Inquilab Logo Happiest Places to Work

’’۵ روپے ماہانہ بس سے والد نے ہم دو بہنوں کی شادی کیلئے ۵۰۰؍ روپے جوڑے‘‘

Updated: June 29, 2025, 12:52 PM IST | Saadat Khan | Mumbai

مدنپورہ کی ۷۸؍سالہ ہاجرہ محمد اسحاق شیخ پانچویں جماعت تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹانے لگی تھیں۔ انہیں کھانا بنانے میں بڑی مہارت ہے، جس کی بہت تعریف ہوتی تھی، رشتہ داروں کیلئے ان کی پسند کے مطابق فرمائشی کھانے بنایاکرتی تھیں۔

Hajra Muhammad Ishaq Sheikh. Photo: INN.
ہاجرہ محمد اسحاق شیخ۔ تصویر: آئی این این۔

مدنپورہ، گھیلابائی اسٹریٹ، عیدوسیٹھ کی چال کی ۷۸؍سالہ ہاجرہ محمد اسحاق شیخ یکم جنوری ۱۹۴۶ء کو پیدا ہوئی تھیں۔ مورلینڈروڈ، الانا ہال کے سامنے واقع بی ایم سی اسکول میں پانچویں تک تعلیم حاصل کی۔ معاشی تنگ دستی اور اُس دورمیں لڑکیوں کو زیادہ پڑھانےکومعیوب سمجھے جانے کے رجحان کی وجہ سےپڑھائی کا شوق ہونےکےباوجود مزید پڑھائی نہیں کرسکیں۔ غربت کادورہونےسےمدنپورہ کےبیشترگھروں میں عورتیں چرخہ کات کرگھریلو اخراجات میں مالی تعاون کرتی تھیں۔ ہاجرہ شیخ کے والد غلام رسول مل میں ملازمت کرتےتھے۔ ان کے گھر میں بھی ۳؍ چرخہ تھا۔ ایک والدہ، دوسرابڑی بہن اور تیسرا چرخہ وہ خود چلاتی تھیں۔ کھانے پینے کےبعد بچنے والے فاضل وقت میں یہی ان کی مشغولیت تھی۔ ۱۴؍سال کی عمر میں والدنے شادی کرادی البتہ رخصتی ۳؍ سال بعد ہوئی۔ شادی کے ۸؍سال بعد پہلا بیٹا اور بعدازیں ۲؍بیٹے اور ایک بیٹی پیدا ہوئی۔ پوری زندگی امور خانہ داری انتہائی خوش اسلوبی سے نبھائی۔ فی الحال اپنے ایک بیٹے کے ہمراہ سائوٹر اسٹریٹ کےباغِ ربانی ٹاور میں رہائش پزیر ہیں ۔ چھوٹے موٹے گھریلو کاموں کے علاوہ نماز، تلاوت اور عبادت میں مصروف رہتی ہیں۔ 
ہاجرہ شیخ کےوالد ایک مل میں مزدوری کرتےتھے، اسلئے گھریلو اخراجات کےساتھ بیٹیوں کی شادی بیاہ کیلئے رقم جمع کرنےکی غرض سے اُس دورمیں ماہانہ ۵؍روپے کی بسی ڈالتےتھے۔ ۲۰؍ممبران پر مشتمل ۱۰۰؍ روپے کی بسی مہینےمیں ایک مرتبہ اُٹھائی جاتی تھی۔ انہوں نے ۲۰۔ ۲۰؍ مہینے کی ۵؍بسی ڈال کر۵۰۰؍ روپے جمع کیا تھا اور اسی رقم سے اپنی ۲؍ بیٹیوں کی شادی کی تھی۔ اس دورمیں ۵۰۰؍روپے کی رقم بھی بڑی سمجھی جاتی تھی۔ انجمن خیرالاسلام ہائی اسکول، مدنپور ہ میں ہاجرہ شیخ اور ان کی بڑی بہن کی ایک ساتھ شادی ہوئی تھی۔ کھانے پینے، کپڑے اور جہیز وغیرہ کا انتظام اسی ۵۰۰؍روپےمیں کیاگیاتھا، جبکہ کچھ قریبی رشتے داروں نے زیورات وغیرہ کا انتظام کیاتھا۔ عیدوسیٹھ کی چال میں ان بہنوں کا نکاح گھر پر ہواتھا۔ انہیں گھر سے انجمن خیرالاسلام اسکول لانےکیلئے گھوڑاگاڑی کابندوبست کیاگیاتھا۔ ہاجرہ شیخ کے بڑے ابا حسین بھٹیارہ نے ان کی شادی میں قورمہ چاول بنایاتھا، جس کی بہت تعریف کی گئی تھی۔ 
ہاجرہ شیخ بچپن میں بہت شریر اور کافی نڈرواقع تھیں۔ وہ کسی سے ڈرتی نہیں تھیں۔ محلے میں بھائیوں سے ہونےوالےلڑائی میں کود پڑتی تھیں۔ اس دورمیں ان کی بلڈنگ میں ۲؍مشترکہ نل تھے، جہاں بلڈنگ والے کپڑے اور برتن دھوتے اور مرد حضرات غسل وغیرہ بھی کرتے تھے۔ ایک مرتبہ ان کے بڑے بھائی غسل کرنےکیلئے نل پر گئے، وہاں ایک مولی فروش، ٹوکرےمیں مولیاں دھورہاتھا، انہوں نے اس سے کہا کہ آج جمعہ ہے مجھے نہاکر نماز پڑھنے جاناہے، میرے غسل کرنے کے بعد مولی دھولینا، جس پر اس نےکہاکہ وہ ٹوکرا نہیں ہٹائے گا۔ اس سے انہوں نے کچھ نہیں کہااور گھر آکر اپنی والدہ نے پورا ماجرا بیان کیا۔ ابھی والدہ سےپوری بات نہیں بتائی تھی، اس دوران ہاجرہ شیخ نل پر پہنچ کر مولی والے سے بحث کرنے لگیں اورکہاکہ میرے بھائی کو نماز پڑھنے جانا ہے، تم اپنامولی کا ٹوکر ا ہٹائو، جس پر مولی والے نے پھر وہی بات دہرائی اور کہاکہ ٹوکرانہیں ہٹائوں گا۔ اتنا کہناتھاکہ ہاجرہ شیخ نے اپنے دونوں ہاتھوں سے ٹوکرا اُٹھاکر دوسری جگہ پھینک کر بھائی سے کہا، چلو آپ نہائو، میں دیکھتی ہوں۔ مولی فروش ہاجرہ شیخ کو بس دیکھتے ہی رہ گیا۔ 
 یہ اُن دنوں کی بات ہے جب ممبئی جیسے شہر میں پانی کی شدید قلت ہوا کرتی تھی۔ اُن دنوں نلوں پر کپڑے اور برتن دھونے کیلئے خوب جھگڑے ہوتے تھے۔ ان دنوں کو سوچ کر اب ہنسی آتی ہے۔ ہاجرہ شیخ کی بلڈنگ میں بھی کبھی کبھار پانی نہیں آتاتھا تو وہ والدہ سے اجازت لے کر اپنی سہیلیوں مہراُلنسا، زینب اور حفیظہ وغیرہ کے ساتھ قریب کی عیسیٰ بلڈنگ کےنل پر برتن دھونےچلی جاتی تھیں، جس پر اُس بلڈنگ کے مکین اعتراض کرتے تھے اور چلاتے تھے۔ ہاجرہ شیخ پراُن کے چلانے کا کوئی اثر نہیں ہوتاتھا۔ وہ اپنا کام پورا کرکے ہی وہاں سے اُٹھتی تھیں۔ اسی طرح ان کی بڑی اماں غنی عطر کی چال( گھیلابائی اسٹریٹ) میں رہتی تھیں، ہاجرہ شیخ اور ان کی سہلیاں کبھی کبھار ان کیبلڈنگ میں بھی جاکر برتن دھوتی تھیں۔ وہاں کوئی اعتراض کرتاتو ان کی بڑی اماں کہتی تھیں کہ میرا گھر یہیں ہے اوریہ میری بھتیجیاں ہیں ، انہیں برتن دھونے سے کوئی روک نہیں سکتا۔ 
 ہاجرہ شیخ نے اپنے گھر میں کھانابنانا نہیں سیکھا تھا۔ شادی کےبعد سسرال آنےپر اس کمی کا شدت سے احساس ہوا۔ ان کی ساس بہت اچھاکھاناپکاتی تھیں۔ انہوں نے ہی انہیں کھانابنانا سکھایا۔ ان کے بڑے ابا کے ۲؍بیٹے شکوراور غفور مدنپورہ کےاُس دور کےمعروف باورچی تھے۔ بعد میں ہاجرہ نےان سے بھی کھانا پکانے کی تربیت حاصل کی۔ پھر تو ایسا لذیذپکوان بنانےلگیں کہ ان کے معلم خاوند کے اسکول سے ان کے بنائےپکوان کی فرمائش آنے لگی اور ایک وقت ایسا بھی آیا جب انہیں اسکول جاکر کھانا پکانے کی خدمت انجام دینی پڑی۔ ویسےتو وہ سبھی پکوان انتہائی لذیذ اور ذائقہ دار بناتی ہیں لیکن دودھیا دال گوشت، قورمہ، نرگسی کوفتہ، مٹھیاکوفتہ، دوپیازہ اور پیاز کی سبزی کاجواب نہیں ۔ وہ اپنے رشتہ داروں کیلئے ان کی پسند کے مطابق فرمائشی کھانا بنایا کرتی تھیں۔ 
بچپن سے کام کرنےکی عادت ہونے سے شادی کےبعد سسرال میں بھی ان کے کام کرنےکاسلسلہ جاری رہا۔ یہاں چرخے کاتنے کے بجائے پتنگ کےکاغذ پر پتنگ کامربع ڈیزائن کرنے کا کام برسوں تک کیا۔ ایک چوکھٹا لکڑے کےٹکڑے کو فریم بناکر، پتنگ کےکاغذکے رول پر دن بھر چوکڑی بناتی تھیں ۔ ایک ہزار چوکڑی بنانے پرانہیں ۴؍روپے مزدوری ملتی تھی۔ اس چوکڑی کی مناسبت سے کاغذ کاٹ کر پتنگ بنائی جاتی تھی۔ دن بھر میں ۲؍ہزار چوکڑی بناکر وہ ۸؍روپے یومیہ کمالیتی تھیں۔ معاشی سرگرمیوں کے علاوہ سماجی کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ خوش مزاج اور خوش اخلاق ہونے سے ان کےمراسم بالخصوص خواتین سے بہت اچھے رہے۔ اسی بنا پر ازدواجی رشتوں کو جوڑنےکابھی کام کیا۔ ان کے پاس جو لوگ اپنے لڑکے لڑکی کی شادی کروانےکی خواہش ظاہر کرتے، ان کے رشتے لگانےکی پوری کوشش کرتی تھیں۔ ان کے ذریعے لگائے گئے متعدد رشتے کامیابی کے ساتھ جاری ہیں۔ یہ خدمت مفت فراہم کی۔  
تقریباً ۲۵؍سال قبل اپنے خاوند کےساتھ وہ حج بیت اللہ پر گئی تھیں۔ س موقع پر اُن کے ساتھ ایک بڑا حادثہ پیش آیا۔ صفا ومروہ کا گشت لگانےکے دوران پہلے ہی چکر میں اچانک ان کا ایک پیر مفلوج ہو گیا۔ ان کی یہ حالت دیکھ کر ان کے شوہر بہت پریشان ہوئے لیکن ہاجرہ شیخ نے عزم کرلیا تھا کہ وہ سعی مکمل کرکے ہی وہاں سے جا ئیں گی۔ ایسے میں ایک فرشتہ صفت بندہ نے ان کی کافی مدد کی۔ اس نے ان کیلئے ایک وہیل چیئر کا انتظام کیااور خود ہی وہیل چیئر پر بٹھا کر ان کیلئے سعی کاعمل پورا کیا۔ 
ہاجرہ شیخ کے نانا، جو سکھلاجی اسٹریٹ(کماٹی پورہ) پر رہائش پزیر تھے، ان کاشمار، اُس وقت کے امیر لوگوں میں ہوتاتھا۔ ان کے پاس سونے چاندی کے ساتھ بڑی مقدار میں ہیرے جواہرات بھی تھے۔ ہاجرہ شیخ کی نانی کیلئے انہوں نے کافی سونےکےزیورات بنائے تھے جن میں سے کچھ زیور تو کافی قیمتی تھے۔ ان کے گھر کی الماری میں سونے کی متعدد اینٹوں کو ہاجرہ شیخ نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کیونکہ ان کی زندگی کاایک بڑا حصہ ان کے نانا کے ہاں گزرا لیکن ہاجرہ شیخ نے کبھی ان سے کوئی مدد نہیں مانگی بلکہ اپنے حال پرقناعت کیا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK