Inquilab Logo

گلوبلائزیشن: لوگوں کا بدلتا رجحان، کاروبار اور اس میں وسعت کے بڑھتے امکانات

Updated: February 04, 2022, 3:58 PM IST | Shahebaz Khan | Mumbai

گلوبلائزیشن نے دنیا کےہر ملک کو جوڑ دیا ہے جس کا سب سے زیادہ فائدہ تاجروں کو ہوا ہے۔ ممالک کے درمیان رابطہ بڑھا ہے۔ اب ایک شخص کسی بھی ملک کا سفر کرسکتا ہے، وہاں کے لوگوں سے مل جل سکتا ہے، ان کی تہذیب و ثقافت کو سمجھ سکتا ہے، وہاں کاروبار شروع کرسکتا ہے، وہاں کی کمپنیوں کی بنائی ہوئی اشیاء کو استعمال کرسکتا ہے اور خدمات سے فائدہ اٹھا سکتا ہے، وغیرہ۔ یہ ہے گلوبلائزیشن کے واضح فوائد جن سے آج ہر شخص واقف ہے۔

Representation Purpose Only- Picture INN
علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این

گلوبلائزیشن نے دنیا کےہر ملک کو جوڑ دیا ہے جس کا سب سے زیادہ فائدہ تاجروں کو ہوا ہے۔ ممالک کے درمیان رابطہ بڑھا ہے۔ اب ایک شخص کسی بھی ملک کا سفر کرسکتا ہے، وہاں کے لوگوں سے مل جل سکتا ہے، ان کی تہذیب و ثقافت کو سمجھ سکتا ہے، وہاں کاروبار شروع کرسکتا ہے، وہاں کی کمپنیوں کی بنائی ہوئی اشیاء کو استعمال کرسکتا ہے اور خدمات سے فائدہ اٹھا سکتا ہے، وغیرہ۔ یہ ہے گلوبلائزیشن کے واضح فوائد جن سے آج ہر شخص واقف ہے۔ تاجروں کو سب سے زیادہ فائدہ اس طرح ہوا ہے کہ وہ اب اپنی مصنوعات دیگر ممالک میں بھیج سکتے ہیں ، اس طرح اب ان کے صارفین صرف ایک ملک تک محدود نہیں ہیں بلکہ ان کی تعداد اتنی بڑھ گئی ہے کہ شاید وہ ان کا شمار بھی نہ کرسکیں ۔ اس طرح ان کا کاروبار پھیل رہا ہے۔ دیگر ممالک میں اسے ملازمین مل رہے ہیں ، اور منافع میں اضافہ بھی ہورہا ہے۔ تاہم، اس بات سے انکار نہیں ہے کہ گلوبلائزیشن کے نقصانات بھی ہیں ، خاص طور پر چھوٹی اور متوسط درجے کی کمپنیوں اور صنعتوں کیلئے یہ بڑا خطرہ ہے۔ 
 اگرآپ سوشل میڈیا پر نظر ڈالیں تو احساس ہوگا کہ اب لوگ تیزی سے ایک دوسرے میں گھل مل رہے ہیں ، ایک دوسرے کی تہذیب و ثقافت کو اپنا رہے ہیں حتیٰ کے کھانے پینے کی اشیاء بھی اب کسی ایک ملک تک محدود نہیں ہیں ۔ اب ہمارے ہی ملک میں ایسے متعدد ریستوراں ، کیفے اور ہوٹل کھل گئے ہیں جہاں آپ کو مصری، ترکی، لبنانی، عربی، افغانی، چائنیز، جاپانی، میکسیکن، امریکی، مراکشی اور ایسے ہی کئی ممالک کے پکوان کھانے کیلئے مل جائیں گے۔دیگر ممالک کا بھی یہی حال ہے۔ درحقیقت، دیگر ملکوں کے پکوان اور مصنوعات ہمارے ہاں مہنگے داموں میں فروخت کی جاتی ہیں ۔ تاہم، ان ممالک میں ہمارے پکوان اور مصنوعات بھی مہنگی قیمتوں میں فروخت ہوتےہیں ۔
 ایک ملک کی اشیاء و خدمات کو دوسرے ملک میں پہنچانے کے ۲؍ آسان طریقے ہیں : پہلا یہ کہ تاجربراہ راست یا بالواسطہ طور پر اپنی اشیاء کسی ملک میں پہنچائے، اس صورت میں منافع میں اس کا فیصد زیادہ ہوگا۔ دوسرا یہ کہ ایک ملک کا کوئی شخص کسی دوسرے ملک میں جائے اور وہاں کی تہذیب و ثقافت، اشیاء وخدمات اور پکوانوں کا جائزہ لے اور پھر اپنے ملک میں اسے ایک کاروبار کی شکل میں شروع کرے۔ آج دونوں ہی طریقے عام ہیں ۔ اہم بات یہ ہے کہ لوگ ان چیزوں کو تیزی سے قبول رہے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ تاجروں اور کمپنیوں کی حوصلہ افزائی ہورہی ہے، اور وہ اپنے کاروبار میں توسیع کررہے ہیں ۔
 برصغیر کو ایک ایسا خطہ کہا جاتا ہے جہاں کی تہذیب و ثقافت کو شروع ہی سے ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ یہاں مختلف قسم کے لذیذ پکوان ہیں ، اور صحت کی دیگر عمومی اشیاء بھی ہیں ، جو نامیاتی ہیں ۔ مغربی دنیا نامیاتی یا کیمیکل فری چیزوں کی جانب پیش رفت کررہی ہے۔یہاں کی کمپنیاں بر صغیر کی چیزوں کے بارے میں جاننے کی کوشش کررہی ہیں ، اور انہیں اپنا کر، نئے نام دے کر، انہیں بھاری قیمتوں میں فروخت کررہی ہیں ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وہاں کے لوگ مہنگے داموں میں ان مصنوعات کو خرید بھی رہے ہیں ۔ ان میں سے چند مصنوعات یہ ہیں :(۱)چائے: مغربی دنیا چائے پر کافی کو ترجیح دیتی ہے۔ یہاں پر مختلف اقسام کی کافی ملتی ہیں ۔ تاہم، حال ہی میں نیویارک (امریکہ) کے کیفے اورینج کیٹ کافی نے ’چائے ٹی لاٹے‘ کے نام سے چائے فروخت کرنا شروع کی ہے جو اصل میں چائے ہی ہے لیکن اس کا نام بدل دیا گیا ہے۔ یہ مشروب مقامی لوگوں میں کافی مشہور ہے جبکہ دیگر شہروں سے آنے والے افراد بھی چائے ٹی لاٹے پینا پسند کرتے ہیں ۔ اس کے ایک بڑے کپ کی قیمت ۶؍ ڈالرز (تقریباً ۵۰۰؍ روپے) ہے۔(۲)بلون بریڈ: برصغیر کے گھروں میں روزانہ پکائی جانے والی روٹی یا نان کو امریکیوں نے ’بلون بریڈ‘ کا نام دیا ہے۔ امریکہ کے متعدد ہوٹل اور کیفے میں اسے بر صغیر کے شوربوں کے ساتھ پروسا جاتا ہے۔(۳) وِنٹر سیٹ (ہیٹ،ماسک، اسکارف): ہمارے ہاں اسے’منکی کیپ‘ کہا جاتا ہے۔ امریکیوں میں اون سے بنی ہوئی یہ ٹوپی تیزی سے مقبول ہورہی ہے۔ امریکی شاپنگ ویب سائٹ ’’شاپ ویلی‘‘ پر دستیاب یہ ٹوپی ۳۰؍ ڈالرز (تقریباً  ۲۳؍ سو روپے ) میں فروخت ہورہی ہے۔(۴)حنا ٹیٹو: ہمارے یہاں اسے مہندی کہا جاتا ہے۔ مغرب میں ٹیٹو بنوانے کا رواج برسوں سے ہے۔ تاہم، مہندی سے ٹیٹو بنانے کا آغاز چند برس پہلے ہوا ہے۔ یہاں مختلف رنگوں کی مہندی سے ٹیٹو بنائے جارہے ہیں ۔ انہیں بنوانے کیلئے ۲۰؍ سے ۲۰۰؍ ڈالرز (۱۵؍ سور روپے سے ۱۵؍ ہزار روپے ) تک قیمت ادا کرنی ہوتی ہے۔ چونکہ اب بیشتر افراد مستقل ٹیٹو نہیں بنوانا چاہتے ہیں اسلئے وہ باقاعدگی سے مہندی سے ٹیٹو بنواتے ہیں ۔(۵) مسواک: برصغیر میں دانتوں کو صاف کرنے کیلئے مسواک نہ جانے کتنی صدیوں سے استعمال کی جارہی ہے لیکن مغرب نے حال ہی میں اس کا استعمال شروع کیا ہے۔ امریکہ میں ایک مسواک ۱۰؍ ڈالرز (تقریباً ۷۵۰؍ روپے) جبکہ یورپ میں ۴؍ یورو (۳۵۰؍ روپے) میں فروخت ہورہی ہے۔ مسواک استعمال کرنے کے کئی طبی فوائد ہیں اس لئے مغربی دنیا کے شہری ٹوتھ برش کے بجائے اسے استعمال کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں ۔(۶) ٹرمرک لاٹے: اسے ہم ہلدی والا دودھ کہتے ہیں جو مختلف قسم کے فوائد حاصل کرنے کیلئے صدیوں سے پیا جارہا ہے۔ ہر ہندوستانی گھر میں اس کا استعمال ہوتا ہے۔ مغرب نے اسے ’ٹرمرک لاٹے‘ کا نام دیا ہے جو اَب کیفے اور ریستوراں میں بھی فروخت کیا جارہا ہے۔ امریکہ میں یہ مشروب تقریباً ۱۳؍ سو روپے (۱۷؍ ڈالرز) میں فروخت ہورہا ہے۔ بیشتر کیفے کے باہر اسے بطور اشتہار نصب کیا گیا ہے جس پر ٹرمرک لاٹے پینے کے بے شمار فوائد درج ہیں ۔
 ایسی متعددمصنوعات ہیں جنہیں مغرب الگ انداز میں اپنانے کی کوشش کررہا ہے مثلاً وڑا پاؤ، لنگی، آملہ اور اس سے بنی ہوئی مختلف چیزیں ، وغیرہ۔ اس بات کے امکانات قوی ہیں کہ آئندہ چند برسوں میں برصغیر میں فروخت ہونے والی کئی ایسی چیزیں تبدیل شدہ ناموں کے ساتھ مغربی دنیا کی شاپنگ ویب سائٹس، کیفے، ہوٹل، فیشن آؤٹ لیٹس وغیرہ پر نظر آئیں گی جو ۱۰۰؍ فیصد مقامی ہیں ۔ اگر ہندوستانی تاجر یا انٹرپرینیورز مغربی دنیا کے شہریوں کی پسند اور ناپسند کو سمجھ لیں تو وہ مغرب میں دیسی مصنوعات کو اپنی کریئیٹو سوچ اور بزنس پلان سے لانچ کرسکتے ہیں اور ایک کامیاب کاروبار کے مالک بن سکتے ہیں ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK