Inquilab Logo

ہندوستان کے عدالتی نظام کی تاریخ

Updated: January 28, 2020, 1:24 PM IST | Hasan Kamal

ہندوستان کے عدالتی نظام کو ہمیشہ ایک بہتر عدالتی نظام کی سند دی جاتی رہی ہے۔ یہ کہا جاتا رہا ہے کہ نچلی عدالتوں کا جو بھی حال ہو، لیکن ہائیکورٹ کی سطح پر حالات قدرے بہتر ہیں۔ سپریم کورٹ کی سطح پر تو انصاف پروری کی قسمیں بھی کھائی جاتی ہیں لیکن حقائق کوئی اور ہی کہانی کہتے ہیں۔

سپریم کورٹ آف انڈیا
سپریم کورٹ آف انڈیا

 ہندوستانی  عدلیہ کی تاریخ بد قسمتی سے بہت روشن نہیں ہے۔ اس کی یاد اس لئے آئی کہ اس وقت سپریم کورٹ میں کئی ایسے معاملات فیصلوں کے منتظر ہیں جن پر اس ملک کی جمہوریت، اس کی سماجی اور اخلاقی اقدار ، شہری آزادی اور آئین کی معنویت کا مستقبل منحصر ہے۔ وہ دفعہ ۳۷۰؍کی بات ہو،ان انتخابی بانڈس کا معاملہ ہو اس پر ریزرو بینک نے یہ اعتراض کیا تھا کہ یہ بینکنگ قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ سپریم کورٹ نے اب مرکزی حکومت ، آر بی آئی اور الیکشن کمیشن سے دو ہفتوں میں رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا ہے، اس کے علاوہ سی اے اے ،این آر سی اور این پی آر کے معاملات بھی ہیں جنہوں نے قومی اور بین الاقوامی سطح پر ایک طوفان برپا کر رکھاہے تمام نگاہیں سپریم کورٹ پر مرکوز ہیں کیونکہ اس کے فیصلے خواہ درست ہوں یا نہ ہوں لیکن اس ملک کی حد تک آخری ضرور تصور کئے جاتے ہیں۔ ہندوستان کے عدالتی نظام کو ہمیشہ ایک بہتر عدالتی نظام کی سند دی جاتی رہی ہے۔ یہ کہا جاتا رہا ہے کہ نچلی عدالتوں کا جو بھی حال ہو، لیکن ہائیکورٹ کی سطح پر حالات قدرے بہتر ہیں۔ سپریم کورٹ کی سطح پر تو انصاف پروری کی قسمیں بھی کھائی جاتی ہیں لیکن حقائق کوئی اور ہی کہانی کہتے ہیں۔ مشاہدہ گواہ ہے کہ سپریم کورٹ بھی بیشتر بر سر اقتدار حکومت اور جماعت کی طرف جھکا ہوا پایا گیا ہے۔ مشہور سماجی کارکن یوگیندر یادونے اپنے ایک حالیہ مضمون میں بہت پتے کی بات کہی ہے کہ سپریم کورٹ کی تشبیہ ایک  اسلحوں سے لیس ایسے سورما سے دی جا سکتی ہے جو لڑنا تو جانتا ہے، لیکن جب لڑائی کا وقت آتا ہے تو  ایسے مخمصے میں گرفتار جنگجو نظر آتا ہے جو لڑنے سے ہچکچا رہا ہو۔ 
 ماضی پر نظر ڈالئے تو ۱۹۷۵ کی ایمر جنسی میںعدلیہ خصوصاً سپریم کورٹ کی پہلی کڑی آزمائش تھی۔ شہری حقوق کی بابت ایک فیصلے میں اس وقت کےچیف جسٹس نصراللہ بیگ  نے یہ تک کہہ دیا تھا کہ ایمرجنسی  کا نفاذ ہو چکا ہو تو ایک شہری کا اپنے جان و مال پر بھی حق باقی نہیں رہتابلکہ وہ بھی  حکومت کے قبضہ میں چلا جاتاہے۔ اندرا گاندھی مرڈر کیس کے فیصلے میں بھی ماہرین قانون کا خیال تھا کہ کم از کم ایک ملزم کے خلاف کچھ بھی ثابت نہ ہو سکا تھا لیکن اسے سزائے موت دیدی گئی۔ اس کے بعد ایک ایسا فیصلہ سامنے آیا جس پر نہ صرف یہ کہ آج تک چہ میگوئیاں بند نہیں ہوئیں بلکہ اب از سر نو شروع ہو گئی ہیں۔ یہ پارلیمنٹ پر حملے کے ملزم افضل گرو کی سزائے موت  کا فیصلہ تھا۔ چیف جسٹس ڈھینگرا نے اپنے فیصلے میں باقاعدہ یہ ریمارک دیا کہ ہر چند کہ افضل گرو پر حملہ کرنے یا حملہ کی سازش میں شریک ہونے کا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں نظر آتا لیکن اسے سزائے موت دینا اس لئے ضروری ہے کہ اگر نہ دی گئی تو اس سے قوم کے جذبات کو شدید ٹھیس پہنچ سکتی ہے۔ ساری دنیا کے ماہرین قانون کی یہ متفقہ رائے تھی کہ مقدمات کے فیصلے قوم کے جذبات کو نظر میں رکھ کر نہیںبلکہ، شواہد اور ثبوتوں کی بنیاد پر کئے جاتے ہیں۔ یہی نہیں، فیصلہ کرتے وقت منصف کو یہ بھی خیال رکھنا چاہئے کہ اس فیصلہ سے قانون کا وہ تقاضا پورا ہو رہا ہے یا نہیں جو ملک کے آئین نے منصف پر ودیعت کیا ہے۔ حال ہی میں جموں کشمیر کے ایک حاضر سروس ڈی ایس پی دیویندر سنگھ کی گرفتاری کے بعد افضل گرو کی پھانسی کا فیصلہ ایک بار پھر موضوع بحث بناہواہے۔ خیال رہے کہ ڈی ایس پی دیویندر سنگھ کو دو دہشت گردوں کے ساتھ گرفتار کیا گیا ہے۔ اس سنسنی خیز واقعہ کی تفتیش بھی ہو رہی ہے۔ افضل گرو نے اپنے وکیل کے نام خط میں لکھا تھا کہ دیویندر سنگھ ہی نے اسے پارلیمنٹ پر حملہ میں ملوث ایک دہشت گرد کو دہلی میں ایک پرانی کار اور کرائے کا مکان دلانے پر مجبور کیا تھا۔ دیویندر سنگھ کی گرفتاری کے بعد ایک بار پھر پوچھا جا رہا ہے کہ فیصلہ دینے سے پہلے اس خط کی سچائی کی تصدیق کرنے کے لئے اسے ریکارڈ پر کیوں نہیں لیا گیا تھا۔ ٹو جی اسکینڈل کی بابت سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی شدید تنقید کا شکار ہے۔  
  سپریم کورٹ کے ہی چار معزز ججوں نے تقریباً سڑک پر نکل کر یہ دہائی دی تھی کہ سپریم کورٹ میں سب خیریت ہرگز نہیں ہے اور یہ کہ سرکار کا دبائو اکثر سپریم کورٹ کی کارکردگی میں خلل انداز ہونے کی کوشش کرتا ہے۔ جو چار جج صاحبان آمادہ بر احتجاج تھے، ان میں سابق چیف جسٹس رنجن گوگوئی بھی شامل تھے۔ چنانچہ جب وہ چیف جسٹس بنے تو خیال کیا جا رہا تھا کہ شاید اب عدالتی نظام ہر قسم کے دبائو سے آزاد ہو کر کام کرے گا لیکن  لوگوں کو اس وقت سخت مایوسی ہوئی جب جسٹس گوگوئی پر ان کے عملہ میں کام کرنے والی ایک دلت خاتون نے جنسی زیادتی اور دست درازی کا الزام لگایا۔  
 ان سب سے قطع نظر کچھ ایسے فیصلے بھی سامنے آئے ، جو عدلیہ کے اعتبار کو ٹھیس پہنچانے والے ثابت ہوئے۔ پہلا فیصلہ رافیل سے متعلق تھا۔ پہلے تو نالش کو سرے سے نیشنل سیکوریٹی  کے نام پر خارج ہی کر دیا گیا ، پھر جب ارون شوری ، یشونت سنہا اور پرشانت بھوشن نے اس دلیل کی بناء پر نظر ثانی پٹیشن دائر کی کہ ان کی نالش کا تعلق جہاز کی ساخت کے بارے میں جانکاری سے نہیں ہے کہ اس سے نیشنل سیکوریٹی کو کوئی خطرہ ہو، وہ جہاز کی قیمت کے بارے میں معلومات چاہتے ہیں، جس کا نیشنل سیکوریٹی سے کوئی تعلق نہیں، تو نظر ثانی پٹیشن کو شنوائی کیلئے منظور کر لیا گیا ، لیکن پھر مدعیان کے سوالوں کے جواب دیئے بغیر ہی اسے خارج بھی کر دیا گیا۔ ایودھیا کا فیصلہ تو مضحکہ خیز حد تک متنازع پایا گیا۔ فیصلے میں یہ تو مانا گیا کہ بابری مسجد کی مسماری ایک مجرمانہ فعل تھا، یہ بھی مان لیا گیا کہ سیکڑوں سال پرانی اس مسجد میں ۱۹۴۹ ءتک نماز بھی پڑھی جاتی رہی، یہ بھی مان لیا گیا کہ مسجد سنّی وقف بورڈ کی تحویل میں تھی لیکن ان سب کے بعد مسجد کو رام مندر میں تبدیل کرنے کا حکم بھی دے دیا گیا۔فیصلہ چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا کہ منطق پر عقیدے کو فوقیت دی گئی ہے۔ بالکل اسی طرح سبری مالا مندر میں ۱۰؍ تا ۴۰؍ سال کی عمر کی خواتین کے داخلہ کا معاملہ تھا۔ سپریم کورٹ نے فیصلہ کر دیا تھا کہ مندر میں خواتین کے داخلے پر پابندی آئین کے اصولوں کے خلاف ہے۔ موجودہ مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے فیصلہ سن کر کہا کہ سپریم کورٹ کو عوام کے جذبات کا خیال رکھنا چاہئے۔ سپریم کورٹ نے ایسا ہی کیا اور اپنے فیصلے کو منسوخ تو نہیں کیا، لیکن یہ کہہ کر اس پر نظر ثانی منظور کر لی کہ معاملے کی شنوائی ایک بڑی بنچ کرے اور سبری مالا مندر کی طرح مسجدوں اور پارسی اگیاریوں میں بھی خواتین کے داخلے کی پابندی کو آئین کی روشنی میں دیکھے۔ اس کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ ان تمام باتوں کے باوجود ہم اب بھی اپنے عدالتی نظام سے مایوسی نہیں ہیں۔ اس وقت ہمارے عدالتی نظام پر ساری دنیا کی نگاہ لگی ہوئی ہے اور ہمیں یقین ہے کہ ہمارا عدالتی نظام اس آزمائش پر کھرا اترے گا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK