Inquilab Logo

خوشامدی ٹولہ کانگریس کو لے ڈوبے گا

Updated: January 07, 2021, 12:15 PM IST | Khalid Shaikh

پارٹی صدر بننے کے بعد راہل سے ۲۰۱۹ء کے الیکشن میں کانگریس کے بہتر پرفارمنس کی امید تھی کیونکہ الیکشن سے چند مہینے پہلے اس نے بی جے پی کو اُس کے گڑھ ایم پی، راجستھا ن اور چھتیس گڑھ سے بے دخل کردیاتھا۔

Gandhi Family - Pic : INN
گاندھی فیمیلی ۔ تصویر : آئی این این

 جب تک  کانگریس کا خوشامدی ٹولہ گاندھی خاندان کی موروثی قیادت کے حصار سے باہر نہیں نکلتا کانگریس کا احیاء ممکن نہ ہوگا۔ خاص طور پر اس صورت میں جب خود راہل گاندھی کئی بار کہہ چکے ہیں کہ اگلا صدر خاندان کے باہر کا ہونا چاہئے۔ خوشامدی ٹولے میں ایک بڑاطبقہ ان لوگوں کا ہے جو سمجھتے ہیں کہ صرف گاندھی خاندان ہی پارٹی اور ممبروں کو جوڑے رکھ سکتا ہے اور قومی سطح پر کانگریس ہی بی جے پی کو ٹکر دے سکتی ہے۔ ہم اس سے متفق نہیں۔ نہروگاندھی خاندان کی خدمات سے انکار نہیں لیکن موجودہ سیاسی ماحول میں قیادت کے لئے جس لیاقت وقابلیت کی ضرورت ہے وہ سونیا، راہل اور پرینکا تینوں میں نہیں پائی جاتی ہے۔ اندرا گاندھی ملک  کی سب سے طاقتور لیڈرتھیں لیکن اپنے آمرانہ رویّے کی وجہ سے وہ بھی پارٹی کو جوڑے رکھنے میں ناکام رہیں۔ ان کے دور میں کانگریس کا سب سے زیادہ بٹوارہ ہوا۔ آج کی بیشتر علاقائی پارٹیاں اسی سے جنمی ہیں۔ سچائی یہ بھی ہے کہ پارٹی میں اقربا پروری اور خاندانی اجارہ داری کی ابتدا بھی اندرا  سے ہوئی۔ اس کی بنیاد ۱۹۵۹ء میں پنڈت نہرو کے ہاتھوں پڑی جب انہوںنے اندرا کو کانگریس کا صدر بنایا۔ اس معاملے میں وہ تنہا نہیں تھے۔ گاندھی جی کو چھوڑ کر اس قت کے کئی بڑے لیڈر جن میں ولبھ بھائی پٹیل، سی راج گوپال اچاری اور پنڈت گووند ولبھ پنت جیسے نام شامل ہیں، ان کی اولادیں پارلیمنٹ کی ممبرتھیں۔ گاندھی جی چاہتے تھے کہ کانگریس سیاسی اقتدار کے بجائے عوامی خدمات کا ادارہ (لوک سیوا سنگھ ) بن کر کام کرے۔ اس خواہش کا اظہار انہوںنے قتل سے تین دن پہلے ۲۷؍ جنوری ۱۹۴۸ء کو ایک نوٹ میں کیاتھا جو ۲؍ فروری ۱۹۴۸ء کو ان کے اخبار ’ہریجن‘ میں شائع ہوا۔
 کانگریس میں موروثی قیادت کی ابتدا ۱۹۷۵ء میں ہوئی جب اندرا گاندھی نے اپنے بیٹے سنجے گاندھی کو اپنا جانشین مقرر کیا۔ ایک حادثے میں ان کی ناگہانی موت کے بعد اندرانے اپنے بڑے بیٹے راجیوگاندھی کو نامزد کیا۔ ۳۱؍ اکتوبر ۱۹۸۴ء کو اندرا گاندھی  اپنے گارڈز کے ہاتھوں ماری گئیں۔ راجیوگاندھی ۱۹۸۴ء سے ۱۹۸۹ء تک  وزیراعظم رہے۔ مئی ۱۹۹۱ء کی انتخابی مہم میں حصہ لیتے ہوئے تامل ناڈومیں ایک خودکش بمبار کے ہاتھوں ان کا بھی قتل ہوگیا۔ سونیا گاندھی اندرا کے نقش قدم پر چل رہی ہیں۔ وہ ۱۹۹۸ء سے ۲۰۱۷ء تک کانگریس کی صدر رہیں۔ ۲۰۱۷ء میں راہل گدی نشین ہوئے لیکن  ۲۰۱۹ء کے الیکشن میں شرمناک شکست کے بعد انہوںنے صدارت سے استعفیٰ دے دیا اوراعلان کیا کہ اگلا صدر گاندھی خاندان سے باہر کا ہوگا۔ اس پر خوشامدی ٹولہ حرکت میں آگیا اور سونیا گاندھی کو عارضی صدر بنادیا۔ اسے اتفاق ہی کہئے کہ جس طرح اندرا، پارٹی کو جوڑے رکھنے میں کامیاب نہیں رہیں اسی طرح سونیا بھی اسے متحد رکھنے میں ناکام رہیں۔ چنانچہ  شردپوار، ممتا بنرجی اور وائی ایس ریڈی نے کانگریس کو داغ مفارقت دے کر الگ  پارٹیاں بنالیں اور اپنی اپنی ریاستوں میں برسراقتدار  ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب آزادی کے بعد طویل مدت تک کانگریس نے بِلاشرکت غیرے پورے ملک پر حکومت کی۔ مخلوط حکومتوں کا چلن آنے کے بعد علاقائی پارٹیاں اس کے گٹھ بندھن کا حصہ بننے میں فخر محسوس کرتی تھیں لیکن گزشتہ چند برسوں اور نومبر میں بہار اور ضمنی انتخابات میں کراری شکست کے بعد آج ہر پارٹی اس سے ہاتھ ملانے سے کتراتی  ہے ۔ کانگریس کی حالت ’ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے‘ جیسی  ہوگئی ہے۔
  ۲۰۱۹ء کے الیکشن میں ایک خاص بات یہ ہوئی کہ راہل نے اپنی دادی اور والدہ کی طرح دوسیٹوں پر الیکشن لڑا۔ امیٹھی ان کی آبائی سیٹ تھی اور وائناڈ  (کیرالا) میں وہ پہلی بار قسمت آزمائی کررہے تھے۔ دوسیٹوں پر لڑنے والے لیڈر بہت پُراعتماد ہوتے ہیں یا عدم تحفظ کا شکار ہوتے ہیں۔ ۲۰۱۴ء کے الیکشن میں کانگریس کی شرمناک شکست کے بعد راہل کے دوسیٹوں پر لڑنے کے پیچھے عدم تحفظ کا عنصر کارفرما تھا۔ چنانچہ یہی ہوا۔ امیٹھی میں انہیں  سمرتی  ایرانی کے ہاتھوں شکست ہوئی جبکہ وائناڈ کے ووٹروں نے ان کی عزت رکھ لی ۔
 پارٹی صدر بننے کے بعد راہل سے ۲۰۱۹ء کے الیکشن میں کانگریس کے بہتر پرفارمنس کی امید تھی کیونکہ الیکشن سے چند مہینے پہلے اس نے بی جے پی کو اُس کے گڑھ ایم پی، راجستھا ن اور چھتیس گڑھ سے بے دخل کردیاتھا اور زمینی سطح پر حکومت کی پالیسیوں اور وعدہ خلافیوں کی وجہ سے عوام مودی سے ناخوش تھے۔ نتائج نے ان سب کی نفی کردی۔ اگر بی جے پی کو ملی کامیابی غیر معمولی تھی توکانگریس کی شکست چونکانے والی تھی اورکانگریس ہی کیوں، چند ریاستوں کو چھوڑ کر بی جے پی نے تمام اپوزیشن پارٹیوں کو دھول چٹا دی تھی۔ موجودہ لوک سبھا میں  کانگریس کے ممبروں کی تعداد کل ممبروں کے مقابلے ۱۰؍فیصد سے کم ہونے کی وجہ سے راہل اپوزیشن لیڈربن سکے نہ تعمیری اپوزیشن  کا رول نبھا سکے جبکہ ایک فعال جمہوریت کے لئے مضبوط اپوزیشن کا وجود ضروری ہوتا ہے ورنہ جمہوریت کو آمریت میں بدلتے دیر نہیں لگتی۔ ہندوستان میں ہمیں یہی دیکھنے کو مل رہا ہے۔ مودی کے  دبدبے کا یہ عالم ہے کہ کانگریس سمیت تمام علاقائی پارٹیاں نرم ہندوتوا کا چولا پہن کر بی جے پی کی ٹیم بننے میں ایک دوسرے سے سبقت لیتی نظرآتی ہیں۔ 
  ان حالات میں کانگریس، بی جے پی کو کیسے ٹکر دے گی، ہماری سمجھ سے باہر ہے۔ اقتدار کی ہوس میں سب سے الگ ، سب سے جدا کہلانے والی پارٹی کے لیڈروں نے اخلاقیات واقدار پر مبنی سیاست کا جنازہ نکال دیا ہے۔ سیاسی مخالفین کے پیچھے سی بی آئی،ای ڈی اورانکم ٹیکس محکمے کو لگانا ، منتخبہ جمہوری حکومتوں کو گرانا ، الیکشن میں شکست کے باوجود حکومت سازی کے لئے مخالف پارٹیوں کے ممبروں کو دولت اور وزارت کالالچ  دے کر حکومت بنانا، ان لیڈروں کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے جو سونیا ، راہل اور پرینکا گاندھی کے بس کی بات نہیں۔ اس کے لئے انہیں پارٹی کے ایسے لوگوں کو آگے لانا ہوگا جو بی جے پی لیڈروں کو انہی کے لب ولہجے اور ہتھیار سے مات دینے کے اہل ہوں۔
  سوال  پارٹی پر خاندانی قیادت اور اجارہ داری کو بچانے کا نہیں ملک کو بچانے کا ہے ورنہ خوشامدی ٹولہ کانگریس کو کولے ڈوبے گا۔ راہل گاندھی کا موقع بے موقع چھٹیوں پر بیرون ملک جانا ، پارٹی صدارت سے ان کی عدم دلچسپی کا مظہر ہے  انہیں دوبارہ صدر بنانا پارٹی ملک اورکانگریس  کے خیر خواہوں کے ساتھ زیادتی ہوگی۔

congress Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK