Inquilab Logo

حکومت ِکرناٹک اور بدعنوانی

Updated: April 14, 2022, 10:15 AM IST | Agency | Mumbai

کیا حجاب، مسلم دکانداروں کا بائیکاٹ اور آموں کا تھوک کاروبار کرنے والے مسلم بیوپاریوں کا ناطقہ بند کرنے کی کوشش کا سبب وہی ہے جو سمجھ میں آرہا ہے یا اس کے علاوہ بھی کچھ ہے۔

Basavaraj Bommai. Picture:INN
بسواراج بومائی۔ تصویر: آئی این این

کیا حجاب، مسلم دکانداروں کا بائیکاٹ اور آموں کا تھوک کاروبار کرنے والے مسلم بیوپاریوں کا ناطقہ بند کرنے کی کوشش کا سبب وہی ہے جو سمجھ میں آرہا ہے یا اس کے علاوہ بھی کچھ ہے۔ جو سمجھ میں آرہا ہے وہ یہ ہے کہ تنازعات پیدا کرنے کا مقصد عوام کی توجہ مہنگائی اور بے روزگاری جیسے سلگتے مسائل کی جانب سے ہٹانا ہے جو الیکشن قریب آنے کی وجہ سے بہت ’’ضروری‘‘ ہوگیا ہے۔  اب تک ہم یہی سمجھ رہے تھے۔ مگر اب دوسری وجہ کا بھی احساس ہورہا ہے۔ وہ ہے کرپشن۔ پیر کی شام کے ایک واقعہ نے کرناٹک کے ماحول کو بالکل بدل دیا ہے۔ کرپشن اُس وقت موضوع ِبحث بنا جب ریاست کے ایک ٹھیکیدار نے خود کشی کرلی جو اتفاق سے یُوا واہنی کا سرگرم رکن اور عہدیدار تھا۔ خودکشی سے پہلے سنتوش پاٹل (ٹھیکیدار کا نام) نے صحافیوں اور دوستوں کو وہاٹس ایپ پر ایک پیغام روانہ کیا اور کرناٹک کے دیہی ترقیات اور پنچایتی راج کے وزیر ایشورپا کو اپنی موت کا واحد ذمہ دار قرار دیا ۔ بتایا جاتا ہے کہ متوفی سنتوش پاٹل شدید ذہنی پریشانی کا شکار تھے کیونکہ اُن سے بطور کمیشن ۴۰؍ فیصد رقم کا مطالبہ کیا جارہا تھا۔ 
 اس الزام کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ کچھ نہ کچھ حقیقت تو اس میں ہے کیونکہ اس کا پس منظر بھی ہے۔ اس سے قبل کرناٹک اسٹیٹ کانٹراکٹرس‌اسوسی ایشن نے ریاست کی بی جے پی حکومت، اراکین پارلیمان و اسمبلی اور ریاستی افسران کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے کہا تھا کہ یہ لوگ ۴۰ فیصد کمیشن مانگ کر ٹھیکیداروں کی زندگی اجیرن کئے ہوئے ہیں۔ اسوسی ایشن کے ذمہ داروں نے‌جولائی ۲۰۲۱ ء میں وزیر اعظم کو بھی ایک مکتوب روانہ کیا تھا جس میں ۴۰ ؍ فیصد کمیشن طلب کئے جانے کے شکایت کی گئی تھی۔ تو کیا ریاستی حکومت اور اس سے وابستہ افراد بدعنوانی کے ان واقعات پر سے پردہ اُٹھنے کے سبب بوکھلائے ہوئے ہیں اور اسی لئے کرناٹک میں غیر ضروری اور بے بنیاد تنازعات اُٹھائے جارہے ہیں؟  یاد رہے، یہ پہلا موقع نہیں ہے جب کرناٹک کی ریاستی حکومت پر بدعنوانی کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ اس سے قبل الزام یہ تھا کہ بومئی حکومت، کروڑوں کے ’’بٹ کوائن‘‘ گھپلے پر پردہ ڈالنے کی کوشش کررہی ہے تاکہ متعلقہ لوگوں کو بچانے کی قیمت وصول کرسکے اور جن لوگوں کو رقمیں ملی ہیں ان کے نام منظر عام پر نہ آنے‌ پائیں۔ یہ الزام ریاستی کانگریس کے لیڈر، رکن اسمبلی اور سابق آئی ٹی منسٹر پریانک کھڑگے نے لگایا تھا۔ بومئی نے اس کے‌جواب میں کہا تھا کہ انہوں نے بٹ کوائن کے موضوع پر وزیر اعظم سے گفتگو کی ہے جن کا کہنا تھا کہ اس تنازع کو زیادہ اہمیت دینے کی ضرورت نہیں ہے۔   سنتوش پاٹل کی افسوسناک خود کشی اس لئے زیادہ افسوسناک ہے کہ اُنہیں مبینہ طور پر حکومت کے اہم وزیر کی بدعنوانی کے سبب جان دینی پڑی جبکہ وہ صرف ٹھیکیدار نہیں تھے۔ وہ سنگھ پریوار کے سرگرم کارکن بھی تھے۔ حکمراں جماعت کا ہمیشہ یہ دعویٰ رہتا ہے کہ اس نے کرپشن کو ختم کردیا ہے اور صاف ستھری حکومت جاری رکھی ہے مگر یہ واقعہ اس دعوے کی قلعی کھولنے کیلئے کافی ہے۔ اپوزیشن، ایشورپا کے استعفے کا مطالبہ کررہا ہے مگر دورِ حاضر میں وہ کون سا وزیر ہے جو اخلاقی سمجھ کر، طلب کئے جانے سے پہلے یا طلب کئے جانے کے بعد استعفیٰ دے دے؟ یہ روایت تو اگلے لوگوں کے ساتھ ہی رُخصت ہوگئی ہے۔ اب یہ پارٹی ہائی کمان اور وزیر اعلیٰ بومئی کی ذمہ داری ہے کہ اُنہیں کابینہ سے برطرف کریں ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK