Inquilab Logo

مولانا ابوالکلام آزاد سے غلام نبی آزاد تک

Updated: September 06, 2022, 9:56 AM IST | kamal hasan | Mumbai

کہا جارہا ہے کہ غلام نبی آزادنے کانگریس اس لئے چھوڑی کہ ان کاخیال تھا کہ انہیں کانگریس میں وہ مرتبہ اور مقام نہیں دیا جا رہا ہے، جس کے وہ مستحق ہیں۔ہمارا خیال قدرے مختلف ہے۔ہمیں یاد آتا ہے کہ کانگریس نے انہیں وہ سب دیا جس کے وہ شاید مستحق نہیں تھے۔

Azad to Ghulam Nabi Azad
غلام نبی آزاد

ایک واقعہ سنئے۔ بات اس وقت کی ہے جب وی پی سنگھ نے راجیو گاندھی کی کابینہ سے استعفیٰ دیا تھا ۔ تقریباًاسی وقت ہم نے بھی اُردو بلٹز کی ایڈیٹر شپ چھوڑ دی تھی۔ اس کے بعد ہم اپنی کئی فلموں کے ہیرو راج ببّر اور اپنے ایک عزیز دوست سدرشن لوئلکا کے اصرار پر وی پی سنگھ سے جا ملے تھے۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ ہمیں ان کے اور اپنے سیاسی نظریات اور اخلاقی اصولوں میں خاصی قربت اور ہم آہنگی نظر آتی تھی۔ پھر ہم ان کے ساتھ شہروں شہروں پھرنے لگے۔ان کا قافلہ یو پی کے شہر فرخ آباد پہنچا تو بھی ہم ان کے ساتھ تھے۔ فرخ آباد میں ہم سب وی پی سنگھ کے ایک معتقد سردار جی کے بنگلہ پر لنچ لینے کےلئے گئے۔ اتفاق سے اس شہر سے ہمارے ایک عزیز صحافی دوست سنتوش بھارتی جنتا دل کے ٹکٹ پر امیدوار تھے۔ لنچ کے بعد دنیا جہان کی باتیں ہونے لگیں۔ باتوں باتوں میں ہم نے وی پی سنگھ سے، جنہیں ہم سب راجہ صاحب کہا کرتے تھے، پوچھا کہ راجہ صاحب آخر کانگریس جیسی بڑی اور پرانی پارٹی اس بدحالی اور کسمپرسی کا شکار کیسے ہوگئی؟ تھوڑے توقف کے بعد انہوں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ کانگریس اس بدحالی کاشکار اس لئے ہے کہ پہلے کانگریس میں جواہر لعل نہرو ہوا کرتے تھے، اب ارون نہرو ہوتے ہیں، پہلے کا نگریس میں سردار ولبھ پٹیل ہوا کرتے تھے ، اب سردار بوٹا سنگھ ہیں اور پہلے کانگریس میں مولانا ابوالکلام آزاد ہوا کرتے تھے ، اب غلام نبی آزاد ہوا کرتے ہیں۔ ایک زوردار قہقہہ بلند ہوا۔ لیکن سچ پوچھئے تو ان کا تجزیہ بہت درست تھا۔ کانگریس کی زبوں حالی کا سبب لیڈروں کی کھوکھلی دانشمندی اور موقع پرستی ہی ہے۔ واقعہ ہمیں اس وقت یاد آیا جب یہ خبر آئی کہ غلام نبی آزاد نے کانگریس پارٹی چھوڑ دی ہے۔ 
  کہا جارہا ہے کہ انہوں نے کانگریس اس لئے چھوڑی کہ ان کاخیال تھا کہ انہیں کانگریس میں وہ مرتبہ اور مقام نہیں دیا جا رہا ہے، جس کے وہ مستحق ہیں۔ ہمارا خیال قدرے مختلف ہے۔ ہم جب پلٹ کر  دیکھتے ہیں تو ہمیں یاد آتا ہے کہ کانگریس نے انہیں وہ سب دیا جس کے وہ شاید مستحق نہیں تھے کانگریس نے انہیں مرکزی کابینہ میں اہم وزارتیں دیں۔ کیا وہ بتائیں گے کہ انہوں نے کس وزیر کی حیثیت سے کیا کارنامہ انجام دیاجو اوروں کوتو چھوڑئے خود انہیں یاد ہو۔ کانگریس نے انہیں ریاست جموں کشمیر کا چیف منسٹر بنایا ۔ انہیں فاروق عبداللہ اور مفتی سعید جیسے بڑے لیڈروں کا ہم پلہ لیڈر بنا دیا۔ کیا انہوں نے بحیثیت چیف منسٹر کوئی ایک بھی ایسا کام کیا جس کے سبب ریاست کے عوام ان کو دعائیں دیتے ہوں؟ کانگریس نے انہیں پارٹی کا جنرل سکریٹری بنایا اور ۲۰۱۵ء کے یوپی الیکشن میں کانگریس کا الیکشن انچارج بنایا۔ نتیجے آئے تو اسمبلی میں کانگریس کی سیٹیں گھٹ کرصرف ۷؍ رہ گئی تھیں۔ 
     بہر حال اب انہوں نے کانگریس چھوڑ دی ہے۔ کانگریس سے وہ اس لئے بھی مایوس تھے کہ پارٹی لیڈروں کو وہ اہمیت اور سہولت نہیں ملا کرتی، جو لوک سبھا یا راجیہ سبھا کے ممبروں کو ملا کرتی ہے۔ ان کی راجیہ سبھا کی ممبری کی مدت ختم ہو چکی تھی اور ملک کی کسی صوبائی اسمبلی میں کانگریس کے ممبروں کی اتنی تعداد نہیں تھی کہ پارٹی ان کی ممبری کی تجدید کر سکتی۔ چنانچہ صرف پارٹی کے کسی عہدے پر رہ کر انہیں رہنے کے لئے نہ تو سرکاری رہائش گاہ مل سکتی تھی اور نہ ہی دوسرے پروٹوکول مل سکتے تھے۔ اس لئے پہلے انہوں نے کانگریس کے اس گروپ ۲۳؍میں شمولیت اختیار کی ،جو پارٹی کے چند بڑے اور اہم لیڈروں نے بنایا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ جب ان بڑے بڑے ناموں کے لئے دوسری پارٹیوں کے دروازے کھلیں گے تو ان کے لئے بھی کہیں نہ کہیں گنجائش نکل ہی آئے گی لیکن ہوا یہ کہ کپل سبّل کے سوا کسی ایک کی بھی کہیں پذیرائی نہیں ہوئی۔ چونکہ عام طور پر یہ مانا جاتا ہے کہ مودی سرکار اپنے بل پر نہیں بلکہ ای ڈی، سی بی آئی اور انکم ٹیکس محکمات کے بل پر چلتی ہے، اس لئے اپوزیشن کی ہر پارٹی کو بڑے اور نامور وکیلوں کی ضرورت ہوتی ہے، اسی لئے ابھیشیک منو سنگھوی، ممتا بنرجی کی ترنمول کانگریس میں کھپ گئے۔ بد قسمتی سے غلام نبی آزاد میں کوئی ایسی لیاقت بھی نہیں تھی کہ کوئی پارٹی ان کے لئے دروازہ کھولتی۔ اس لئے دوسرے باغی کانگریسیوں کی طرح وہ بھی در در بھٹک رہے تھے۔ سنا ہے وہ کشمیر واپس جا کر کوئی نئی پارٹی بنانے کی بات سوچ رہے ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ریاست جموں کشمیر کانگریس کے ۶۴ ممبروں نے ان کی حمایت میں پارٹی چھوڑ دی ہے۔  یقیناًحامیوں کے اتنے ’بڑے لشکر‘ کے ساتھ وہ پارٹی ضرور بنا سکتے ہیں ، لیکن وہ پارٹی بھی پھر اسی لشکر جتنی بڑی ہوگی۔ دوسرے وادی میں تو لیڈر تو دور انہیں اپنا بھی نہیں مانا جاتا۔ تو کیا یہ صرف جموں کی پارٹی ہوگی؟ تو پھر کیا وہ بی جے پی میں جائیں گے؟  ان کی ممبری ختم ہونے کے دن نریندر مودی نے بہت ہمدردی جتاتے ہوئے رقت آمیز لہجہ میں ان کی خدمات کا ذکر اور ان کی عظمت کا اعتراف کیا تھا ۔ ہمیں معلوم نہیں کہ ان کی مادری زبان ڈوگری ہے یا اردو ، لیکن ہندی تو بہر حال نہیں ہے لیکن جب کانگریس نے انہیں راجیہ سبھا میں اپوزیشن لیڈر بنایا تو انہوں نے اچانک ہندی بولنا شروع کر دی۔ حالانکہ دونوں ایوانوں میں اردو بولنے کی کوئی ممانعت نہیں ہے اور اسد الدین نہایت بے تکلفی سے اُردو بولتے ہیں اور سب انہیں دلچسپی کے ساتھ سنتے بھی ہیں لیکن ہمارے خیال میں وہ اس طرح بھی بی جے پی کو کچھ بتانا چاہتے تھے۔ یہ اور بات ہے کہ ان کو ہندی بولتے سن کر ہمیں اتنی ہی ہنسی آتی تھی، جتنی بعض لوگوں کو اُردو بولتے سن کر آتی ہے۔ لیکن ہمیں یقین نہیں کہ ان کی بی جے پی میں جانے کی مراد بر آئے گی۔ وجہ یہ ہے کہ بی جے پی کے کئی لیڈر کئی بار کہہ چکے ہیں کہ اب پارٹی کو مسلم ووٹوں کی ضرورت نہیں رہ گئی ہے۔توجن کے ووٹوں کی ضرورت نہیں رہی ، ان کے لیڈروں کی کیا ضرورت ہوگی؟ بی جے پی میں فی الوقت صرف تین مسلمان ہیں اور وہ بھی بقول شخصے ٹکے کے تین تین ہیں۔ مختار عباس نقوی ابھی راجیہ سبھا کے ممبر ہیں، ممبری ختم ہوتے ہی کسی ویسے ہی طاق کہ زینت ہوںگے، جیسے طاقوں میں اڈوانی اور مر لی منوہر جوشی رکھے ہوئے ہیں۔ شاہنواز حسین بھی ٹھکانے لگائے جا چکے ہیں اور محمد عارف خان کو بھی گورنری ختم ہونے کے بعد اپنے آبائی گاؤں کے سوا کہیں پناہ نہیں ملے گی۔ ان سب باتوں کے مدنظرا بھی وہ اگر بی جے پی میں جانا چاہیں تو ضرور جائیں لیکن یہ یاد رکھیں کہ بی جے پی میں وہ غلام بن کر تو رہ سکتے ہیں آزاد بن کر نہیں۔ہمیں لگتا ہے کہ انہوں نے مایوسی کا شکار ہو کر خود کو اور ساتھ ہی اپنی سیاست کو ایک ایسی بند گلی میں پہنچا دیا ہے جہاں سے آگے کوئی راستہ بھی نہیں ہے اور جہاں سے لوٹنا بھی دشوار ہے۔n

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK