Inquilab Logo

افسانہ : رنجش : بدلتے رشتوں پر ایک معاشرتی کہانی

Updated: February 26, 2020, 4:05 PM IST | Mohammed Aleem Ismail

جب امیدیں بے سمتی کی راہ اختیار کر لیتی ہیں تب معمولی ناراضگی بھی نفرت کا ایک تناور درخت بن جاتی ہے۔ پھر مضبوط سے مضبوط رشتے بھی برف کی چادر تلے دب کر کراہنے لگتے ہیں۔

افسانہ : رنجش ، تصویر : آئی این این
افسانہ : رنجش ، تصویر : آئی این این

 رات کی تاریکی سناٹے کو اُگل رہی تھی اور وہ ٹھٹھرتی کانپتی آگے بڑھ رہی تھی۔ اس کے منہ سے دھواں اس طرح نکل رہا تھاجیسے بدن میں کچھ جل کر خاک ہورہاہو۔ چاند آسمان کی قبا میں چھپ گیا تھااور ستارے اپنی روشنیوں کے ساتھ ٹمٹما رہے تھے۔ پھر اچانک چاند کالے بادلوں سے باہر نکل آیا اور اپنی شعاعوں کو گوشے گوشے میں پھیل جانے کا حکم دے کر انھیں زمین پر آوارہ چھوڑ دیا۔اس کے بعد اسے راستہ چلنے میں دشواری نہ ہوئی اور وہ کاشف کے دروازے تک آپہنچی۔ 
 رات دو بجے کاشف کے دروازے پردستک ہوئی۔ وہ نہیں اٹھا تو دروازہ زور زور سے کھٹکھٹایا گیا۔ جب اس کی آنکھ کھلی تو اسے دروازے پر کاظم کی بیوی کی آواز سنائی دی، وہ کہہ رہی تھی۔’’کاشف بھیا، جلدی چلیے، آپ کے دوست کاظم کی طبیعت بہت خراب ہو گئی ہے۔‘‘لیکن کاشف نہیں اٹھا، نہ ہی دروازہ کھولا۔ وہ خاموش اپنے نرم بستر پر پڑا رہا۔ کاظم کی بیوی بہت دیر تک دروازہ کھٹکھٹا تی رہی۔ دروازے پر گڑگڑاتے کئی لمحے اسی طرح بیت گئے   لیکن دروازہ نہیں کھلا، نہ ہی کاشف مدد کے  لئے باہر آیا۔ جاگنے کے بعد بھی وہ سونے کا ناٹک کرتا رہا۔
 صبح کاشف نے دیکھا کہ کاظم کے گھر  کے باہر کچھ لوگ جمع تھے اور اندر بھی کافی لوگ موجود تھے۔  یہ دیکھتےہی کسی انہونی کے خیال سے وہ گھبرا گیا۔ اس کے دل کی دھڑ کنیں تیز ہو گئیں۔ وہ آگے بڑھا اور کاظم کے گھر کا گیٹ کھول کر اندر داخل ہوا۔ آنگن میں اسے ایک چمچماتی سفید کار دکھائی دی۔ اس نے دو دفعہ مڑکر کار کی طرف دیکھا۔ اس کے بعد گھر میں داخل ہوا تو ہال کے ایک کونے میں چند عورتیں تلاوت کر رہی تھیں، دوسرے کونے میں کاظم کی بیوی کھڑی رورہی تھی اور پلنگ پر کوئی سفید کپڑا اوڑھے چت لیٹا ہوا تھا۔ اس نے گھبراہٹ میں آگے بڑ ھ کر منہ سے سفید کپڑا ہٹایا ،وہ کاظم تھا۔کاظم کے سرہانے بیٹھے مولوی صاحب نے دوبارہ کپڑے سے منہ ڈھانک دیا اور کہا۔’’رات کو دل کا دورہ پڑا تھا۔۔۔۔۔ اللہ جنت نصیب کرے۔‘‘ کاشف کا سر گھوم گیا ، اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا رد عمل ظاہر کرے ۔ اسے بالکل بھی اندازہ نہیں تھا کہ اس گھر میں کیا ہو رہا ہے۔ وہ اچانک ایک جیتے جاگتے انسان سے زندہ لاش بن گیا تھا ۔  
  کاشف سوچ رہا تھا کہ ’’یہ وہی میرا دوست ہے جو ہر وقت سائے کی طرح میرے ساتھ رہتا تھا، جس کے ساتھ میں نے اپنا بچپن گزارا تھا، جو مجھے ایک بھائی کی طرح پیار کرتا تھا، جو میرے لیے اپنی ہر خوشی قربان کر دیتا تھا لیکن ضرورت کے وقت میں نے اس کی مدد نہیں کی۔ میری ناراضگی اس کی موت کی وجہ بن گئی اور آج یہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مجھ سے جدا ہو گیا۔‘‘ 
 کاظم کی بیوی اسے دیکھ کر اور زور زور سے رونے لگی ۔’’دیکھیے ناکاشف بھائی، آپ کے دوست ہم سب سے ناراض ہو گئے ہیں، مصیبت کے وقت میں ہر کسی کا دکھ بانٹنے والے آج ہمیں تنہا چھوڑ گئے ہیں۔‘‘ کاظم کی والدہ کا بھی رو رو کر برا حال ہو گیا تھا۔وہ کہہ رہی تھیں’’سائے کی طرح ہمارےساتھ  رہنے والے، ہر وقت ہماری خدمت میں رہنے والے بتا، آج ہم تیری کیا خدمت کر سکتے ہیں۔‘‘ کاظم کے والد کے چہرے پر برسوں کی اداسی اور مایوسی نظر آرہی تھی۔ انھیں کچھ سمجھ ہی نہیں آیا کہ ہوا کیا ہے۔ ان کے  ہواس گم ہو چکے تھے۔ 
 جب جنازہ اٹھانے کا وقت آیا تو وہ کہنے لگے۔’’جن کندھوں پر بٹھا کر تجھے دنیا گھمائی تھی بتا کس طرح آج ان ہی کندھوں پر تیرا جنازہ اٹھا کر تجھے قبر کی آغوش میں دے دوں۔۔۔۔بتا کس طرح۔‘‘
 کاظم کی بیوی، ماں اور والد کے الفاظ کاشف کو ہتھوڑے کی ضرب کی مانند محسوس ہو رہے تھے۔ وہ بغلوں میں ہاتھ ٹھونسے، نظریں زمین میں گڑائے ساکت و جامد کھڑا تھا اور خیالات کے سمندر میں غرق ہو گیا تھا۔ ذہن کے پردوں پر پل پل منظر بدل رہے تھے ،لیکن چہرے پر ایک ہی منظر تھا، وہ تھا مایوسی کا  اور آنکھوں میں ایک ہی منظر تھا، وہ تھا اداسی کا۔کاشف کب سے خاموش کھڑا تھا۔ اس کی آنکھیں خشک ہو گئی تھیں جن سے آنسو کا ایک قطرہ بھی نہیں گرا۔ جنازہ قبر میں اترنے تک وہ بے حس و حرکت سب کچھ دیکھتا رہا۔ جب قبر نے کاظم کو اپنی آغوش میں لے لیا تب اچانک اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کا  سیلاب جاری ہوا۔ اسے سنبھالنے کی بہت کوشش کی گئی پر وہ کسی سے سنبھالانہیں گیا۔   
 جب امیدیں بے سمتی کی راہ اختیار کر لیتی ہیں تب معمولی ناراضگی بھی نفرت کا ایک تناور درخت بن جاتی ہے۔ پھر مضبوط سے مضبوط رشتے بھی برف کی چادر تلے  دب کر کراہنے لگتے ہیں۔ 
 کاظم اور کاشف دونوں بچپن کے دوست تھے۔دونوں ایک ساتھ کھیلے کودے، پڑھائی لکھائی کی، جوان ہوئے، شادی ہوئی۔ ان کی دوستی بہت گہری تھی۔ دونوں کے گھر آس پاس ہی تھے۔ دونوں اپنا ہر کام ایک دوسرے کے رائے مشورے سے کرتے تھے۔ اگر کوئی چیز دونوں کو پسند آجائے تو دونوں ایک دوسرے کو تحفہ دینے کی کو شش کرتے اور اکثر کاظم بڑا ہونے کے ناطے اپنی پسندیدہ چیز کی قربانی دے دیتا تھا۔
 دونوں کی دوستی نے ایک مضبوط دیوار کی مانند کئی مشکلات کا سامنا کیا تھا۔ کئی طوفان آئے اور گزر گئے پر دوستی کی بنیادیںلرزاں تک نہیںہوئیںلیکن اچانک ایک مہین سی دراڑ اس کے وجود کو ریزہ ریزہ کر گئی۔ ایک دن کاظم نے کاشف سے کہا تھا۔ ’’ میرے ایک قریبی  رشتہ دار کو روپوں کی اشد ضرورت ہے اور وہ اپنی چار مہینے پرانی کار آدھی قیمت پر فروخت کر رہا ہے، چل دیکھ آتے ہیں۔‘‘انھوں نے کار دیکھی جو دونوں کو بہت پسند آئی۔کاشف نے کاظم سے کہا۔ ’’یار ایسا کرتے ہیں یہ میں خرید لیتا ہوں۔‘‘کاظم نے انکار میں سر ہلایا۔ ’’نہیں یار مجھے کار کی ضرورت ہے، تو یہ میں ہی لوں گا۔‘‘ کاظم نے گویا فیصلہ صادر کر دیا تھا۔ پہلی بار اس کا اس طرح کا رویہ کاشف کو ٹھیک نہیں لگا۔ لیکن حقیقت تو یہ تھی کہ ایک چھوٹی سی بات کا کاشف نے کافی برا منایااور کاظم سے ناراض ہو گیا تھا۔ اس وقت کاشف کی حالت کچھ عجیب سی ہو گئی تھی۔ اس کے دل و دماغ میں بیک وقت کئی لہریں اٹھیں اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو شل کر گئیں۔ وہ محسوس کرنے لگا کہ کئی لہریں پتھریلے ساحل سے ٹکرا کر دم توڑ رہی ہیں۔
 کاظم کے انتقال کے تین دن بعد صبح چائے پیتے ہوئے کاشف کی بیوی نے اس سے کہا۔’’رات میں کاظم بھائی کی بیوی گھر آئی تھیں، وہ بتا رہی تھی کہ کاظم بھائی نے بطور تحفہ آپ کے  لئے کار خریدی تھی، آپ جلد سو گئے تھے تو وہ یہ کار کی چابی دے کر چلے گئیں۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK