Inquilab Logo

ہریانہ، راجستھان اور بے روزگاری

Updated: September 23, 2021, 2:23 AM IST | Mumbai

سینٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکنامی (سی ایم آئی ای) کا کہنا ہے کہ اگست میں جولائی کے مقابلے میں بے روزگاری کی شرح مزید مستحکم ہوئی

The Center for Monitoring Indian Economy (CMIE) says the unemployment rate was more stable in August than in July.Picture:INN
سینٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکنامی (سی ایم آئی ای) کا کہنا ہے کہ اگست میں جولائی کے مقابلے میں بے روزگاری کی شرح مزید مستحکم ہوئی تصویرآئی این این

سینٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکنامی (سی ایم آئی ای) کا کہنا ہے کہ اگست میں جولائی کے مقابلے میں بے روزگاری کی شرح مزید مستحکم ہوئی۔ شہری علاقوں میں یہ شرح جولائی کے ۶ء۹۵؍ فیصد کے مقابلے ۸ء۳۲؍ فیصد ہوگئی جبکہ دیہی علاقوں میں جولائی کے ۶ء۳۴؍ کے مقابلے اگست میں ۷ء۶۴؍ فیصد ہوگئی۔
 یہ پورے ملک کے اعدادوشمار ہیں۔ ریاستی سطح پر دیکھا جائے تو سب سے زیادہ تشویش اُس ریاست کی جانب سے لاحق ہے جسے تجارتی، کاروباری اور معاشی اعتبار سے کئی دیگر ریاستوں پر فوقیت حاصل ہے مگر بے روزگاری کے معاملے میں یہ سرفہرست آگئی ہے۔ جی ہاں، یہ ہریانہ ہے جہاں ۳۵ء۷؍ فیصد کی شرح بے روزگاری پر حکمراں جماعت بی جے پی کو بہت سنجیدگی سے غوروخوض کرنا چاہئے۔ یہ وہ ریاست ہے جس کا اہم شہر گروگرام ملک کے بڑے آئی ٹی مراکز میں سے ایک ہے جبکہ آئی ٹی ہی کے شعبے میں برآمدات سے ہونے والی آمدنی بھی اسے معاشی طور پر مستحکم کرتی ہے۔ چنڈی گڑھ اور ممبئی کے بعد سب سے زیادہ آمدنی (Largest Capital Income) کے اس شہر کو ملینئم سٹی بھی کہا جاتا ہے۔ اس کے باوجود ایسی حالت کھٹر حکومت کیلئے بڑا چیلنج ہے۔
 ہریانہ کو اُن بڑی کمپنیوں کی وجہ سے بھی فوقیت حاصل ہے جو چھوٹی کمپنیوں کے مقابلے میں روزگار کے زیادہ مواقع فراہم کرتی ہیں مثلاً ماروتی اُدیوگ، ایسکارٹس گروپ، وہرل پول انڈیا، بھارتی ٹیلی کوم اور دیگر۔ زراعت میں بھی ہریانہ کی اپنی شناخت ہے۔ ملک کے مجموعی رقبے میں ہریانہ کا حصہ صرف ۱ء۵؍ فیصد ہے مگر مجموعی زرعی پیداوار کا ۱۵؍ فیصد اسی ریاست کا مرہون منت ہوتا ہے۔ اس اعتبار سے ہریانہ کو کسانوں کے مطالبات اور مفادات کے ساتھ ہونا چاہئے تھا مگر دُنیا دیکھ رہی ہے کہ یہاں کی حکومت کسانوں پر کبھی تو لاٹھیاں برساتی ہے اور کبھی اُنہیں لعن طعن کا ہدف بناتی ہے۔ اگر حکومت نے زرعی شعبے میں روزگار کے امکانات میں اپنی جانب سے توسیع کے اقدام کئے ہوتے تو یقینی طور پر بے روزگاری کی شرح اتنی نہ بڑھتی جتنی کہ اس وقت ہے اور جس کے سبب ریاست پورے ملک میں اول نمبر پر ہے۔
 ۲۶ء۷؍ فیصد بے روزگاری کی شرح کے ساتھ دوسرے نمبر پر راجستھان ہے۔ معاشی سرگرمیوں کے اعتبار سے یہ ایک متنوع ریاست ہے جو سیاحت کے علاوہ کان کنی اور زراعت کے نقطۂ نظر سے بھی بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ پورے ملک میں سیمنٹ سازی کا دوسرا بڑامرکز راجستھان گیہوں، باجرہ، گنا، دالیں، کپاس وغیرہ کی پیداوار کا بھی بڑا مرکز ہے۔ سرمایہ کاری کے معاملے میں ملک کی ریاستوں میں ۱۲؍ ویں مقام پر رہنے والی اس ریاست میں اسی کانگریس کی حکومت ہے جو قومی سطح پر بی جے پی کو تقریباً روزانہ ہدف تنقید بنائے رہتی ہے۔  
 ان دو ریاستوں کی شرح بے روزگاری دیکھ کر ہول ہونے لگتا ہے۔ وباء سے پیدا شدہ مسائل اپنی جگہ، لاک ڈاؤن کے سبب تعطل بھی اپنی جگہ مگر یہ کہے بغیر نہیں رہا جاسکتا کہ ریاستوں نے روزگار کے مواقع پیدا کرنے کیلئے اپنے وسائل کے استعمال میں غفلت نہ کی ہوتی تو حالات، وباء کی وجہ سے بھلے ہی بہت اچھے نہ رہ جاتےمگر اتنے خراب بھی نہ ہوتے۔ بے روزگاری کی ہوش رُبا صورتحال کے پیش نظر یہاں کی حکومتوں کو اپنے عوام کو اعتماد میں لینے کیلئے ضروری ہے کہ یہ کچھ نیا اور کچھ الگ سوچیں تاکہ کم وقت میں زیادہ نوکریاں پیدا کی جاسکیں۔n

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK