Inquilab Logo

مسلمانوں کے خلاف نفرتی لہرسونامی بن چکی ہے

Updated: June 09, 2022, 11:10 AM IST | Khalid Shaikh | Mumbai

ہندوراشٹر، ہندوتوا، ذات پات ، ریزرویشن ، آئین ، گئورکشا اور اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے تئیں آر ایس ایس، اس کی ذیلی تنظیموں اور بی جے پی کے نظریات اظہرمن الشمس ہیں ۔

Picture.Picture:INN
علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این

مودی کی طرح آر ایس ایس چیف موہن بھاگوت بھی چھوٹے بڑے وقفے کے ساتھ چونکانے والے بیانات دینے کے عادی ہوتے جارہے ہیں جن کا مقصد سَنگھ کو وسیع پیمانے پر قابل قبول بنانا ہےلیکن چونکہ ان کے بیانات بھی مودی کے دعووں  کی طرح عمل کی کسوٹی پر کھرے نہیں اترتے، اس لئے وقتی واہ واہی بٹورنے کے بعد اپنی تاثیر کھوبیٹھتے ہیں۔ خودہی سوچئے مودی نے وزیراعظم بننے کے لئے کیا کیا جتن نہیں کئے۔ گجرات میں سدبھاؤنا یاترا نکالی، ہمہ جہت ڈیولپمنٹ، سب کا ساتھ سب کا وکاس اوراچھے دنوں کا خواب دکھایا جنہیں خود ان کے معتمد خاص اور وزیرداخلہ امیت شاہ نے ’جملہ‘   قرار دیا۔ گزشتہ آٹھ برسوں میں مودی نے جتنے بلند بانگ دعوے کئے، ایک پر بھی کھرے نہیں اترے۔ستم بالائے ستم یہ کہ جب  زمینی مسائل حل نہیں ہوئے تو ستمبر ۲۰۱۸ء میں انہوںنے لوگوں کو آسمان کی سیر کے سپنے دکھائے اور دعویٰ کیا کہ ۲۰۲۲ء یعنی رواں سال میں وہ ہندوستان کی ایک بیٹی کو چاند پربھیجیں گے۔ سال ختم ہونے میں مزید ۶؍ مہینے باقی ہیں دیکھنا یہ ہے کہ یہ دعویٰ بھی کہیں ’جملہ‘ نہ ثابت ہو۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایک ایسا ملک جہاں لوگوں کے رہنے کے لئے ڈھنگ کا مکان نہ ہو، ۶۰۔۷۰؍ فیصد آبادی جھگی جھوپڑوں میں بستی ہو جہاں بنیادی وطبی سہولتوں کا فقدان ہو اور اچھی خاصی تعداد غریبی کی سطح سے نیچے  زندگی گزارنے پر مجبور ہو۔ ایک ایسا ملک جہاں مذہب اور ذات پات کے نام پر تفریق اور نفرت کا چلن عام ہو، نظم ونسق کی صورتحال ابتر ہو، آئے دن خواتین وکمسن بچیوں کا جنسی استحصال ہو، قرض میں ڈوبے کسان خودکشی پر مجبور ہوں۔ ایک ایسا ملک جہاں بڑھتی بیروزگاری کے چلتے چوتھے درجے کی کم تعلیمی لیاقت والی محدود اسامیوں کیلئے درخواست دہندگان میں ہز اروں کی تعداد میں ڈگری یافتہ  شامل ہوں، مہنگائی آسمان کو چھورہی ہو۔ایک ایسا ملک جہاں نوٹ بندی کے فائدے گِنا کر لوگوں کو گھنٹوں بینکوں کے باہر قطار میں کھڑا ہونے پر مجبور کیاجائے جس سے حاصل تو کچھ نہ ہولیکن سَو سے زائد افراد کی جانیں چلی جائیں اور ریزروبینک کو چھ سال بعد نوٹ بندی کے  نقصانات بتانے کا خیال آئے۔ آج مودی حکومت کووڈ ۔۱۹؍ سے کامیابی سے نمٹنے کا کریڈٹ لینے میں تاخیر نہیں کرتی لیکن آپ ہم بہتر جانتے ہیں کہ اس قیامت صغریٰ میں لوگوں پر کیا بیتی ۔جب لاک ڈاؤن کے اچانک اعلان اور نقل وحمل کے ذرائع مسدود ہونے پر لاکھوں مہاجر مزدور اپنے گاؤں جانے کیلئے پیدل نکل پڑے۔ جس میں سَو سے زائد جانیں بھینٹ چڑھ گئیں ۔ دکھ اس بات کا ہے کہ مزدوروں کو سہولتیں پہنچانے کا جو کام حکومت کو کرنا چاہئے تھا وہ فلاحی تنظیموں اور مخیر حضرات نے انجام دیا۔ کووڈ سے نمٹنے کا دعویٰ اس وقت جھوٹا ثابت ہوا جب ادویات وآلات اورآکسیجن ووسائل کی قلت نے لاکھوں کی جانیں لیں۔ پھر جب کووڈ کی قہر سامانی میں بتدریج کمی آئی تو مودی کے اندھ بھکتوں نے حجاب وحلال اور مسجد ۔ مندر کا تنازع کھڑا کردیا۔ 
  ان حالات میں مودی کا دختر ِ ہند کو چاند پر بھیجنے کا منصوبہ ایک بھونڈا مذاق معلوم ہوتا ہے۔ اگر مودی یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اپنے زورِ خطابت اور بلند بانگ دعووں سے ناممکن کو ممکن بنادیں گے تویہ ان کی خوش فہمی ہے۔ مودی کی کامیابی اور مقبولیت کا راز کمزور اور منتشر اپوزیشن ہے جس کے پاس ہندو توا کا توڑ ہے نہ مودی کا جوڑ۔ اس لئے ہم نہیں سمجھتے کہ ۲۰۲۴ء کے عام انتخابات میں کوئی بھی گٹھ بندھن بی جے پی کو شکست دینے کی پوزیشن میں ہوگا۔ ایک بات اور مودی آج بھی سب کا ساتھ ، وکاس کا نعرہ دہرانے سے نہیں چوکتے۔ اس ضمن میں ان کے نائبین دلیل دیتے ہیں کہ حکومت ، رفاہی اسکیموں سے فیض اٹھانے میں مذہب کی بنیاد پر کوئی تفریق نہیں کرتی ہے۔ اگر اسے صحیح مان بھی لیاجائے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اقلیتوں کے جان ومال کے تحفظ کی ذمہ داری حکومت پر عائد نہیں ہوتی؟ پھر یہ کہاں کا انصاف ہے کہ محض شبہ کی بناء پر گئورکشکوں کے ہاتھوں مسلمان مارے جائیں تو مقتول اوراس کے اہل خانہ ملزم ٹھہریں اور  لنچنگ کا شکار قبائلی ہوں تو مدھیہ پردیش حکومت   انہیں فی  کَس ۸ء۲۵؍ لاکھ روپے بطور معاوضہ دے؟  مودی اور ریاستی بی جے پی حکومتوں کے اسی دوغلے رویّے کی زہرناکی کو دھیما کرنے کے لئے ہی غالباً بھاگوت کو مصالحتی بیان دینے کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس کا آغاز ستمبر ۲۰۱۸ء میں دہلی کے وگیان بھون میں سہ روزہ لیکچر سیریز کے دوران ہوا جب  انہوں نے انقلابی نظریاتی تبدیلیوں کا اشارہ دیا۔ ہندوراشٹر، ہندوتوا، ذات پات ، ریزرویشن ، آئین ، گئورکشا اور اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے تئیں آر ایس ایس، اس کی ذیلی تنظیموں اور بی جے پی کے نظریات اظہرمن الشمس ہیں ۔ اجلاس سے پہلے تک خود بھاگوت کے خیالات ان کے پیشروسرسنگھ چالکوں سے مختلف نہیں تھے۔ منوسمرتی کے زیراثر دلتوں کے تئیں حقارت آمیز رویہ اوراقلیت اورمسلم دشمنی ان کے ڈی این اے میں شامل ہے۔ آئین کو سَنگھ نے اس لئے تسلیم نہیں کیا کہ وہ ہندو نظام وکردار کی عکاسی نہیں کرتا ہے  اورناگپور میں آر ایس ایس ہیڈ کوارٹر س پر آزادی کے بعد ۵۵؍ سال تک ترنگا اس لئے نہیں لہرایا گیا کہ سَنگھ بھگوا جھنڈے کو قومی پرچم بنانا چاہتا تھا ان وجوہات کی بناء پر اجلاس میں بھاگوت نے جو باتیں  کہیں وہ غیر متوقع اور چونکانے والی تھیں۔ انہوںنے آئین کو قابل احترام اوراس کی پابندی کو لازمی قراردیا۔ مسلمانوں کو ہندو راشٹر کا جزوِلاینفک بتایا کہ ان کے بغیر ہندو توا، ہندوتوا نہیں رہے گا جو ساری دنیا کو ایک خاندان سمجھتا ہے۔ آئین کے تعلق سے بھاگوت نے اپنی تقریر میں متعدد بار سیکولرزم اور سوشلزم کا حوالہ دیا، دہائی دی ۔ حد یہ ہوئی کہ انہوںنے گولوالکر کی کتاب Bunch of Thoughts جس میں مسلمانوں کو دشمن قراردیا گیا تھا، غلط بتایا۔ لیکن کیا ان باتوں کا نوٹس، مودی، بی جے پی ریاستوں یا ہندوتوا وادیوں نے لیا ؟ جواب ہوگا ’’ نہیں۔‘‘  اس لئے۲؍جون کو ناگپور میں سینئر سویم سیوکوں سے خطاب کرتے ہوئے انہوںنے گیان واپی مسجد، شیولنگ  اور مسجد۔ مندر معاملات میں موجودہ مسلمانوں کو جس طرح کلین چٹ دی اور تنازعات کو مذاکرات یا کورٹ کے ذریعے حل کرنے کا مشورہ دیا ،لوگوں نے اس کا خیر مقدم کیا لیکن ہم نہیں سمجھتے کہ ہندوتوا کیمپ پر اس کا کوئی اثر ہوگا۔ یہ اس وقت ممکن ہے جب مودی ، بھاگوت کے فرمودات کو سنجیدگی سے لیں اور انتہا پسندوں کی نکیل کَسیں۔ یہ ہم اس لئے کہہ رہے ہیں کہ گزشتہ ۸؍ برسو ں سے مودی راج نے مسلمانوں کے خلاف نفرت کی  جس لہر کوجنم دیا وہ سونامی میں تبدیل ہوچکی ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK