Inquilab Logo

اُٹھ کہ اب بزمجہاں کا اور ہی انداز ہے

Updated: July 05, 2020, 9:51 AM IST | Mubarak Kapdi

کورونا وائرس اور ملک گیر لاک ڈائون کی بنا پر زندگی میں جو تبدیلیاں نمودار ہورہی ہیں اُس ضمن میں ہمارے نوجوانوں کو تین محاذ پر بیدار رہنا ہے ۔ (ا) صحت و سائنس (۲) حکومت ِ وقت کی تنگ نظری و جانبداری اور (۳) ہماری صفوں میں چھپے ہوئے سماج دشمن عناصر ۔ ان محاذ پر بیدار رہنے والے ہی کامیاب رہیں گے

Lockdown - Pic : PTI
لاک ڈاؤن ۔ تصویر : پی ٹی آئی

ہمارے صرف سینئر کالج ہی نہیں بلکہ جونیئر کالج کے طلبہ بھی اب تک یہ سمجھ گئے ہوں گے کہ کورونا وائرس کی عالمی وبا یا بَلا کی بنا پر ہمارا معاشرہ و ملک بیک وقت کئی محاذ پر گھِرا ہوا ہے۔ اگر اس میں کچھ ابہام ہیں تو ہم واضح کردیتے ہیں۔کورنا وائرس کی بنا پر سب سے بُرا اثر یہاں کے شہریوں کی صحت پر ہوا ہے بلکہ ملک کی ایک بڑی آبادی کی صحت دائو پر لگی ہے۔ان تین مہینوں میں عام لوگ ہی نہیں بلکہ سیکڑوں ڈاکٹرس اور نرسیس بھی اپنی جان گنوا بیٹھے ہیں.... وجہ صرف یہ ہے کہ انھیں حفاظتی سامان تک مہیا نہیں کرایا گیا ہے۔ اس جان لیوا وبا کے تعلق سے حکومتِ وقت کتنی سنجیدہ ہے، ا س کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس بیماری کے علاج کیلئے ملک بھر کے تحقیقی اداروں کو متحرک کرنے کے بجائے ایک ڈھونگی بابا کو میدان میںاُتارا، تاکہ وہ اپنے کاروبار کو چمکا سکے۔ دنیا بھر کے سائنسداں جہاں اس کی ویکسین کی تیاری کیلئے ابھی تک سر پکڑکر بیٹھے ہیں، وہاں پر ہمارے سرکاری بابا نے اس بیماری کی ویکسین تیار کرنے کا دعویٰ کردیا  بلکہ ملک بھر کے ہزاروں دکانداروں تک اُس کے نسخے پہنچا بھی دیئے۔ جب عالمی سطح پر اس دھوکے پر واویلا مچا تو بابا نے اپنا ’گھوم جائو آسن‘ پیش کیا کہ وہ ویکسین نہیں بلکہ صرف ایک دوا ہے۔ ویسے میڈیکل سائنس ہو یا اِسپیس سائنس موجودہ حکمرانوں کی’ تحقیق‘ سے ہمارے نوجوان واقف ہیں ہی کہ (۱) مہا بھارت کی جنگ میں انٹرنیٹ کا استعمال ہوا تھا(۲) ہزاروں سال پہلے انسان کے جسم کو ہاتھی کا سر پیوست کیا گیا، وہ دنیا کی پہلی پلاسٹک سرجری تھی (۳) ہم آسمان میں بادل چھانے کا انتظار کرتےرہے تاکہ دشمن ملک کے رڈار دھوکہ کھا جائیں وغیرہ۔
 کورونا وائرس کے حملے کے دَوران دوسرا بڑا المیہ ثابت ہو اہے موجودہ تنگ نظر، عاقبت ناشناس حکمرانوں کی ہمہ جہت ناکامی و نا اہلی۔ اس اتنے بڑے ملک پر راج کرنے کیلئے انھوںنے جو چند ’ایجادات‘ کی ہیں، ملاحظہ کیجئے۔ 
 (الف) الیکشن کے وقت سرجیکل اسٹرائک  (ب) دشمن کے حملے کے جواب میں ’ٹِک ٹاک‘ والا ڈیجیٹل اسٹرائک (ج) ۸۰؍ کروڑ لوگوں کو ماہانہ پانچ کلو چاول (ملک بھر میں ۹۰؍کروڑ ووٹرس ہیں)۔ (د) اب یہ اچھی طرح انہیں معلوم ہوا کہ ۵۰۰/۷۰۰ ؍کلومیٹر پیدل چل کر اپنے گائوں پہنچنے والے  دیہاڑی مزدوروں کو اگر صرف ایک ایک ہزار روپے دیں گے تو وہ دوبارہ کسی الیکشن کی ریلی میںشرکت کیلئے واپس لوٹیں گے (ایسا استحصال تو دنیا کے غریب ترین ملکوں میںبھی نہیں ہوتا ہوگا)۔ (و) موجودہ حکمرانوں کا سب سے بھیانک روپ اُس وقت سامنے آیا جب انھوںنے کوروناوائرس کی تالہ بندی کے دوران شہریت ترمیم بل کی مخالفت میں جمہوری طریقے سے احتجاج کرنے والوں پر ملک سے غدّاری کے سنگین الزامات لگاکر گرفتار کیا جانے لگا اور اب اُس جمہوری پُر امن احتجاج کی سزا بھی فوراً سنائی جانے گئی اور اُن کی جائیداد کی ضبطی کے حکم بھی جاری ہونے لگے۔ یعنی حکمراں پریوار نے اپنا (ڈھکا چھپا نہیں بلکہ) کھُلا ایجنڈا پوری دنیا پہ واضح کرد یا کہ چاہے ساری دنیا کوروناوائرس سے لڑتی رہے انھیں بہر حال فرقہ پرستی کے وائرس کو زندہ رکھنا ہے۔ یہ حکومت اپنے ہر ایجنڈے پر کتنی کمیٹیڈ ہے دیکھ لیجئے کہ سنگھ پریوار کو بہرحال اس ملک سے ریزرویشن ختم کرناہے ااور اسلئے سارے سرکاری اداروں کو سرمایہ داروں کے نجی ہاتھوں میں بیچنا شروع کردیا تاکہ اُن میں سے ریزرویشن ہمیشہ کیلئے ختم ہوجائے۔ یہ سطور قلم بند کرتے وقت اطلاع یہ آئی ہے کہ۱۴؍لاکھ ملازمین والی ہندوستانی ریلوے کو یہ حکومت بیچنے کا اعلان کر رہی ہے۔ 
 نوجوانو ! اِن سارے اندھیروں میں اللہ کی طرف سے انسان کو دی گئی سائنسی فکر ایک بڑی اُمّید کی کرن ہے۔ گزشتہ کئی مہینوں میں چین نے ہمارے ملک کے کچھ حصے پر قضبہ کر لیا ۔ حسبِ عادت ’پردھان سیوک ‘اور اُن کی واٹس ایپ یونیورسٹی کے گریجویٹس مسلسل کہتے رہے کہ ہمارے ملک کی ایک انچ زمین پر بھی قبضہ نہیں ہوا ہے۔ بھلا ہو ہمارے سٹیلائٹ کا جو ہر لمحہ کی ہر ہر تصویر محفوظ کر رہے ہیں۔ اب یہ تو کہنے سے رہے کہ بادل بارش اور ٹڈی دَل کی وجہ سے سٹیلائٹ نے غلط تصویریں بھیجی ہیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کو دعا دیجئے کہ کل یہ سٹیلائٹ یہ تصویریں بھی بھیجنا شروع کریں کہ لنچنگ میں کسی کا قتل کس طرح ہوا۔ یونیورسٹی کے کیمپس میں پولیس نے کیا کیازیادتیاں کیں، حتیٰ کہ پولیس کسٹڈی میں معصوموں کی چیخوں کا ریکارڈ بھی سٹیلائٹ میں ملے اور اگر کسی ملک میں اس کی عدالت عالیہ کے سب سے بڑے مُکھیا کو لاکھوں روپے والی ہیرلی ڈیوڈمن کی سواری اچھی لگے یا راجیہ سبھا کاتام جھام، البتہ خلاء میں چھوڑے ہوئے سٹیلائٹ کی گواہی سے عالمی عدالت میں مظلوم کو انصاف ملے۔ ابھی تو یہ صرف ایک خواب لگ رہا ہے البتہ جب یہ دنیا حقیقی معنوں میں ایک عالمی گائوں بن جائے گی تب انصاف عالمی عدالتوں ہی میں ہونے لگیں گے۔
 نوجوانو! زندگی میں احتساب کی جب کبھی آپ فکر کریں تو اُس کا آغاز خود احتسابی ہی سے ہونا چاہئے۔ ہم آج جب ہمارے معاشرتی منظر نامے کا جائزہ لے رہے ہیں تب ہمیں اس کی بھی فکر کرنی ہے کہ کہیں ہماری صفوں میں کچھ کالی بھیڑیں تو نہیںچھپی ہیں۔ اگر ہیں تو انھیں بے نقاب کرنا ہے کیوں کہ یہ لوگ نئی نسل کی پیش رفت میں مستقل رُکاوٹ ہیں۔ چند روز قبل ہمارے یہاں کسی قوم کے خود ساختہ ٹھیکیدار نے بڑے تکبّر سے کہا کہ وہ ساری سائنس کو اپنے جوتے کی نوک پر مارتے ہیں۔ یہ تو اچھا ہے کہ اس قسم کی باتیں کرنے والوں کو ہمارے نوجوان خاطر میں نہیں لاتے کیوںکہ وہ جانتے ہیں کہ ایسے نام نہاد قائد یامفکّر دوسری ہی صبح انھیں سائنس کی ایجاد کردہ کسی بس ، ٹرین یا ہوائی جہاز میں سفر کرتے اور کسی اسپتال کی قطار میںڈاکٹر سے مشورہ کرتے ملیں گے اور یہ کہ جس جوتے پر وہ نازاں ہیں وہ بھی کسی فیکٹری ہی میں بنا ہوگا۔ ہم انہی کالموں میں درجنوں بار سائنس اور اسلام کے فرضی تصادم کے بارے میں لکھ چکے ہیں نیزہم نے ہماری قوم کی بیش قیمت سائنسی خدمات پر بھرپور روشنی ڈالی ہے تاکہ ہمارے نوجوان سائنس سمیت سارے علوم  حاصل کرنے میں کوئی کوتاہی نہ برتیں اور ان آفاقی وبا کے دَور میں بھی اگر قوم کے نوجوان کے حوصلے پست کرنے کی شرانگیزی بھی کسی کو سوجھتی ہے تو کیا اس کا ہم یہ مطلب لیں کہ ہم سبھی کورونا کے ڈر سے خاموش ہیں اور جیسے ہی یہ وبا یہاں سے رُخصت ہوئی ہم پھر مسلکی جھگڑے شروع کریں گے؟ ہمارے نوجوان اب یہ سمجھیں اور قوم کے خود ساختہ قائدین کو اچھی طرح سمجھائیں کہ فکری ژولیدگی اور ابتری پراگندگی معاشرے میں صرف فساد کا پیش خیمہ ہوا کرتی ہے اور فساد اللہ کے نظام کے خلاف اعلانِ جنگ ہے۔ 
 دوستو!آج ہمیں کورونا وائرس کے عُسر میں بھی لَسیر کو تلاش کرنا ہے۔ مولانا آزاد کے خطوط کے یوں تو کئی مجموعے شائع ہوئے، جیسے کاروانِ خیال، نقش آزاد، مکاتب ابوالکلام آزاد اور تبرکات آزاد وغیرہ ،البتہ احمد نگر کی جیل میں قرنطینہ میں لکھے گئے ’غبارِ خاطر‘ کو سب سے زیادہ شہرت حاصل ہوئی جس نے سارے صاحبِ قلم، صاحبِ علم، صاحبِ فکر ، صاحبِ خرد اور صاحبِ نظر سبھوںکو متاثر کیا ۔ آج ہم یہاںمراٹھی کے نامور ادیب سانے گروجی کی شہرہ آفاق کتاب ’شیام چی آئی‘ کا بھی ذکر کرنا چاہیں گے جو انھوںنے احمد نگر کی جیل میں۹؍فروری تا ۱۳؍فروری ۱۹۳۳ء یعنی صرف پانچ دن رات میں لکھی تھی۔
 نوجوانو! کورونا نے آج جو معیشت و معاشرت کو زیر و زبر کردیا ہے، اس بنا پر ہماری طرزِ زندگی میں کئی تبدیلیاں ناگزیر ہیں۔ اس ضمن میں ہم آج ذکر کرنا چاہیں گے استکبار ، خود نمائی یا دکھاوے بازی سے دُوری کتنی ضروری ہے۔ آج بھی ہمارے ہاںکچھ ایسے لوگ موجود ہیں جن کے یہاں جب کوئی مہمان آئے تو وہ کہتے ہیںکہ جوتا باہر اُتار کر آئو کیوں کہ قالین ۶۵؍ہزار روپے کاہے، میں نے اِٹلی سے خریدا ہے۔ یا اگر اُن کو یہ پوچھا جائے کہ اُن کی گھڑی میں کیا بجاہے تو وہ کہیں گے اُن کی گھڑی سوا لاکھ روپے کی ہے اور ہاں سوا دس بجے ہیں۔ مڈل کلاس کے لوگ اُن کی نقل کرنے لگتے ہیں اور وہ جب کبھی کوئی گاڑی خریدتے ہیںتو اپنے ہارن سے پورے محلے کی توجہ چاہتے ہیں۔ ہیڈ لائٹ ایسی کہ سامنے کی گاڑی چلانے والے کی آنکھیں چندھیا جائیں۔ سگنل کی سُرخ بتّی ہری ہوتے ہی زور زور سے ہارن بجانے لگتے ہیںکہ دیر تک قطار میں رُکنا اُن کی عادت نہیں۔ گاڑی چلاتے وقت اُن کے بچّے چِپس کے خالی پیکٹ، موسمبی کے چھلکے اور مشروب کی بوتلیں تک راستے بھر پھینکتے جاتے ہیں تاکہ لوگوں کو اندازہ ہوجائے کہ وہ کتنے خوش خوراک ہیں۔ اگر اُن کی گاڑی کسی جھگی جھوپڑی کے قریب سے گزر رہی ہے تو سڑک کنارے وہاں کے بچّے اُن پر رشک کریں کہ اُس گاڑی میں کتنے مالدار گھر کے بچّے بیٹھے ہیں۔ وہ بچّے سوچیں کہ انھیں تو مہینے بھر میں ایک چِپس کا پیکٹ نصیب ہوتا ہے اور اُس گاڑی میں سوار بچّے ایک سگنل سے دوسرے سگنل تک چار چھ پیکٹ اب تک پھینک چکے ہیں۔ ہمارا یہ رویہ گاڑی کے باہرکے بچّوں کے بہ نسبت گاڑی میں سوار بچّوں کو زیادہ نقصان پہنچاتاہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK