Inquilab Logo Happiest Places to Work

’’جہیز میں سائیکل اور ٹائٹن کی گھڑی ملی تو مہینوں تک گاؤں میں یہی چرچا رہا‘‘

Updated: July 20, 2025, 1:07 PM IST | Saadat Khan | Mumbai

ممبرا ، امرت نگر کے فضل الرحمان خان کی پیدائش یکم جنوری ۱۹۴۸ء کو اُترپردیش کے ضلع جونپور کے بھرکوڑہا گائوں میں ہوئی تھی، اس عمرمیں بھی صحت مند اور پوری طرح سے فعال ہیں اور بیٹے کی الیکٹر ک کے سامان کی دکان پر پابندی سےڈیوٹی دیتےہیں ۔

Fazlur Rehman Khan. Photo: INN.
فضل الرحمان خان۔ تصویر: آئی این این۔

ممبرا، امرت نگر میں رہنے والے فضل الرحمان خان کی پیدائش یکم جنوری ۱۹۴۸ء کو اُترپردیش کے ضلع جونپورمیں ہوئی تھی۔ بچپن ہی میں والدین کاسایہ اُٹھ جانے سے وہ زیادہ پڑھائی نہیں کرسکے۔ بڑی بہن اور بہنوئی کی سرپرستی میں ان کی پرورش ہوئی۔ چھوٹی عمر ہی سے انہوں نے گھر کے علاوہ کھیتی باری کے کاموں کی ذمہ داری بھی نبھائی۔ گائےاور بھینس کو کھیت میں لے جاکر چَرانےکا کام بھی کیا۔ کھیتی باری کے ساتھ گائوں میں آٹاپیسنےکی مشین چلائی۔ گائوں کی زندگی اور کاموں میں تبدیلی لانے کیلئے ۱۹۶۰ء کی ابتدائی دہائی میں جونپور سے بھیونڈی آئے۔ یہاں ہینڈ لوم میں ملازمت کی۔ دل گھبرانے پر دوبارہ گائوں چلے گئے۔ ایک ڈیڑھ سال بعد دوبارہ بھیونڈی آئے پھر پاور لوم کا کام کیا، بعدازیں ۷۰ء کی دہائی میں پہلی مرتبہ بھیونڈی سے ممبئی آئے اور پھر ایک لوہار کے ہاں کام کرنا شروع کیا۔ لوہار کے کام سے دل بھرجانےپر وکھرولی میں پھل فروشی کا کاروبار شروع کیا۔ اس کےبعدکسی شناساکے توسط سے ۶؍سال سعودی عرب میں گزارا، وہاں سے واپس آنے پر ممبرا میں سکونت اختیا رکی۔ جہاں آج بھی مستقل طورپر رہائش پزیر ہیں ۔ بیٹے کی الیکٹر ک کے سامان کی دکان پراس عمر میں بھی پابندی کےساتھ ڈیوٹی دیتےہیں۔ عمررسیدہ ہونے کےباوجود صحت مند اور پوری طرح سے فعال ہیں۔ 
فضل الرحمان جونپور سے پہلی مرتبہ جب بھیونڈی آئے تھے، اس کے کچھ دنوں بعد چین سے ہندوستان کی جنگ چھڑ گئی تھی۔ ایسےمیں پورے شہر میں بلیک آئوٹ کردیاگیاتھا۔ گھروں، کارخانوں اور دفاتر میں لائٹ جلانےکی اجازت نہیں تھی۔ گھر کے اندر لوگ ایک چھوٹا بلب جلاکر کام چلارہےتھے۔ ریڈیوبجانے پر بھی پابندی عائد تھی۔ ایسےمیں جن لوگو ں کے پاس ریڈیو تھا، وہ گھنے جنگلات میں ، جھاڑیوں میں چھپ کر نہایت دھیمی آواز سے جنگ کی خبریں سنا کرتے تھے۔ خبریں سن کر وہ اپنے آس پاس کے لوگوں کو بتاتےتھے۔ موٹرگاڑیوں کی آمدروفت پر پابندی تھی۔ اس کے باوجود جولوگ موٹر گاڑی لے کر نکلتے تھے، وہ اپنی موٹر گاڑیوں پر کیچڑ پھیلاکر، کیچڑ میں گھاس پھوس لگادیتے تھے تاکہ موٹر گاڑی دور سے دکھائی نہ دے اور اُوپر سےاگر کسی کی نگاہ موٹرگاڑی پر جائے تو زمین کا حصہمعلوم ہو۔ اُن دنوں افواہوں کا بازار بہت تیزی کے ساتھ گرم تھا۔ روزانہ مختلف علاقوں میں بم گرائے جانے کی اطلاع موصول ہوتی تھیں، جس کی وجہ سے ڈروخوف میں اضافہ ہوتا تھا۔ 
ان کےبچپن میں گائوں میں غریبی اورمفلسی کا دور دورہ تھا۔ لوگوں کےپاس کھیتی باری کیلئےدرکار معمولی سامان اوراوزار بھی نہیں ہوتے تھے۔ ایک دوسرے کاسامان طلب کرکے لوگ کھیتی باری کیا کرتے تھے۔ اس دور میں کم ہی گھروں میں کھیتی کیلئے بیل یا پاڑے ہواکرتے تھے۔ مجبوراً ان جانوروں کا کام انسانوں کو خود کرنا پڑتاتھا۔ کھیتوں کی جوتائی بیلوں اور پاڑوں کے بجائے انسان ہی کرتا تھا۔ پانی کا معقول انتظام نہ ہونے سے لوگ کنویں اور تالاب سے پانی نکال کر کھیتوں میں اناج کی بوائی اور سینچائی کرتے تھے۔ کھیتی کیلئے مطلوبہ وسائل کی کمی سے لوگ بہت پریشان رہتے تھے لیکن اچھی بات یہ تھی کہ اُس نازک دور میں ایک دوسرے کی مدد کیلئے لوگ کھڑے ہو جاتے تھے۔ گائوں کے لوگ مرحلہ وارایک دوسرے کے کھیت کی بوائی کا کام کرتے تھے۔ 
فضل الرحمان جب چھوٹے تھے، اس زمانےمیں گائوں کے کچھ ہی گھروں میں سائیکل ہوا کرتی تھی۔ جن کے پاس سائیکل ہوتی تھی، ان کا ایک الگ ہی رتبہ ہوتا تھا۔ گائوں کے لوگ سائیکل پر جانےوالوں کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتے تھے۔ ان کے گائوں میں ایک قطب علی نامی صاحب تھے۔ وہ اس دور میں سنگاپور میں ملازمت کرتےتھے۔ انہوں نے سنگاپور سے ایک سائیکل لائی تھی۔ ان کی سائیکل کا گائوں بھر میں چرچا تھا۔ دور دراز کےعلاقوں سے لوگ ان کی سائیکل دیکھنے آتے تھے۔ وہ اپنی سائیکل کو بڑی حفاظت سے رکھتے تھے۔ سائیکل کی صفائی کرکے اسے کپڑے سے ڈھانک کر رکھتے تھے تاکہ دھول مٹی سے محفوظ رہے۔ جب سائیکل سے کہیں جاناہوتاتو گائوں کی پگڈنڈی تک سائیکل کو شانوں پر اُٹھاکر لے جاتے، سڑک آنےپرکاندھے سے سائیکل اُتار کر اس پر سوار ہوتےتھے۔ گائوں کے اُوبڑ کھابڑ راستے پر سائیکل نہیں چلاتے تھے تاکہ سائیکل خراب نہ ہو اور دھول مٹی سے گندی نہ ہو، اسی طرح سائیکل کےٹیوب کو پنکچر ہونے سے بچانے کیلئے بھی کافی جتن کرتے تھے۔ اس دور میں امیروں میں سائیکل کابڑا کریز تھا۔ فضل الرحمان کو ان کی شادی میں جہیز کے طور پر سائیکل اور ٹائٹن گھڑی ملی تھی۔ اس کا چرچا پورے گائوں میں تھا اور کئی دنوں تک لوگوں میں وہ بات موضوع بحث رہی تھی۔ ان کا پورا گھر سائیکل اور گھڑی ملنے پر بہت خوش تھا۔ 
چیچک کی وباء کو فضل الرحمان نے بہت قریب سے دیکھا ہے۔ کسی گاؤں میں چیچک کی وبا پھیلتی تو اس گاؤں کے لوگ دوسرے گاؤں میں جانے سے احتیاط کرتے تھے۔ اسی طرح دوسرے گاؤں کے لوگوں کو اپنے گاؤں میں بھی آنے سے منع کرتے تھے کہ وہ اس سے متاثر نہ ہوں۔ اس دور میں چیچک کا کوئی ایلوپیتھی علاج نہیں تھا۔ دیسی دوائوں سے متاثرین کاعلاج کیا جاتا تھا۔ لوگ ایک دوسرےکی مدد تو کرتے تھےلیکن دوسروں کےگھروں پر جانے سے احتیاط کرتے تھے۔ ہندو مسلم سب مل کر ایک دوسرے کی مدد کرتےتھے اور اس بات کا ہر ممکن خیال رکھتے تھے کہ ان کی وجہ سے کسی مریض کو کوئی تکلیف نہ پہنچے۔ 
فضل الرحمان کے بچپن میں گائوں میں سواری کا بھی سنگین مسئلہ تھا۔ عوام کے استعمال کیلئے موٹر گاڑیاں نہیں ہوتی تھیں۔ دلہن اور پردہ دار خواتین کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانےکیلئے ڈولی کا استعمال کیا جاتا تھا۔ ایک چارپائی کے ۴؍پائے پر لکڑی باندھ کر ان لکڑیوں سے پردہ باندھاجاتا تھا۔ اگر دور کا سفر ہوتا تو اس ڈولی کو۴؍کہار ( ڈولی لے جانے والے ) اور اگر قریب جانا ہوتاتو ۲؍کہار کی مدد سے خواتین کو ان کی منزل پر پہنچایاجاتا تھا۔ مردحضرات کیلئے یکہ اوربیل گاڑی کی سواری موجود تھی۔ سواری کا محدود انتظام ہونے سے بیشتر لوگ دور دراز کا سفر بھی پیدل ہی طے کرتےتھے۔ فضل الرحمان خان خود اپنے گائوں سے جونپور تک ۴۰؍ کلومیٹر کا سفر اکثر پیدل ہی طے کرتےتھے۔ فجر کی نماز کےبعد کھانا ایک کپڑے میں باندھ کر روانہ ہوتے اور دوپہر تک کام مکمل کرکے وہاں سے روانہ ہوتے اور شام تک اپنے گھر پہنچ جاتے تھے۔ اس دوران جہاں بھوک پیاس لگتی، ساتھ لایا کھانا کھاکراپنی بھوک مٹا لیاکرتےتھے۔ 
جن دنوں وہ بھیونڈی میں تھے، انہیں دنوں کی بات ہے، ایک مرتبہ سابق وزیر اعظم بھیونڈی آنےوالی تھیں۔ انہیں دیکھنے کیلئے ان کے بہت سارے مداح گرائونڈ کی چہاردیواری سے لگے درختوں پر چڑھ گئے تھے تاکہ جس وقت وہ ہیلی کاپٹر سے اُتریں، ان کا خیرمقدم کیا جا سکے۔ فضل الرحمان بھی ایک درخت پرچڑھے ہوئے تھے۔ جیسے ہی اندرا گاندھی کا ہیلی کاپٹر گرائونڈ پر اُترنے کیلئے نیچے آیا، اس کے دبائو اور ہوا سےدرخت کی شاخیں ہلنے لگیں۔ اس کی وجہ سے درخت پر سوار لوگوں کو مزہ بھی آیا اور خوف زدہ بھی ہوئے۔ ہیلی کاپٹر کے زمین پر اُتر جانے کے بعد’آندھی‘ کا زور کم ہوا اور اس کی شاخیں اپنی معمول پر آئیں۔ اس موقع پر انہوں نےبہت قریب سے اندراگاندھی کو دیکھا تھا۔ 
ایک مرتبہ ان کے گائوں میں زبردست سیلاب آیا تھا۔ اس دور میں متاثرین کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنےکیلئے حکومت نے کوئی انتظام نہیں کیا تھا۔ ایسے میں گاؤں والوں نے لوگوں کو محفوظ مقام تک پہنچانے کیلئے اپنے طور پر انتظام کیا تھا۔ اُس وقت گاؤں کے رضاکار متاثرین کو ایک بڑی کڑھائی، جس میں گڑپکایا جاتا تھا، بٹھا کر ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچا رہے تھے۔ فضل الرحمان کو یہ واقعات آج بھی یاد ہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK