Inquilab Logo

نوجوانوں کو ذہنی انتشار سے کیسے بچائیں؟

Updated: September 27, 2020, 4:10 AM IST | Mubarak Kapdi

کووِڈ ۱۹؍کی بے قابو وبا، لاک ڈائون سے زندگی کے تعطل اور معاشی حالات کی زبوں حالی نے ہمارے نوجوانوں کو بھی ذہنی طور پر شدید متاثر کیا ہے۔ ذہنی انتشار، فرسٹریشن اور مایوسی مختلف وجوہات کی بنا پر پہلے بھی اِن طلبہ و نوجوانوں کو گھیرے تھی، آئیے اِن سب کے اسباب و علاج پر فکر کریں

Mental Stress - Pic : INN
ذہنی پریشانی ۔ تصویر : آئی این این

نصف سال سے جاری لاک ڈائون ، تعلیمی اداروں کی تالہ بندی، ملازمت اورکاروبار کے تعلق سے سامنے آتے اعداد و شمار سے ہمارے طلبہ یقیناً ذہنی طور پر ڈسٹرب ہیں۔ یہ ذہنی تنائو بیماریوں کی شکل اختیار نہ کرے، اس کیلئے گھر، خاندان اور سماج کے بڑوں کو فکر و محنت کرنی ہے۔ اس کیلئے ہمارے نوجوانوں کی بنیادی نفسیات، اُن کے مزاج ورویّہ کو سمجھنا اور اس کیلئے والدین کاماہرینِ نفسیات ہونا ضروری نہیں۔  روزانہ آپ اپنے بچّے کے رویے اور برتائو کا بھرپور جائزہ لے رہے ہیں جو ملک بھر کا سب سے مہنگا فارین ریٹرن ماہر نفسیات اپنے آدھے ایک گھنٹے کے مشاہدے سے بھی نہیں سمجھ نہیں پائے گا لہٰذا بچّوں میںپیدا ہونے والا ذہنی تنائو یا زندگی کے تئیں کسی انتہائی اقدام وغیرہ کے تعلق سے سب سے پہلے اُن کے والدین کو خبر ہونی چاہئے، پڑوسیوں، رشتہ داروں یا اُس کے دوستوں کو نہیں۔ آئیے اپنے بچّوں کے ذہن سے ذہنی انتشار کو جڑ سے ختم کرنے کیلئے سر جوڑ کر بیٹھیں۔
 خالقِ کائنات نے ہر اِنسانی دماغ میںایک سوملین سے زائد اعصابی خلیے عطا کئے ہیں۔ اب ان میں سے کب کس خلیے میںتوازن بگڑ جائے یہ نہیں کہا جاسکتا۔ قدرت کے اس سب سے قیمتی تحفے یعنی دماغ میں خطرناک قسم کے خلیات بھی موجود رہتے ہیں، اسلئے اُن خلیات سے نیوکلیائی بم اور خطرناک میزائیل نے بھی جنم لیا ہے۔ تخریبی افراد کو اپنے آپ کو بھی ختم کرنے کے جذبات انہی خلیات سے جنم لیتے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا انسانی ذہن کو کنٹرول کرنے کیلئے کچھ قوانین و ضوابط بھی ہیں؟ بے شک! آسمانی صحیفے انہی جذبات کو کنٹرول کرنے کیلئے اُتارے گئے ہیں۔اس سلسلے میںآخری کتاب مبین جس کو کتاب تقویٰ کہا جاسکتا ہے ، وہ ہر ہر لمحے، شر پر خیر کس طرح غالب آجائے، اُس کی بھرپور رہنمائی کرتی ہے۔اس کتاب کی سادہ تعلیم کو ہم سمجھنے سے قاصر ہیں یا پھر دانستہ طورپر سمجھنا ہی نہیں چاہتے۔دراصل ہم جیسا معاشرہ تشکیل دیتے ہیں، نئی نسل بھی سب کچھ وہیںسے حاصل کرتی ہے۔ آج بظاہر تو یہ چندریان کا دَور ہے، سائنسی ارتقاء کی انتہا کا دَور ہے مگر ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ بد بختی سے بیک وقت اِنسان کی اعلیٰ اقدار کے ابتلاء کا دَور بھی ہے۔ ہم مایوس ہرگز نہیں ہیں البتہ یہ حقیقت ہے کہ اس معاشرے میںمادیت اپنی انتہا پر ہے، اسلئے محبتیں،شفقتیں، اپنائیت، صداقت اور بے غرضی لگ بھگ ختم ہوتی جارہی ہے جس کے نتیجے میںہمارا مجموعی طرزِ زندگی حیات آفریںہونے کے بجائے حیات نفریں، حتّیٰ کہ حیات کُش بنتے جارہا ہے۔بڑوں سے ہمارے بچّوں کو نفرت کا جو سامان ملتا ہے اس سے وہ زندگی کو صرف وقت گزارنے اور کا رعبث سمجھنے لگتے ہیں۔ 
 سماج کچھ بھی کہے، ہمارے نوجوانوں کو ہمیشہ یہ یاد رکھنا ہے کہ اِنسان اس دنیا میںنہ اپنی مرضی سے آتا ہے اور نہ ہی اُسے اپنی مرضی سے جانے کا اختیار ہے۔ یہ زندگی رب کائنات کی دی ہوئی امانت ہے اور اپنی آخری کتاب میں وہ کہتا ہے کہ ’’یقیناً اللہ نہیںپسند کرتا کسی خیانت کرنے والے ناشکرے کو۔‘‘ آخر انسان ناشکرا بنتا کیسے ہے؟ نفسا نفسی اور بے حِسی سے۔ یہ ایسی بھیانک بیماریاں ہیںجو ہمارے طلبہ کو بھی خود شناسی سے بجائے خود کشی اور خود سوزی کی جانب لے جاتی ہیں۔ اب جہاں تک خود شناسی کا معاملہ ہے طلبہ میںعام تاثر اس کے تعلق سے یہ ہے کہ اس کیلئے اعلیٰ قسم کا فہم و ادراک، ذہانت اور فکر میںگہرائی و گیرائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایساکچھ نہیں ہے۔ دوستو! اپنے روزانہ کے کام کاج اور اُس کے ضمن میں برتے جانے والے اپنے رویے کا ہلکا پھلکا جائزہ لیجئے اور لیتے رہئے کہ آپ کا تنظیم اوقات کیسا ہے؟ چیزوںاور معاملات کو ترجیح دینے کا شعور کتنا ہے؟ باوجود کوشش کے اگر ناکامی ہاتھ لگے تو اُسے برداشت کرنے کی طاقت کتنی ہے؟ کیا آپ صرف کامیابی کے متمنی ہیں یا یہ سمجھتے ہیںکہ کوشش نامی سکّے کا ایک رُخ کامیابی ہے اور دوسرے رُخ کا نام ناکامی ہے۔ دوسروں کے ساتھ کتنا ایڈجسٹ کرپاتے ہیں؟  اگر کوئی آپ کو دانستہ طور پر بھی نیچا دکھانے کی کوشش کر رہا ہے تو اُس پر بھی مُسکرانے کی طاقت و سکت آپ پیدا کرپاتے ہیں؟بس یہی خودشناسی ہے اور اس کیلئے بڑا دانشور ہی ہونا ضروری نہیں۔ روز مرّہ کی زندگی کے ہر چھوٹے بڑے معاملے پر آپ کا برتائو کیسا رہتا ہے،کیا اُسے نارمل یاٹھیک ٹھاک کہا جا سکتاہے بس اسے سمجھنے کے شعور کا نام ہی خودشناسی ہے۔
 ہمارے طلبہ جو سراسیمگی، ذہنی انتشار،مایوسی اورڈپریشن کا شکار ہوتے جا رہے ہیں اُس کیلئے کئی عناصر  واضح طور پر ذمہ دار نظر آتے ہیں۔ ایسے طلبہ کو مایوسی و پست ہمّتی کے اندھیروںسے نکالنے کیلئے معاشرے کی سرد مہری کا جائزہ لیجئے تو معلوم ہوتاہے کہ ہم میں سے اکثر اپنے محلّے کے کسی اسکول میںجاکر بھی طلبہ کی تعلیمی و نفسیاتی رہنمائی کرنے کو تیار نہیںہیں اور جب اُن میں سے ایک آدھ طالب علم مکمل ذہنی تنائو کا شکار ہوکر اگر انتہائی قدم اُٹھاتا ہے تب ہمارے یہاںواویلا مچایا جاتا ہے۔ معاشرے کے اس رویے کے بعد  دوسرے جس  رویے سے نقصان پہنچ رہا ہے، وہ ہے ’میڈیا‘ ۔ پہلے صرف پکّی سیاہی والا میڈیا یعنی پرنٹ میڈیا تھا، پھر الیکٹرانک میڈیا نے انٹری لی اور اب آیا سوشل میڈیا اوردیکھتے ہی دیکھتے اس میڈیا نے ہمارے خاندان کے رُکن کی حیثیت اختیار کرلی ۔ اپنے رشتہ داروں کی خیر خبر ہم مہینوں نہیںلے پاتے البتہ  سوشل میڈیا پر ہر ۵؍ منٹ میںاپنی حاضری لگاتے رہتے ہیں۔ ہمارے الیکٹرانک میڈیا کا سب سے بڑا نعرہ ہے ’بریکنگ نیوز۔‘ اُس میڈیا میںصحافت کی دو لفظی تعریف ہے ’بریکنگ نیوز‘ کیوںکہ اُسی سے اُس کا ٹی آر پی (ٹیلی ویژن ریٹننگ پوائنٹ)بڑھتا ہے، اُسی کے مطابق اُنھیں اشتہارات ملتے ہیں اور اُن چینلوںکا ’قد‘ بڑھتا ہے۔ اس ٹی آر پی کی دُکانداری میںساری قدروں کو طاق پر رکھ دیتے ہیں اور ہمارے طلبہ کی زندگی سے خود سپردگی کی بدبخت خبروںکو بریکنگ نیوز کی طرح پیش کیا جاتا  ہے۔اُس وقت ایک لمحے کیلئے بھی یہ نہیں سوچا جاتا کہ ان افسوسناک واقعات کو بِکنے والے پروڈکٹ کی طرح پیش کرکے اُن متاثر خاندانوں پر کیا گزرتی ہوگی؟وہ اسلئے  نہیںسوچتے کہ ایک قیمتی جان کا نقصان اُن میڈیا والوں کیلئے اُن کےشو کا صرف ایک  ایپی سوڈ کی حیثیت رکھتا ہے۔
اس کے بعد والدین ذمہ دار قرار پاتے ہیں جو ہمارے نوجوانوں کومایوسی کے اندھیروں کی نذر کرتے رہتے ہیں۔ والدین کے یہ رویے و برتائو جگ ظاہر ہیں:(۱)  اکثر والدین اپنے بچّوں پر اپنے خوابوں کو تھوپنا چاہتے ہیں کہ جو میں نہیں بن سکا، وہ بہر حال اُس بچّے کو بن کر دکھانا ہے۔ (۲) بچّہ چاہے کتنے ہی ذہنی تنائو کا شکار ہوجائے، ذہنی دبائو میںاُن کا دماغ پھٹنے لگے، وہ شدید قسم کے ڈپریشن کا شکار ہوکر اپنے وقتی سکون کیلئے نیند کی گولیوں کا شکار ہوجائے البتہ والدین کے مطلوبہ ہدف کو تواُسے حاصل کرنا ہی ہے۔ (۳) کچھ والدین اپنے بچّوں کی ساری صلاحیتوں کو نظر انداز کر کے انھیںبس گھر کے چولہے کا ایندھن بنانا چاہتے ہیں، چاہے اُس بنا پر بچّہ گھٹ گھٹ کر ختم ہی ہوجائے اُنھیںپروا نہیں۔ (۴) کچھ گھروں میں ایساماحول قائم رہتا ہے کہ پرائمری اسکول کے بچّوں پر بھی اسکول چھوٹنے کی گھنٹی بجلی بن کر گِرتی ہے۔ اوہ... پھر وہی گھر... پھر وہی امّی ابّا کے جھگڑے... پھر وہی تُو تُو مَیںمَیں.... ہر روز اسکول سے گھر ہی جانا ہوتاہے۔ (۵) اپنے بچّوں سے برتی جانے والی جانبداری بھی ایک بڑا سبب ہے جس سے بچّے ڈسٹرب ہوجاتے ہیں۔ والدین اس میں ہمیشہ اپنے ذہین بچّے کی طرف داری کرتے ہیں اور اُس سے کم ذہین و کند ذہن کے حامل بچّے مسلسل ذہنی ٹارچر کا شکار ہوتے رہتے ہیں۔ اس ضمن میں والدین  یہ نہیں جانتے یانظر انداز کرتے ہیںکہ اس دھرتی پر جتنے بچّے ہیں اُن میں صرف ۵؍ فیصد انتہائی ذہین یا جینئیس ہوتے ہیں۔ ۲۰؍فیصد ذہین اور بقیہ ۷۵؍فیصد یعنی ایک بڑی اکثریت اوسط درجے کے یا کند ذہن بچّوں پر مشتمل ہوتی ہے۔  اسلئے ہر بار والدین آسمان کی طرف دیکھ دیکھ کر اوپر والے سے اپنے بچّوں کے تعلق سے جو شکایت کرتے ہیں، وہ مناسب نہیںہے

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK