجہ سے، اُن لوگوں کو جو اس کی فصیلوں پر چڑھ گئے، اپنی سی کرنے کاموقع مل گیا۔ کئی رپورٹیں توثیق کرتی ہیں کہ دہلی پولیس کا طرز عمل ظاہر کررہا تھا جیسے وہ ممکنہ طور پر حالات کے بگڑنے کیخلاف الرٹ نہیں تھی۔
 یہ مرکزی حکومت اور دہلی پولیس، دونوں کی ناقابل فراموش ناکامی ہے۔ حکومت نے اس کا اعتراف نہیں کیا تو اسے چشم پوشی پر محمول کیا جائے گا۔ کسانوں کو قانون ہاتھ میں لینا ہی ہوتا تو وہ ستمبر سے اتنے پُرامن انداز میں اپنا احتجاج جاری نہ رکھتے اور مذاکرات کے ۱۲؍ مراحل سے بحسن و خوبی نہ گزرتے۔ کسی نہ کسی دن تو اُن کا غصہ پھوٹ پڑتا۔ مقام ِ حیرت ہے کہ ۲۴؍ گھنٹوں سے زائد گزر جانے کے باوجود حکومت نے تحقیقات کا اعلان نہیں کیا ہے ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK