Inquilab Logo

غزہ پھر لہولہان

Updated: May 13, 2021, 7:56 AM IST | Mumbai

سفاک اسرائیل نے نہتے فلسطینیوں کو ’’سبق سکھانے‘‘ کیلئے ماہِ مبارک کو اپنی جارحیت کا ’’موسم بہار‘‘ سمجھ لیا ہے

The brutal bombing by the Israelis.Picture:iNN
اسرائیلیوں نے جو ظالمانہ بمباری کی ہے تصویر آئی این این

سفاک اسرائیل نے نہتے فلسطینیوں کو ’’سبق سکھانے‘‘ کیلئے ماہِ مبارک کو اپنی جارحیت کا ’’موسم بہار‘‘ سمجھ لیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر رمضان ہی میں اس کی رگِ شیطنت پھڑکتی ہے اور اس کے فوجی فلسطین کی سرکوبی کیلئے نکل پڑتے ہیں جبکہ اب بچی کھچی اراضی ٔ فلسطین اس قابل بھی نہیں رہ گئی ہے کہ اس پر حملے کرنا غاصب اسرائیل کی حربی قوت کے شایان شان ہو مگر ہر بار اسرائیلی حکام وہی گھسا پٹا جواز پیش کرتے ہیں کہ فلسطین کی جانب سے راکٹ برسائے جارہے تھے۔ کیا کوئی سوچ بھی سکتا ہے کہ فلسطینی، جو ویسے بھی مظلوم، محبوس اور معاشی طور پر پریشان ہیں، جب جی چاہے گا اسرائیل کی جانب چند راکٹ اُچھال دینگے یہ جانتے ہوئے کہ ظالم اسرائیلی حکمراں موقع کی تاک میں ہوتے ہیں اور راکٹ کا بدلہ تباہ کن بمباری سے دیتے ہیں؟ راکٹ پھینکنے کی حرکت تو کوئی دیوانہ ہی کرسکتا ہے۔ اہل فلسطین دیوانے نہیں ہیں۔ وہ اسرائیلی منصوبوں کے خلاف پُرامن سفارتی کوششوں کے ذریعہ ایک محفوظ زندگی کے خواب کی برسہا برس سے پرورش کررہے ہیں تاکہ اب تک کی نسلوں نے جو کچھ بھی بھگتا ہے وہ آئندہ نسلوں کو نہ بھگتنا پڑے۔ وہ محکومیت کے شب و روز سے پُروقار طریقے سے نکلنے کیلئے کوشاں ہیں، راکٹ پھینک کر اپنا مقدمہ خود کمزور کرنے کے درپے نہیں ہیں۔ مگر اس بار بھی ’راکٹ اندازی‘ کو بہانہ بناکر اسرائیلی حکام نے فلسطین کو تہس نہس کرنے کیلئے اپنے لشکر کو ’مشن فلسطین‘ پر مامور کردیا چنانچہ پیر کی رات فلسطین کے رہائشی علاقوں کو نشانہ بناتے ہوئے اسرائیلیوں نے جو ظالمانہ بمباری کی ہے اس کے نتیجے میں ۱۰؍ بچوں اور ایک خاتون سمیت ۲۸؍ افراد جاں بحق ہوچکے ہیں۔ غزہ سے جاری ہونے والی تصویریں گواہ ہیں کہ اسرائیلی حکام نے چند ایک بم نہیں پھینکے بلکہ فلسطینی فضا کو بارود ، آگ اور دھویں میں اس طرح نہلا دیا جیسے دو طاقتور ملک کسی جنگ عظیم میں ایک دوسرےکے خلاف زبردست پیش قدمی کررہے ہوں۔  
 مسئلہ اصل میں نیتن یاہو کی گھٹتی ہوئی سیاسی طاقت کا ہے۔ یاہو تسلسل کے ساتھ الیکشن ہارتے جارہے ہیں۔ دوسرا مسئلہ جو سمجھ میں آتا ہے وہ اسرائیل کی عدم محفوظیت کا بھی ہے۔ اسے نہیں معلوم کہ بش اور ٹرمپ کا امریکہ بائیڈن کی سربراہی میں اُس کے مفادات کو اُسی طرح مقدم رکھے گا جس طرح سابق امریکی صدور رکھتے تھے۔ تیسرا مسئلہ کم و بیش ایک سال کا تعطل ہے جس میں اسرائیل غزہ کے خلاف اپنی بھڑاس نہیں نکال سکا ہے۔ چوتھا مسئلہ اس خوف کا ہے کہ اگر فلسطین کے انتخابات ہوئے (جو محمود عباس نے پچھلے ہفتے ملتوی کردیئے ہیں) تو حماس کی کامیابی کے امکانات روشن ہیں۔اسی لئے اسرائیلی حکام نے مسجد اقصیٰ میں مسلمانوں کو رگیدنے کی کوشش کی، اُن کے داخلے پر نئی پابندیاں عائد کیں اور دمشق گیٹ پر رکاوٹیں کھڑی کردیں۔ اسی دوران یہودی بازآبادکار بھی نئے جوش و خروش کے ساتھ سرگرم ہوگئے۔ یہ سب پچھلے کئی مہینوں کے امن کو توڑنے اور تنازع کو نئے سرے سے کھڑا کرنے کی کوشش نہیں تھی تو اور کیا تھا؟ 
 عالمی ذرائع ابلاغ میں اپنے نام نہاد عالمانہ تبصرہ سے خود کو غیر جانبدار قرار دینے کی کوشش کرنے والے مبصرین کو فلسطینیوں کی راکٹ بازی پر اعتراض کرنے سے پہلے حالات اور واقعات کے پس منظر میں بھی جھانکنا چاہئے۔ اگر وہ ایسا کریں تو شاید یہ سوال کرپائیں کہ رمضان میں اسرائیلی حکام کیوں اتنے سرگرم ہوئے اور مسجد اقصیٰ میں مسلمانوں کے داخلے کو کیوں روکا۔n

gaza Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK