Inquilab Logo

خاتون رائے دہندگان اور ہماری جمہوریت

Updated: February 20, 2020, 9:01 AM IST | Editorial

پوشی کررہی ہیں اور اُن کے احساسات و جذبات کو سمجھنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ جمہوری قدروں اور جمہوری اداروں پر سوال اُٹھ رہے ہیں اور اُن سوالات کا تشفی بخش جواب نہیں مل رہا ہے۔ عدالتیں بار بار کہہ رہی ہیں کہ جمہوریت کیلئے کیا کیا ضروری ہے مگر ایسا لگتا ہے کہ جمہوری عمل (انتخابات) کے ذریعہ معرض وجود میں آنے والی حکومتوں کو عدالتی نظریات و تنبیہات کی بھی پروا نہیں ہے۔

خاتون رائے دہندگان اور ہماری جمہوریت ۔ تصویر : پی ٹی آئی
خاتون رائے دہندگان اور ہماری جمہوریت ۔ تصویر : پی ٹی آئی

 ہندوستان کی جمہوریت شدید خطرات سے دوچار ہے۔ عوام کی رائے سے تشکیل پانے والی حکومتیں خود عوام کی رائے سے چشم پوشی کررہی ہیں اور اُن کے احساسات و جذبات کو سمجھنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ جمہوری قدروں اور جمہوری اداروں پر سوال اُٹھ رہے ہیں اور اُن سوالات کا تشفی بخش جواب نہیں مل رہا ہے۔ عدالتیں بار بار کہہ رہی ہیں کہ جمہوریت کیلئے کیا کیا ضروری ہے مگر ایسا لگتا ہے کہ جمہوری عمل (انتخابات) کے ذریعہ معرض وجود میں آنے والی حکومتوں کو عدالتی نظریات و تنبیہات کی بھی پروا نہیں ہے۔ اس گھٹاٹوپ میں جمہوریت کے افق پر روشن لکیروں کی طرح ایک ایسی تبدیلی رونما ہو رہی ہے جسے خوش آئند کہا جاسکتا ہے۔ 
 وہ تبدیلی، خواتین کاسرگرم ہونا ہے جو ملک بھر میں پھیلے ہوئے شاہین باغوں کے علاوہ بھی اس حد تک عیاں ہے کہ صاف دیکھی اور محسوس کی جاسکتی ہے۔ دہلی میں، عام آدمی پارٹی کی شاندار کامیابی کو اگر قابل ذکر تصور کیا جارہا ہے تو یہ حقیقت بھی قابل ذکر ہے کہ اس کامیابی کو یقینی بنانے میں اہم کردار دہلی کی خاتون رائے دہندگان نے نبھایا ہے۔ الیکشن کمیشن کے اعدادوشمار کے مطابق رائے دہندگان میں ۶۲ء۵۵؍ فیصد خواتین تھیں جبکہ بعض سرویز کی رپورٹوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے تقریباً ۶۰؍ فیصد خواتین نے ’’آپ‘‘ کے اُمیدواروں کو ووٹ دیا اور ان کی تاریخی کامیابی کا راستہ ہموار کیا۔ کیا یہ اہم واقعہ نہیں ہے؟
 یہ اس پس منظر میں بہت اہم تبدیلی ہے کہ ملک کی آزادی کے بعد سے اب تک کے ۷۳؍ سال میں پہلی چار دہائیاں ایسی گزری ہیں جن میں سیاسی فیصلوں پر مردوں کی رائے اثرانداز ہوا کرتی تھی۔ دھیرے دھیرے حالات بدلنے لگے۔ خواتین میں تعلیم کے بڑھتے رجحان اور ذرائع ابلاغ کے ذریعہ عام ہونے والی باخبری نے اُن پر مثبت اثر ڈالا ورنہ وہ لوگ جو ۵۰۔۶۰؍ کے پیٹے میں ہیں خوب جانتے ہیں کہ ایک وقت تھا جب خواتین ووٹ دینے میں بھی دلچسپی نہیں لیتی تھیں اور اگر اُنہیں آمادہ کیا گیا تو وہ پولنگ بوتھ پر جانے سے پہلے دریافت کیا کرتی تھیں کہ کس کو ووٹ دینا ہے۔ گھر کے مرد جس کسی پارٹی یا اُمیدوار کی انتخابی نشانی بتادیتے وہ اپنے طور پر کوئی تجزیہ کئے بغیر اُس پارٹی یا اُمیدوار کو ووٹ دے آتی تھیں مگر اب ایسا نہیں ہے۔ یہ طرز عمل جمہوریت کے حق میں فال نیک ہے۔
 عام آدمی پارٹی کی ۸؍ سیٹیں کم ہوئی ہیں مگر اسمبلی کیلئے منتخب ہونے والی خواتین کی تعداد بڑھی ہے جو ۲۰۱۵ء میں ۶؍ تھیں۔  اب ۸؍ ہیں۔ اس نے ۹؍ خاتون اُمیدواروں کو ٹکٹ دیا تھا جس میں صرف ایک (روہتاس نگر سے سریتا سنگھ) ہی کو ناکامی کو سامنا کرنا پڑا ورنہ دیگر ۸؍ فتح سے ہمکنار ہوئیں۔ تقریب رسم حلف برداری میں یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ اروند کیجریوال نے ایک بھی خاتون کو وزارت کیلئے منتخب نہیں کیا ہے مگر ہمارے خیال میں وہ اس ضرورت کو نظر انداز نہیں کرسکیں گے لہٰذا عین ممکن ہے کہ آئندہ کوئی توسیع ہو تو اس میں کسی خاتون کو شامل کریں۔ بہرکیف، بات ہورہی تھی جمہوری عمل میں خواتین کے سرگرم ہونے کی، یہ اس لئے خوش آئند ہے کہ خواتین سماج کے انتشار کو ناپسند کرتی ہیں، اُنہیں نرے سیاسی موضوعات سے زیادہ ترقیاتی اشیوز سے دلچسپی ہوتی ہے۔ دہلی میں انہوں نے، بجلی، پانی، صحت عامہ اور ٹرانسپورٹ کے تعلق سے ’’آپ‘‘ کی فکرمندی اور کارکردگی کو دیکھا چنانچہ اسی پارٹی کو ووٹ دیا، اس کے برخلاف بی جے پی کے اشتعال انگیز اور منافرت آمیز بیانات کو قابل اعتناء نہیں سمجھا اس لئے اپنے ووٹوں کے ذریعہ یہ فیصلہ سنایا کہ ہمیں شاہین باغ کو کرنٹ لگانے کی ضرورت نہیں ہے۔
 اس سے قبل مودی اور نتیش کمار کی کامیابی میں بھی خاتون ووٹرس کے اہم کردار کی گونج سنائی دیتی رہی ہے۔ مودی نے ترقی اور نتیش نے خوف سے نجات دلانے کا کا نعرہ لگایا تھا۔ یہ الگ بات کہ ان کے نعرے اور وعدے جوں کے توں ہیں

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK