Inquilab Logo

گجرات، کانگریس اور احتیاط

Updated: November 23, 2022, 1:57 PM IST | Mumbai

سابقہ الیکشن میں بھی ایک لفظ، جسے ہم دُہرانا نہیں چاہتے، وزیر اعظم مودی کیلئے نئی انتخابی طاقت لے کر آیا تھا۔

Congress.Picture:INN
کانگریس۔ تصویر :آئی این این

سابقہ الیکشن میں بھی ایک لفظ، جسے ہم دُہرانا نہیں چاہتے، وزیر اعظم مودی کیلئے نئی انتخابی طاقت لے کر آیا تھا۔ اِس الیکشن میں بھی ایک لفظ، جو کانگریس پارٹی کے نیشنل جنرل سکریٹری مدھوسودن مستری کی زبان سے برآمد ہوا، موضوع بحث بنا۔ انتخابی فضا پر اثرانداز ہونے کے ہزار گُر جاننے والے وزیر اعظم مودی کو جب ایسے الفاظ مل جاتے ہیں تو وہ خود کو مظلوم باور کرانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھتے۔ اس کی وجہ سے عوامی مسائل پر مبنی تمام انتخابی موضوعات بالائے طاق رہ جاتے ہیں اور ’’گجراتی اسمِتا‘‘ کا سوال اہم ترین ہوجاتا ہے۔ گجرات کی حالیہ ریلیوں میں وزیر اعظم مودی نے مدھو سودن مستری کی زبان سے نکلے ہوئے لفظ کو اِس طرح لپک لیا جس طرح کرکٹ کے کھیل میں ایک ماہر فیلڈر فضا میں اُچھلنے والی کسی گیند کو دبوچ کر بلے باز کو آؤٹ کردیتا ہے۔ وزیر اعظم مودی نے اس لفظ کو بنیاد بناکر ایک نیا بیانیہ تیار کیا اور ایک بار پھر ریلی کے سامعین اور گجرات کے رائے دہندگان کو یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ مظلوم ہیں اور دیگر پارٹیوں کے لوگ اُنہیں نیچا دکھانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ 
 مگر، جہاں تک ہم دیکھ رہے ہیں اس بار اُنہیں ویسی کامیابی نہیں مل رہی ہے جیسی سابقہ انتخابات سے قبل استعمال کئے گئے بعض الفاظ سے ملی تھی۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ لفظ گاندھی نہرو خاندان کے کسی فرد کی زبان سے برآمد نہیں ہوا بلکہ مدھو سودن مستری کی زبان سے نکلا ہے جو خود بھی گجراتی ہیں۔ وہ ۱۳؍ ویں اور ۱۴؍ ویں لوک سبھا کیلئے گجرات کے حلقہ سابر کنٹھا سے کانگریس کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے تھے۔ ۲۰۱۴ء میں کانگریس نے اُنہیں گجرات کی نمائندگی کیلئے راجیہ سبھا کا رُکن نامزد کیا تھا۔ وزیر اعظم نے ریلی میں تو مدھوسودن مستری کے کہے ہوئے لفظ سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش کی مگر اِس کا اُتنا اثر دکھائی نہیں دے رہا ہے جتنا کہ سابقہ انتخاب میں کسی دوسرے لفظ کا دیکھا گیا تھا۔ اس کی وجہ ہم اوپر بیان کرچکے ہیں۔ اِس دوران کانگریس نے کمال احتیاط سے کام لیا اور اسے تنازع بننے نہیں دیا۔ اگر کانگریس جواب دیتی اور انتخابی درجۂ حرارت بڑھتا تو فائدہ اُٹھانے کی کوشش کے کامیاب ہونے کا امکان پیدا ہوتا۔ میڈیا نے بھی اس سے کھیلنے کی بہتیری کوششیں کیں مگر ناکام رہا اور اب شاید ہی اسے طول دیا جاسکے۔  یہی ایک واقعہ نہیں جو کانگریس کے کمال ِ احتیاط کا مظہر ہو۔ بھارت جوڑو یاترا سے کچھ وقت نکال کر گجرات پہنچنے اور ایک دن میں دو ریلیاں کرنےو الے راہل گاندھی نے بھی اپنی تقریروں میں بی جے پی کو ’’کچھ لے اُڑنے کا‘‘ موقع نہیں دیا جبکہ سنا جارہا تھا کہ گجرات میں راہل کے خطاب کے جتنے خواہشمند ریاستی کانگریسی عہدیداران تھے، اُتنے ہی بے چین بی جے پی کے وابستگان اور میڈیا کے لوگ تھے۔ اُنہیں اُمید تھی کہ راہل کی تقریر سے کچھ نہ کچھ ایسا نکل آئیگا جس سے انتخابی فائدہ ملے گا مگر راہل نے حددرجہ احتیاط برتی اور مخالفین کو کوئی موقع نہیں دیا۔  کانگریس کی احتیاط اِس امر سے بھی ظاہر ہے کہ اس نے اتنے اہم الیکشن کیلئے شور شرابے اور بڑی ریلیوں سے گریز کیا اور عوام کے ساتھ رابطے اور مکالمے میں مصروف رہی۔ اس کی خاموشی اس حد تک گونج رہی تھی کہ لوگ باگ یہ کہنے لگے تھے کہ کانگریس نے لڑائی سے پہلے ہتھیار ڈال دیئے ہیں مگر اَب یہ تاثر ختم ہوگیا ہے۔ گجرات میں کانگریس ہے اور پوری قوت سےمیدان میں ڈٹی ہوئی ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK