گنگا جمنا کے کنارے آباد الٰہ آباد کے متعدد گائوں اِس وقت سیلاب کی زد پر ہیں ۔ گائوں کے وہ لوگ جو کار اور بائیک سے شہر جاتے تھے اب وہ بھی کشتی کے سہارے ہیں۔
EPAPER
Updated: September 18, 2025, 5:41 PM IST | Ahsanul Haque | Mumbai
گنگا جمنا کے کنارے آباد الٰہ آباد کے متعدد گائوں اِس وقت سیلاب کی زد پر ہیں ۔ گائوں کے وہ لوگ جو کار اور بائیک سے شہر جاتے تھے اب وہ بھی کشتی کے سہارے ہیں۔
آج سے ۲۵۔ ۲۰؍ سال پہلے بارش کے یہ دن زیادہ مشکل بھرے ہوتے تھے۔ ندیوں میں طغیانی کے سبب لوگ اپنے گائوں تک محدود ہو کر رہ جاتے تھے۔ ندیوں سےاُٹھنے والی لہروں کے سبب لوگ کشتی میں بیٹھنے سے ڈرتے تھے، لیکن ضرورتیں اُس ڈر پر بھاری پڑتی تھیں۔ سڑکیں ٹوٹی ہوں ، سیلاب ہو لیکن زندگی کی ضرورتوں کو تو ہر حال میں پورا کرناہوتا ہے خواہ اس کیلئے ندی کو پار کرکے ہی شہر کیوں نہ جانا پڑے، لیکن اس میں بھی خطرہ کم نہیں ہوتا تھا۔ ندی میں اچانک پانی آجائے تو زندگی سے ہاتھ دھونا پڑ جاتا تھا۔
ویسے ندیوں کےکنارے کی خوبصورتی کے کیا کہنے، صبح نکلتے ہوئے سورج کی کرنیں جب ندی کے صاف پانی پر پڑتی ہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے جیسےکچھ دیر کیلئے سونےکی چادربچھ گئی ہو۔ یہاں تا حد نگاہ پانی ہی پانی نظر آتا ہے اوراُس پر اٹکھیلیاں کرتے پرندے۔ چاروں طرف ہریالی ہی ہریالی۔ باغوں میں پڑے چھپر میں بیٹھے بزرگ کھیتوں کی رکھوالی کررہے ہوتے ہیں۔ چرا گاہ میں درجنوں گائیں، بھینسیں اور بکریاں چر رہی ہوتی ہیں۔ کچھ پیڑوں پر رسیوں سے ٹائر بندھے ہوئے ہیں جہاں اُن پر بچےجھولا جھول رہے ہوتے ہیں۔ یہ منظر اتنا خوبصورت لگتا ہے کہ ...دل کرتا ہے کہ زندگی کی رفتار ٹھہر جائے۔
اب جگہ جگہ ندیوں پر پُل بن گئے ہیں ۔ اب صورتحال تبدیل ہوگئی ہے لیکن سیلاب زدہ علاقوں کے لوگ ایک بار پھر ایسے ہی مسائل سے گھرے ہوئے ہیں۔ گنگا جمنا کے کنارے آباد الٰہ آباد کے متعدد گائوں اِس وقت سیلاب کی زد پر ہیں ۔ گائوں کے وہ لوگ جو کار اور بائیک سے شہر جاتے تھے اب وہ بھی کشتی کے سہارے ہیں۔ طلبہ بھی کشتی کی مدد سے اسکول پہنچ رہےہیں۔ موقع کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے کشتی والوں نے اپنا کرایہ بڑھا دیا ہے۔ گائوں کے لوگ بتا رہے تھے کہ اتنا کرایہ تو شہر جانے کا نہیں لگتا جتنا یہ کشتی والا ندی پار کرانے کا لیتا ہے۔
سیلاب زدہ علاقہ کےلوگوں نےبتایا کہ ندی پار کرکے شہر جا نا ہم لوگوں کی مجبوری ہے کیونکہ دوسرے راستے سے شہر جانے پر ۳۵؍ کلو میٹر کا چکر لگانا پڑتا ہے اور ندی پار کرکے ہم محض ۱۲؍ کلو میٹر کا سفر طے کرکے شہر پہنچ جاتے ہیں۔ ہم سب کی مجبوری کا فائدہ کشتی راں خوب اُٹھاتا ہے۔ ندی کی سطح آب بڑھنے کے ساتھ ہی کشتی کا کرایہ بھی بڑھتا جاتا ہے۔ کشتی پر اپنی سائیکل چڑھاتے ہوئے رام کرن کہنے لگے ہم لوگ کریں تو کیا کریں۔ ندی پار کرکے شہر جانا ہم لوگوں کی مجبوری ہے، ورنہ سڑک کے راستے لمبار چکر لگانا پڑتا ہے۔ سیلاب کی مار انسانوں کے ساتھ ساتھ مویشی بھی جھیلتے ہیں۔ کئی روز تک جب یہ علاقہ سیلاب کے پانی سے گھرا تو یہاں کھونٹے میں بندھے درجنوں کی تعداد میں مویشی مر گئے۔ لوگ کسی طرح خود کو اور اپنے بچوں کو محفوظ مقامات تک پہنچا پائے لیکن اُن کے قیمتی مویشی وہیں کھونٹے میں بندھے تڑپ تڑپ کر مر گئے۔ یہ بتاتے ہوئے رام کرن کی آنکھیں بھر آئیں۔ وہ کہہ رہے تھے کہ کاش پانی کے تیز بہائو نے اتنا وقت دیا ہوتا کہ ہم اپنے مویشیوں کو کھونٹے سے چھوڑ کر آزاد کر دیتے بھلے ہی وہ پھر واپس لوٹ کے نہ آتے لیکن ان کی جان تو بچ جاتی، اس کا مجھے زندگی بھر افسوس رہے گا۔
الٰہ آباد شہر سے لگا بیلی گائوں ہے۔ گنگا جمنا کے کنارے آباد یہ علاقہ دو آبہ کہلاتا ہے۔ یہاں کی زمین بڑی زر خیز ہے۔ یہاں کی معیشت کا دارو مدار زراعت اور مویشی پروری پر ہے۔ یہاں لوگ صبح صبح گایوں اور بھینسوں کا دودھ نکال کر ان کےجھُنڈ کے ساتھ گنگا کے کنارے واقع بڑی بڑی چرا گاہوں میں لے جاتے ہیں جہاں ہری ہری گھاس چر کرمویشی دودھ کی مقدار بڑھا دیتے ہیں۔ چنانچہ اس علاقے میں آباد کسانوں کو چارے پانی کی قلت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ لیکن بارش کے ایام میں یہاں آنے والا سیلاب ایک جھٹکے میں کسانوں کی محنت پر پانی پھیر دیتا ہے۔
یہاں جب سیلاب آتا ہے تو کچھ دنوں کیلئے امیری اور غریبی کا فرق مٹ جاتا ہے۔ کیا زمیندار صاحب اور کیا ادنیٰ سا مزدور سب کو ایک ہی کشتی پر سوار ہونا پڑتا ہے۔ اُس روز گائوں کے کنارے پر کشتی لگی تھی ایک ایک کرکے لوگ اس میں بیٹھ رہے تھے، سواری پوری ہو گئی تو ملاح کشتی لے کر نکلنے کی تیاری کررہا تھا، اتنے میں پیچھے سے آواز آئی مجھے لئے بغیر چلے جا رہے ہو، رُکو..... کشتی راں پیچھے مُڑ کر دیکھا تو زمیندر صاحب تھے۔ اُس نے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا صاحب ...کشتی پر سواری پوری ہو چکی ہے، اس سے زیادہ سواری نہیں بٹھائی جاسکتی، اس نے لاچاری ظاہر کی...اتنا سُننا تھا کہ زمیندار صاحب اُکھڑ گئے ...کہنے لگے مجھےضروری کام ہے کچہری پہنچنا ہے ...ہاتھ جوڑے ہوئے کشتی راں نے کہا ...دُہائی ہو سرکار ...اب کشتی پر ایک بھی مسافرزیادہ سوار ہوا تو اس کا ساحل تک پہنچنا مشکل ہوجائے گا، اسلئے صاحب خطرہ مول نہ لیجئے میں جلدی سے چکر لگا کر واپس آتا ہوں ۔ یہ کہتےہوئے اُس نےکشتی کو دھکا دیااورکشتی پانی میں تیرتےہوئےاپنی منزل کی طرف تیزی سےبڑھ گئی۔