Inquilab Logo

الوداع وِنود دُوا

Updated: December 05, 2021, 7:43 AM IST | Mumbai

وِنود دُوا کے انتقال سے وطن عزیز کے عوام ایک بے خوف، باصلاحیت، کشادہ ذہن اور گنگا جمنی تہذیب پر عملی یقین رکھنے والے صحافی سے محروم ہوگئے ہیں۔

Vinod Dua
وِنود دُوا

وِنود دُوا کے انتقال سے وطن عزیز کے عوام ایک بے خوف، باصلاحیت، کشادہ ذہن اور گنگا جمنی تہذیب پر عملی یقین رکھنے والے صحافی سے محروم ہوگئے ہیں۔ اُن کی صحافتی زندگی کم و بیش چار دہائیوں پر محیط رہی۔ وہ ٹی وی کی دُنیا کے ابتدائی میزبانوں (اینکرس) میں سےایک بلکہ اولین میزبان تھے۔ اُس دور میں، جب خبریہ چینل عوام میں مقبول ہورہے تھے، تب جن معدودے چند میزبانوں نے خود کو متعارف کرایا، چینلوں کے ساتھ خود بھی مقبول ہوئے اور اپنی صلاحیتوں سے خبریہ چینلوں کی مقبولیت میں چار چاند لگائے، اُن میں ایک اہم نام وِنود دُوا کا تھا۔ وہ جتنے بڑے صحافی تھے، اُتنے ہی بڑے عاشق اُردو تھے، اسی لئے ٹی وی کے میزبانوں میں اُن کی علاحدہ شناخت تھی اور اسی لئے اُن کا انداز گفتگو بھی دلنشین تھا۔ ہر چند کہ ٹی وی پر وہ ہندی بولتے ہوئے دکھائی دیتے تھے مگر تھوڑی تھوڑی دیر میں اُردو الفاظ بھی بڑی سہولت سے لے آتے تھے۔ کبھی اُردو اشعار کے ذریعہ بھی اپنا مافی الضمیر ادا کرتے تھے۔ اُنہیں نہایت مہذب انداز میں میزبانی کے فرائض ادا کرتا دیکھ کر دل سے آواز آتی تھی کہ ’’وہ کہے اور سنا کرے کوئی۔‘‘ اُن کی میزبانی میں شگفتگی اور زبان کا رچاؤ تو تھا ہی، فکر و نظر کی وسعت بھی جلوہ گررہتی تھی۔
 یو ٹیوب پر موجود وِنود دُوا کے ویڈیو ’’تازہ واردان بساط صحافت‘‘ کیلئے مشعل راہ ہیں جن میں سب سے بڑا پیغام یہ ہے کہ چیخنے چلانے اور سنسنی پھیلانے سے کچھ نہیں ہوتا کیونکہ صحافی نہ تو مداری ہوتا ہے نہ شعبدہ باز۔ دیکھا یہ جاتا ہے کہ اُس کی باتوں میں کتنی دبازت ہے، کتنا دم ہے اور کتنی دلیلوں کےساتھ وہ اپنی بات کہتا ہے۔ ونود دُوا کو ماہر انتخابات بھی کہا جاتا ہے جبکہ اُن کے انکسار کا عالم یہ تھا کہ خود کو کبھی سیفالوجسٹ نہیں کہا۔ ایک انٹرویو میں اُن سے اِس حوالے سے سوال پوچھا گیا تو اُن کا جواب تھا کہ ’’میں ماہر انتخابات یا انتخابی تجزیہ کار نہیں ہوں، ٹی وی پر انگریزی تجزیہ کا آسان ہندی میں ترجمہ کردیا کرتا تھا۔‘‘ خبریہ چینلوں کے ابتدائی دور میں جب اوپنین پول اور ایگزٹ پول کا سلسلہ شروع ہوا تھا اور انتخابی نتائج کے لئے لوگ ٹی وی سیٹ کے سامنے گھنٹوں بیٹھے رہتے تھے، اُس دور میں سب سے زیادہ شہرت پانے والے تجزیہ کاروں میں انگریزی میں پرینا رائے اور ہندی میں ونود دُوا تھے، جو انگریزی پر بھی قدرت رکھتے تھے۔ 
 حالیہ برسوں میں ونود دُوا نے ’’جن گن من کی بات‘‘ کے ذریعہ سیاسی و سماجی مسائل کو جس خوبی کے ساتھ ناظرین کے سامنے رکھا، وہ اُنہی کا حصہ تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ ’’دی وائر‘‘ پر مختصر ویڈیوز کا یہ سلسلہ اُنہوں نے اِس لئے جاری کیا تھا کہ ٹی وی شوز کی پیشکش تقریباً معطل ہوگئی تھی اور اُن کے اندر کا صحافی ہنوز توانا تھا اور بہت کچھ کہنا اور سمجھانا چاہتا تھا۔ مذکورہ انٹرویو میں ونود دُوا نے بتایا تھا کہ اگر اُنہیں کسی ٹی وی شو کی پیشکش ہوئی بھی تو بات چیت مکمل ہونے سے پہلے ہی موقوف ہونے لگی تھی۔ اس کا کیا سبب رہا ہوگا اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے۔ خیر، انہوں نے جن گن من کی بات کا سلسلہ شروع کیا تو ہرچند کہ چاروں طرف ٹرولروں کی بھیڑ بڑھ چکی تھی مگر شاید یہ بھیڑ بھی ونود دُوا کو ادب سے سننے پر مجبور ہوئی۔ ابتداء میں گستاخانہ تاثرات کی بھرمار ہوتی تھی جو رفتہ رفتہ کم ہوتی چلی گئی۔ البتہ، ایک بڑی گستاخی اُس وقت ہوئی جب اُن کے خلاف  غداری کا مقدمہ درج کیا گیا۔ جون ۲۱ء میں سپریم کورٹ کے ذریعہ اس مقدمہ کا کالعدم قرار دیا جانا وِنود دُوا کی بڑی کامیابی تھی۔ وہ ٹرولروں اور بدخواہوں کو ہرا کر دُنیا سے رخصت ہوئے ہیں

vinod dua Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK