Inquilab Logo

کتنا ’کیش لیس‘؟

Updated: September 30, 2021, 8:11 AM IST | new Delhi

کورونا کے خوف نے گزشتہ سال ہر ایک کو خوفزدہ اور غمزدہ کیا مگر معاشی نقطۂ نظر سے اس کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ عوام نے نقدادائیگی پر برقی ادائیگی کو فوقیت دی لہٰذا اس دوران حکومت کے اُس مقصد کو تقویت ملی جو بصورت دیگر اتنا آسان نہیں تھا۔

Corona`s fears have frightened everyone over the past year.Picture:Midday
کورونا کے خوف نے گزشتہ سال ہر ایک کو خوفزدہ ہے۔ تصویر مڈڈے

کورونا کے خوف نے گزشتہ سال ہر ایک کو خوفزدہ اور غمزدہ کیا مگر معاشی نقطۂ نظر سے اس کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ عوام نے نقدادائیگی پر برقی ادائیگی کو فوقیت دی لہٰذا اس دوران حکومت کے اُس مقصد کو تقویت ملی جو بصورت دیگر اتنا آسان نہیں تھا۔ وہ ہے نقدی کے لین دین کو روکنا اور برقی ادائیگی (کیش لیس پیمنٹ) کو فروغ دینا۔ نوٹ بندی کے مقاصد میں ایک مقصد یہ بھی تھا۔ مگر نوٹ بندی کے ذریعہ نقدی کو روکا نہیں جاسکا۔ البتہ کورونا نے اسے کافی حد تک روک کر بالواسطہ طور پر حکومت کی مدد کی چنانچہ یہ ہر خاص و عام کا مشاہدہ ہے کہ اب ادائیگی کے دیگر طریقے بھی استعمال کئے جارہے ہیں جو نوعیت کے اعتبار سے برقی ہیں اور جن میں پی او ایس ٹرمنل، ای بینکنگ، موبائل بینکنگ اور کارڈ کے ذریعہ بینکنگ (ڈیبٹ اور کریڈٹ کارڈ) وغیرہ شامل ہیں۔ اب تو بیشتر دکانوں پر برقی ادائیگی کا انتظام رہتا ہے۔ چھوٹی سے چھوٹی دکان پر کیو آر کوڈ باہر ہی سے نظر آجاتا ہے جو اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ اس دکان پر آن لائن پیمنٹ قبول کیا جاتا ہے۔ دکانوں کے علاوہ آٹو رکشا اور ٹیکسی والے بھی آن لائن پیمنٹ قبول کرنے لگے ہیں۔ اس کے باوجود میک کنسی کی رپورٹ حیرت انگیز ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان میں اب بھی نقد لین دین کی حکمرانی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ۸۹؍ فیصد لین دین اب بھی کیش کے ذریعہ کیا جاتا ہے۔ اگر یہ رپورٹ درست ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت کی ہر ممکن کوشش کے باوجود معیشت کا مکمل طور پر کیش لیس ہونا ’’ہنوزدلی دور است‘‘ جیسا ہے۔
 اس کے اسباب ہیں۔ جب ہم نقدی کے بغیر لین دین ہوتا ہوا دیکھتے ہیں یا برقی ادائیگی کے لوازمات ہمارے مشاہدے میں آتے ہیں تب ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ہم شہر میں ہیں اور وطن عزیز صرف شہروںکا مجموعہ نہیں ہے بلکہ اس میں دیہی علاقے بھی ہیں جہاں کے اپنے مسائل ہیں۔ بجلی کا غائب رہنا، نیٹ ورک کا نہ ملنا، عوام کے پاس برقی ادائیگی کے لوازمات کا نہ ہونا، نقدی پر انحصار کیلئے مجبور ہونا اور نقدی کے ذریعہ ادائیگی قبول کرکے نقدی ہی کے ذریعہ ادائیگی کا عادی ہونا۔ یاد رہے کہ برقی ادائیگی کو جو تھوڑی بہت رفتار ملی ہے اس کا سبب جن دھن، آدھار اور موبائل نمبر کی تثلیث ہے، جو ’’جے اے ایم‘‘ یعنی جیم کہلاتی ہے ۔ 
 اس کی وجہ سے برقی لین دین کے واقعات کی تعداد بڑھی ہے اور وہ زیادہ لگتی ہے مگر زیادہ ہے نہیں کیونکہ، جیسا کہ عرض کیا گیا، ہم شہروں کو دھیان میں رکھ کر نتیجہ اخذ کرلیتے ہیں جبکہ دیہاتوں کی صورتحال قطعی مختلف ہے۔ دوسرا بڑا سبب یہ ہے کہ ملک میں کروڑوں لوگ یومیہ اُجرت پاتے ہیں جو نقدی میں ہوتی ہے۔ اس میں دیہی علاقوں کے لوگ ہی نہیں، شہروں میں رہنے والے بھی شامل ہیں۔ چونکہ وہ نقد پاتے ہیں اس لئے نقد ادا کرتے ہیں۔ انہیں بینک تک جانے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی کیونکہ وہ ایک ہاتھ سے وصول کرتے ہیں تو دوسرے ہاتھ سے ادا کرنے پر مجبور ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کیش لیس معاملات میںجتنا اضافہ ہوا ہے، نقدی پر انحصار اُتنا کم نہیں ہوا ہے۔ 
 برقی ادائیگی کے پس پشت دُنیا بھر کی حکومتوں کے جو بھی مقاصد ہوں، اس سے عوام کو ملنے والی سہولتوں سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اسی لئے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ آج نہیں تو کل نقدی پر انحصار بہرحال کم ہوگا اور ہندوستان بھی جنوبی کوریا، سنگاپور، ہانگ کانگ اور یو اے ای جیسا ہوجائیگا جو بڑی حد تک کیش لیس ہیں۔n

covid-19 Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK