Inquilab Logo

کسانوں کی تحریک اب نتیجہ خیز رُخ پرگامزن

Updated: January 17, 2021, 1:42 PM IST | Arqam Noorulhasan

مودی حکومت اور کسانوں کے درمیان۹؍ مرتبہ بے نتیجہ مذاکرات سے جہاں یہ واضح ہوچکا ہےکہ کسان اپنے موقف سے ایک قدم بھی پیچھے ہٹانے کا ارادہ نہیں رکھتےوہیں یہ بھی ظاہر ہوچکا ہےکہ اب حکومت اپنی باتوںسے انہیں منانےکی پوزیشن میں آگئی ہے، یعنی اب جھکنا کسانوں کو نہیں بلکہ اہل اقتدار کو ہے

Farmers Protest - Pic : PTI
کسانوں کا احتجاج ۔ تصویر : پی ٹی آئی

چھبیس جنوری کو کسان  ایک بڑی ریلی کی تیاری کررہے ہیں۔سنگھو بارڈر پر احتجاج کے ۵۰؍ دن مکمل کرنے والے کسان  اپنی تحریک کو یوم جمہوریہ پر احتجاج کرکے ایک ایسے مضبوط رخ پر گامزن کرنا چاہتے ہیںجہاں سے  نہ صرف ان کا اتحاد ایک مثالی ا تحاد نظر آسکے بلکہ حکومت کیلئے حتمی طور پر نوشتہ دیوار بن جائے۔یہ احتجاج حکومت کیلئے اب تک کچھ کم جاں سوزثابت نہیں ہوا ہے لیکن  اب بالکل نئے رخ پر گامزن ہونے کو ہے جس کے فیصلہ کن ہونے کی امید کی جاسکتی ہے۔یوم جمہوریہ کی اعلان کردہ ریلی کے خلاف   دہلی پولیس نے سپریم کورٹ میں پٹیشن بھی داخل کردی ہےجس پر۱۸؍ جنوری کو سماعت ہوگی۔ اس کےبعد حکومت اور کسانوں کے درمیان ۱۰؍ ویں مرحلے کی بات چیت ہوگی ۔ کسان لیڈ ر درشن پال سنگھ نے دوٹوک کہہ دیا ہےکہ ۲۶؍ جنوری کوٹریکٹر ریلی ہوکر رہے گی۔اُدھر بھارتیہ کسان یونین کے لیڈر راکیش ٹکیت بھی اعلان کرچکے ہیں کہ۲۶؍ جنوری کو دہلی جانے سے انہیں کوئی قانون نہیںروک سکتا ۔
 حکومت اور کسانوں کے درمیان۹؍ مرتبہ بے نتیجہ مذاکرات سے جہاں یہ واضح ہوچکا  ہےکہ کسان  اپنے موقف   سے ایک قدم پیچھے ہٹانے کا ارادہ نہیں رکھتےوہیں یہ بھی ظاہر ہوچکا ہےکہ اب حکومت اپنی باتوں سے انہیں منانےکی پوزیشن میں آگئی ہے، یعنی اب جھکنا کسانوں کو نہیں بلکہ  اہل اقتدار کو ہے۔ اب اگر کچھ فیصلہ اور کچھ اتفاق ہوگا تو وہ حکومت کے موقف کی قیمت پر ہوگا ، کسانوں کے موقف کی قیمت پر نہیں۔ابھی چونکہ ۱۰؍ویں مرحلے کی بات  چیت ہونی ہے اور اس کے بعد ہی صورتحال کے مزید واضح یا پیچیدہ ہونے کا اندازہ لگایاجاسکے گالیکن اب تک جو کچھ ہوچکا ہےاس میں کسان  اپنی جارحیت سے حکومت پر غالب آتے ہوئے نظر آرہے ہیں ا س لئے اس بات کابھی اندیشہ ہےکہ حکومت کسان  تحریک کے بڑھتے ہوئے سیل رواں کوروکنے کیلئےکوئی مزاحمتی اقدام کرسکتی ہے۔ 
 سپریم کورٹ  نے اپنے فیصلے میں تینوں زرعی قوانین کے نفاذ پر روک لگا دی  ہےاورمظاہرین سےگفتگو کیلئے ایک مصالحتی  کمیٹی تشکیل دی ہے جوعنقریب کسانوں سے گفتگو کرے گی ۔   عدالت نے ایک  جانب جہاں زرعی قوانین پرروک لگا کر  ایک  پہلو سے کسانوں کے احتجاج اور موقف کی تائید کی  ہے وہیں گفتگو کیلئے کمیٹی تشکیل دے کر کچھ ایسے امکان کی گنجائش بھی رکھی ہےجس سے حکومت کو مطمئن کیا جا سکتا ہو۔بہر حال کسان جس پوزیشن میں ہیں اس کی بنیاد پر وہ  ہر طرح کی صورتحال کا سامنا کرنے کیلئے پوری طرح تیا ر ہیں۔ کسان اپنے احتجاج کیلئے پُرعزم  ہیں، اپنے موقف پرپورے جوش اورولولے کے ساتھ قائم ہیں۔ موسم کی تند وتیز ی کے باوجودخیمہ زن ہیں۔ یہ ساری باتیں،سارے پہلو اورسارے عوامل کسانوں کے حق میں سازگار ہیں لیکن ان سبھی کے درمیان جو مشترکہ تشویش کاموضوع ہے وہ بات چیت  کے اب تک  کے جملہ مراحل کا ناکام ہونا ہے۔  مذاکرات کی ناکامی  سے معاملہ تعطل  میں پڑسکتا ہے ۔پھر اس کے بعد دوہی صورتیں بنتی ہیں۔ یا تو حکومت کسانوں کی تحریک کو کچلنے کیلئےطاقت کا استعمال کرے یا کسان اقتدار کی طاقت  کے سامنے سراپا مزاحمت  پیش کرتے ہوئے سر دھڑ کی بازی لگادیں۔ کسان  اس کیلئے تیار نظر آبھی رہے ہیں۔ لیکن دیکھا یہ جانا چاہئےکہ معاملہ کا تصفیہ پھربھی ہوگا یا نہیں۔اس طرح معاملات فیصل نہیں ہوتے۔ ایسی بہت سی  انقلابی تحریکیں اور ان تحریکوں کے ساتھ چلنے والی ضمنی تحریکوں کی مثالیں ملتی ہیں جو کامیاب بھی ہوئی ہیں اورناکام بھی۔ 
 اس کی سب سے نمایاں مثال تحریک آزادی   ہے ۔ مجموعی طورپریہ تحریک کا میاب رہی  اور متعدد ادوار سے گزرنے کے بعد   بالآخر ملک کو آزادی نصیب ہوئی لیکن اس دوران  جدوجہد آزادی کے ساتھ اٹھنے والی کئی ضمنی تحریکیں کامیاب بھی رہیں اورناکام بھی ثابت ہوئیں۔ناکام  اس معنی میں کہ ایسی کسی ضمنی تحریک میں مجاہدین آزادی کو اپنی جانوں کی قربانیاں دینی پڑیں اور یہ بڑے پیمانے پرہوا،مثال کے طور پر جلیان والا باغ  سانحہ۔ اس کے برعکس  نمک ستیہ گرہ  اور سودیشی جیسی تحریکیں اور مہمات کامیابی سے ہمکنار سے ہوئیںجن سے اہل اقتدار کو اپنی  پالیسیوں کے بارے میںسوچنے پر مجبور ہونا پڑا  اور ان کے دوررس نتائج برآمد ہوئے ۔ 
 اب کسانوں کی تحریک اپنے آپ میں ایک بڑ ی تحریک کی شکل اختیار کرتی  جارہی ہے تو  اس کے کئی مضمرات سامنے آئیں گے۔یہ تحریک قانون تھوپنے کے نتیجے میں برپا ہوئی ہے۔ اس سے قبل شاہین  باغ ا حتجاج کی  بھی  یہی نوعیت تھی اور  اس تحریک کو وہ حیثیت حاصل ہوگئی تھی جوایک جمہوری نظام میں ارباب اقتدار کی بنیادیں ہلانے کیلئے کافی ہوتی ہے۔اس تحریک کے کارکنان پر گولیاں بھی چلائی گئیں  لیکن  مظاہرین کے عزم کوکمزور نہیں کیا جاسکا۔اب ان دونوں تحریکوں کے امتزاج سےکسی نئی تحریک کی   دھارا نکلتی ہے توحکومت کے سامنے جھکنے کے علاوہ اورکوئی راستہ نہیںرہےگا۔اب دیکھئے کہ یہاںفی الوقت جدوجہد آزادی کی طرح کوئی بڑی تحریک نہیں ہے بلکہ شاہین باغ اور کسانوں کےاحتجاج کی شکل میں ضمنی تحریکیں اٹھ رہی ہیں جنہیں حکومت طاقت کے بل پرکچل سکتی ہےلیکن  ان محرکات کو کہیں سے کچلا نہیں جا سکتا جو ان تحریکوں کی بنیاد ہیں۔  یہ محرکات کیا ہیں؟نا انصافی کے خلاف لڑنے کا جذبہ ،فرقہ واریت کے خلاف ثابت قدمی ، منافرت کے خلاف اتحاد، آئین  کے ساتھ کھلواڑ کے خلاف صدائےاحتجاج،ملک کو بانٹنے کی کوششوں کےخلاف یکجہتی کا ا علان اورچنندہ صنعت کاروں کو ملک کے عوام پر مسلط کردینے کی پالیسیوں کیخلاف مزاحمت  وہ محرکات ہیں جو ان تحریکوں کے پس پشت کارفرما ہیں۔حکومت ان محرکات کوکچل کر دیکھ لے ۔وہ نہیں کرسکے گی۔ ان میں کسی  ایک محرک  کے نتیجے میں پیدا ہونے والی کسی تحریک کو وہ نظر انداز کرسکتی ہے ، اسے دبا سکتی ہے ، اسے کچل سکتی ہےلیکن پے درپے ایسا کوئی محرک  جب کسی تحریک کی شکل میں ظہور پذیر ہوگا تو حکومت  اس سےنمٹنے کی پوزیشن  میںن ہیں ہوگی ۔ ایسی تحریک مجموعی بیداری کا سبب بنے گی ۔ شاہین باغ اورکسانوں کی حالیہ تحریک میں ہم یہ دیکھ چکے ہیں ان کے ذریعے انصاف پسند  اور جمہوریت میں یقین رکھنے والے متحد ہوئے ہیں۔ ان دونوں تحریکوں سے وہ عناصرمنظر عام پر آئے  ہیں جو نہ صرف حکومت کو جواب دینا جانتے ہیں بلکہ حکومت کے ہم نوا میڈیا سے سوال کرنے کا  ہنر بھی رکھتے ہیں۔     
 بات چیت کی مسلسل ناکامیوں کے بعد ایسے حالات پیدا ہورہے ہیں کہ کسانوں کی تحریک کسی نا خوشگوار رخ پر جا سکتی ہے لیکن   جن محرکات کا بالائی سطور میںتذکرہ کیا گیا ہے   ، ان محرکات  کے ساتھ جو لوگ کھڑے ہوتے ہیں وہ فطر ی طورپر کچھ ایسی  خصوصیات اپنے اندر رکھتے ہیں کہ کسی نا خوشگواری کا انہیں پیشگی احساس ہوجاتا ہےاور پورے تحمل  کےساتھ اس کا سامنا کرنے کیلئے بھی پیشگی طورپر تیار رہتے ہیں۔ ا یسے ہی لوگ ہمیں شاہین باغ میں نظرآئے ہیںاورایسے ہی لوگ کسان تحریک میں بھی شامل ہیں۔ کسی وجہ سے بھوپیندر سنگھ مان نے سپریم کور ٹ کی مقررکردہ مصالحتی کمیٹی سے خود کو الگ کرلیا ہے جس سے کسا ن ناراض ہیں حالانکہ وہ عدالت میں کسانوں کی نمائندگی بہت بہتر طریقے سے کرسکتے تھے لیکن کسانوں کےسامنے آنے والی یہ نا خوشگواری  ان  کے احتجاج کی طاقت کے آگے کوئی حیثیت نہیں رکھ سکتی  ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK