Inquilab Logo

غالب جدید شعراء کی ایک مجلس میں۔ دوسری اور آخری قسط

Updated: January 05, 2020, 10:45 AM IST | Kanhaiya Lal Kapoor

مرزا اسداللہ خاں غالب۔ تصویر: آئی این این
مرزا اسداللہ خاں غالب۔ تصویر: آئی این این

م ن ارشد: اب مرزا، غزل کا دوسرا شعر فرمائیے۔ 
غالب: میں اب مقطع ہی عرض کروں گا، کہا ہے
عشق نے غالبؔ نکما کر دیا
 ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے 
عبدالحئی نگاہ: گستاخی معاف مرزا، اگر اس شعر کا پہلا مصرع اس طرح لکھا جاتا تو ایک بات پیدا ہو جاتی۔
غالب: کس طرح؟ 
عبدالحی نگاہ:
عشق نے، ہاں ہاں تمہارے عشق نے 
عشق نے سمجھے؟ تمہارے عشق نے 
مجھ کو نکما کر دیا / اب نہ اٹھ سکتا ہوں میں 
اور چل تو سکتا ہی نہیں /جانے کیا بکتا ہوں میں 
یعنی نکما کر دیا /اتنا تمہارے عشق نے 
گرتا ہوں اور اٹھتا ہوں میں 
اٹھتا ہوں اور گرتا ہوں میں 
یعنی تمہارے عشق نے /اتنا نکما کردیا
غالب: (طنزاً) بہت خوب۔ بھئی غضب کر دیا۔ بھئی اب آپ لوگ اپنا کلام سنائیں۔
م۔ ن۔ ارشد: اب ڈاکٹر قربان حسین خالصؔ، جو جدید شاعری کے امام ہیں اپنا کلام سنائیں گے۔ 
ڈاکٹر خالصؔ: اجی ارشد صاحب میں کیا کہوں، اگر میں امام ہوں تو آپ مجتہد ہیں۔ آپ جدید شاعری کی منزل ہیں اور میں سنگ میل اس لئے آپ اپنا کلام پہلے پڑھئے۔ 
م۔ ن۔ ارشد: توبہ توبہ! اتنی کسر نفسی۔ اچھا اگر آپ مصر ہیں تو میں ہی اپنی نظم پہلے پڑھتا ہوں۔ نظم کا عنوان ہے۔ ’’بدلہ۔‘‘(مکمل نظم سن کر سامعین پر وجد کی حالت طاری ہو جاتی ہے، ہیراجی یہ کہتے ہوئے سنائی دیتے ہیں۔ یہ نظم اس صدی کی بہترین نظم ہے، بلکہ میں تو کہوں گا کہ اگر ایک طرح سے دیکھا جائے تو اس میں انگیٹھی، بھوت اور دفتر، تہذیب و تمدن کی مخصوص الجھنوں کے حامل ہیں۔) 
غالب:۔ ارشد صاحب معاف کیجئے۔ آپ کی یہ نظم کم از کم میرے فہم سے تو بالا تر ہے۔ 
غیظ احمد غیظ: یہ صرف ارشد پر ہی کیا منحصر ہے، مشرق کی جدید شاعری ایک بڑی حد تک مبہم، اور ادراک سے بالا تر ہے۔ 
م ن ارشد: اجی چھوڑیئے اس حرف گیری کو۔ آپ اس شعر کو سمجھے ہی نہیں۔ مگر خیر اس بحث میں کیا رکھا ہے۔ کیوں نہ اب ڈاکٹر قربان حسین خالصؔ سے درخواست کی جائے کہ اپنا کلام پڑھیں؎
ڈاکٹر خالصؔ : میری نظم کا عنوان ہے ’’عشق۔‘‘ (وہ اپنی نظم پڑھتے ہیں)
غالب: بھئی یہ کیا مذاق ہے،نظم پڑھیے۔ مشاعرے میں نثر کا کیا کام؟ 
ڈاکٹر خالص:۔ (جھنجھلا کر) تو آپ کے خیال میں یہ نثر ہے؟ یہ ہے آپ کی سخن فہمی کا عالم،اور فرمایا تھا آپ نے؎’’ہم سخن فہم ہیں غالب کے طرفدار نہیں‘‘ 
غالب: میری سمجھ میں تو نہیں آیا کہ یہ کس قسم کی نظم ہے نہ ترنم، نہ قافیہ، نہ ردیف۔ 
ڈاکٹر خالص: مرزا صاحب! یہی تو جدید شاعری کی خصوصیت ہے۔ آپ نے اردو شاعری کو قافیہ اور ردیف کی فولادی زنجیروں میں قید کر رکھا تھا۔ ہم نے اس کے خلاف جہاد کر کے اسے آزاد کیا ہے اور اس طرح اس میں وہ اوصاف پیدا کئے ہیں جو محض خارجی خصوصیات سے کہیں زیادہ اہم ہیں۔ میری مراد رفعت تخیل، تازگی ٔ افکار اور ندرت فکر سے ہے۔ 
غالب: رفعت تخیل، کیا خوب۔ کیا پرواز ہے، 
میں نے اک عاشق سے پوچھا، اس نے یوں رو کر کہا 
ڈاکٹر خالص: (چڑ کر) عاشق رو کر نہیں کہے گا تو کیا قہقہہ لگا کر کہے گا؟ مرزا آپ یہ بھی نہیں جانتے کہ عشق اور رونے میں کتنا گہرا تعلق ہے۔ 
غالب: مگر آپ کو قافیہ اور ردیف ترک کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ 
رقیق احمد خوگر: اس کی وجہ مغربی شعراء کا تتبع نہیں بلکہ ہماری طبیعت کا فطری میلان ہے، جو زندگی کے دوسرے شعبو ں کی طرح شعر و ادب میں بھی آزادی کا جویا ہے۔ اس کے علاوہ دور جدید کی روح انقلاب، کشمکش، تحقیق، تجسس، تعقل پرستی اور جد و جہد ہے۔ ماحول کی اس تبدیلی کا اثر ادب پر ہوا ہے۔ اور میرے اس نکتے کو تھیکرے نے بھی اپنی کتاب وینٹی فیئر میں تسلیم کیا ہے۔ چنانچہ اسی لئے ہم نے محسوس کیا کہ قدیم شاعری ناقص ہونے کے علاوہ روح میں وہ لطیف کیفیت پیدا نہیں کر سکتی، جو مثال کے طور پر ڈاکٹر خالص کی شاعری کا جوہر ہے۔ قدیم شعراء اور جدید شعراء کے ماحول میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ قدیم شعراء بقول مولانا آزاد حسن و عشق کی حدود سے باہر نہ نکل سکے اور ہم جن میدانوں میں گھوڑے دوڑا رہے ہیں نہ ان کی وسعت کی انتہا ہے اور نہ ان کے عجائب و لطائف کا شمار۔ 
غالب: میں آپ کا مطلب نہیں سمجھا۔ 
م ن ارشد: خوگر صاحب یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ہم ایک نئی دنیا میں رہتے ہیں۔ یہ ریڈیو، ہوائی جہاز اور دھماکے سے پھٹنے والی بموں کی دنیا ہے۔ یہ بھوک، بیکاری، انقلاب اور آزادی کی دنیا ہے۔ اس دنیا میں رہ کر ہم اپنا وقت حسن و عشق، گل و بلبل، شیریں فرہاد کے افسانوں میں ضائع نہیں کرسکتے۔ شاعری کیلئے اور بھی موضوع سخن ہیں۔
راجہ عہد علی خاں: بہت خوب،’’ یہ بھی ہیں ایسے کئی اور بھی مضموں ہوں گے‘‘، ایسے ہی مضامین میں سے ایک مضمون ’’ڈاک خانہ ‘‘ ہے جو میں ابھی آپ کے سامنے پڑھوں گا۔ 
غالب:۔ ڈاک خانہ؟ 
راجہ عہد علی خاں: مرزا اس میں حیران ہونے کی کیا بات ہے۔ (نظم سناتے ہیں۔زوروں کی داد دی جاتی ہے۔ ہر طرف سے مرحبا، بھئی کمال کر دیا، کے نعرے بلند ہوتے ہیں۔ مرزا غالب کی سراسیمگی ہر لمحہ بڑھتی جا رہی ہے۔) 
ن م ارشد:اب میں ہندوستان کے مشہور شاعر پروفیسر غیظ سے درخواست کروں گا کہ وہ اپنے تازہ افکار سے ہمیں نوازیں۔ 
پروفیسر غیظ:۔ میں نے تو کوئی نئی چیز نہیں لکھی۔ 
ہیراجی: تو پھر وہی نظم سنا دیجئے جو پچھلے دنوں ریڈیو والوں نے آپ سے لکھوائی تھی۔ 
پروفیسر غیظ: آپ کی مرضی، تو وہی سن لیجئے۔ عنوان ہے ’’لگائی۔‘‘(نظم کے دوران میں اکثر مصرعے دو دو بلکہ چار چار بار پڑھوائے جاتے ہیں اور پروفیسر غیظ بار بار مرزا غالب کی طرف داد طلب نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔ مرزا غالب مبہوت ہیں۔) 
م ن ارشد: حضرات میرے خیال میں یہ کوئی عشقیہ نظم نہیں ہے، بلکہ اس میں شاعر نے ملک کے اینٹی فاشسٹ جذبے کو خوب نبھایا ہے۔ 
رقیق احمد: (سرگوشی کے انداز میں ہیراجی سے) بکواس ہے۔ 
م ن ارشد: اب ہیراجی اپنا کلام پڑھیں گے۔ 
ہیراجی: میری نظم کا عنوان ہے ’’بینگن‘‘۔ 
غالب: بینگن؟ 
ہیراجی: بینگن۔ اگر آپ آم کی صفت میں قصیدہ لکھ سکتے ہیں تو کیا بندہ بینگن پر نظم لکھنے کا حقدار نہیں۔ 
غالب: معاف کیجئے گا، نظم پڑھئے۔ 
(ہرطرف سے داد دی جاتی ہے، بعض شعراء یہ کہتے ہوئے سنے جاتے ہیں: بھئی جدید شاعری ہیراجی کا ہی حصہ ہے۔) 
م ن ارشد: اب جناب بکرما جیت صاحب ورما سے استدعا کی جاتی ہے کہ اپنا کلام سنائیں۔ 
بکرما جیت ورما: میں نے حسب معمول کچھ گیت لکھے ہیں۔ 
غالب: (حیران ہو کر) شاعر اب گیت لکھ رہے ہیں۔ میرے اللہ دنیا کدھر جارہی ہے۔ 
بکرما جیت ورما: مرزا، آپ کے زمانے میں گیت شاعری کی ایک باقاعدہ صنف قرار نہیں دیئے گئے تھے، دور جدید کے شعراء نے انھیں ایک قابل عزت صنف کا درجہ دیا ہے۔ 
غالب: جی ہاں، ہمارے زمانے میں عورتیں، بھانڈ، میراثی یا اس قماش کے لوگ گیت لکھا کرتے تھے۔ 
بکرما جیت: پہلا گیت ہے’’برہن کا سندیس‘‘ ہے۔ 
م ن ارشد: بھئی کیا اچھوتا خیال ہے۔ پنڈت صاحب میرے خیال میں ایک گیت آپ نے کبوتر پر بھی لکھا تھا،وہ بھی مرزا کو سنا دیجئے۔ 
بکرما جیت:۔ سنئے پہلا بند ہے؎
بول کبوتر بول /دیکھ کوئلیا کوک رہی ہے 
من میں میرے ہوک اٹھی ہے 
کیا تجھ کو بھی بھوک لگی ہے /بول غٹرغوں بول کبوتر 
بول کبوتر بول 
باقی شعرا:۔ (یک زبان ہو کر) بول کبوتر۔ بول کبوتر۔ بول کبوتر۔ بول۔ 
اس اثنا میں مرزا غالب نہایت گھبرا ہٹ اور سراسیمگی کی حالت میں دروازے کی طرف دیکھتے ہیں۔اس شور و غل کی تاب نہ لا کر مرزا غالب بھاگ کر کمرے سے باہر نکل جاتے ہیں۔

نوٹ: طوالت کی وجہ سے انشائیہ کےبعض مشمولات کو حذف کیا گیا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK