Inquilab Logo

اُترپردیش میں فلم انڈسٹری کے قیام سے عوام کا کیا فائدہ ہوگا؟

Updated: September 27, 2020, 4:02 AM IST | Jamal Rizvi

پوری ریاست کی بات جانے دیجئے اگر صرف لکھنؤکے حالات پر نظر ڈالی جائے تو یہ حقیقت سامنے آجاتی ہے کہ عوام کی ترقی اور خوشحالی سے متعلق حکومت کے اعلان اور اس کی نیت میں کتنا فرق ہے؟ یہ نہ صرف ریاست کے بڑے شہروں میں سے ایک ہے بلکہ راجدھانی بھی ہے۔یہاں بجلی پانی ،طب و صحت اور تعلیم کے معاملے میں حکومت کی کارکردگی اس کی ناقص حکمت عملی کو اجاگر کرتی ہے، ایسے میں فلم انڈسٹری کا خواب دکھانا صرف ایک فریب ہے اور کچھ نہیں

Yogi Adityanath - Pic : INN
یوگی آدتیہ ناتھ ۔ تصویر : آئی این این

ان دنوں ملک کی ایک بڑی ریاست اتر پردیش میں فلم انڈسٹری کے قیام کی خبریں سرخیوں میں ہیں۔ریاست کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے اس سلسلے میں ہنگامی سطح پر اقدامات کئے ہیں۔ان کی حکومت کا کہنا ہے کہ یوپی میں فلم انڈسٹری کے قیام سے ریاست کی ترقی کے راستے ہموار ہوں گے اور ساتھ ہی یہاں روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔ ریاستی حکومت کا یہ اعلان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جبکہ ملک میں بے روزگاری کی بڑھتی سطح کے حوالے سے مرکز کی بی جے پی حکومت پر چوطرفہ تنقیدیں ہو رہی ہیں۔ اس وقت ملک کے عوام کو جو مسائل درپیش ہیں، ان میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری انتہائی پریشان کن مسئلے کی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔ کورونا کے سبب ملک گیر سطح پر نافذ ہونے والے لاک ڈاؤن کے بعد جو حالات پیدا ہوئے ہیں، ان کے سبب غریب اور متوسط طبقے کے سامنے ذریعۂ معاش کا حصول ایک بڑا مسئلہ بن گیا ہے۔ ایسے حالات میں اگر کسی ریاست کا وزیر اعلیٰ یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس کے فیصلے سے ریاست میں روزگار کے حصول کے مواقع پیدا ہوں گے تو اس کے فیصلے اور دعوے کا خیر مقدم کیا جانا چاہئے لیکن ایسے فیصلے اور دعوے کا خیر مقدم کرتے وقت ان حقائق کو بھی مد نظر رکھنے کی ضرورت ہے جن سے اس ریاست کے عوام مسلسل دو چار ہو رہے ہیں ۔ اگر اس اعتبار سے اتر پردیش کے عوام کو درپیش مسائل کا جائزہ لیا جائے تو ریاستی حکومت کا یہ دعویٰ مشکوک نظر آنے لگتا ہے کہ اس کے مذکورہ فیصلے سے عوام کا بھلا ہوگا۔
 ادھر گزشتہ کچھ برسوں کے دوران سیاسی طرز گفتار میں جو تبدیلی آئی ہے، اس میں یہ بات بہت واضح طور پر نظر آتی ہے کہ ارباب اقتدار عوام کی فلاح اور ترقی کے نام پر جو وعدے یا دعوے کرتے ہیں ان میں بیشتر محض لن ترانی کی حیثیت رکھتے ہیں۔جب عوام کو زندگی کے بنیادی مسائل شدید طور سے پریشان کرنے لگتے ہیں اور اس کی بنا پر ارباب اقتدار کی نااہلی کا ذکر متواتر ہونے لگتا ہے تو اقتدار کی جانب سے یکے بعد دیگرے ایسے وعدے کئے جانے لگتے ہیں جن سے بہ ظاہر یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ حکومت عوام کے تئیں واقعی فکر مند ہے۔مرکز اور بی جے پی کی حکومت والی ریاستوں کے ارباب اقتدار کی جانب سے کئے گئے ایسے وعدوں کا تجزیہ کیا جائے تو بہت مایوس کن حقائق سامنے آتے ہیں۔اس وقت صورتحال یہ ہے کہ جب ملک کے عوام کو کوئی مسئلہ شدید طور سے پریشان کرنے لگتا ہے تو اقتدارعوام کی توجہ اس مسئلے سے ہٹانے کیلئے نئے وعدوں کی جھڑی لگا دیتا ہے ۔یوپی کے وزیر اعلیٰ کا ریاست میں فلم انڈسٹری کے قیام کا حالیہ اعلان بھی اسی قسم کی ایک مثال ہے ۔ ملک میں بڑھتی بے روزگاری کے سبب مرکز کی بی جے پی حکومت پر ہونے والی مسلسل تنقید کو انھوں نے اس اعلان کے ذریعہ کم کرنے اور ساتھ ہی یہ عوام کے اندر یہ تاثر بھی پیدا کرنے کی کوشش کی کہ وہ عوام کے تئیں فکر مند ہیں۔یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اقتدار کی عوام کے تئیں اس قسم کی فکر مندی سے کیا مجموعی طور پر سماج کا بھلا ہوگا یا کسی خاص طبقہ اور گروہ کی ترقی کو سماجی ترقی سے موسوم کیا جائے گا؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے پر جو حقائق سامنے آئیں گے وہ صریح طور پر جمہوری طرز حکومت کے اس تصور کی نفی کریں گے جو سماج کی ترقی کو کسی خاص طبقہ یا گروہ تک محدود نہیںرکھتا بلکہ اس تصور میں سماج کی مجموعی ترقی کو بنیادی حیثیت حاصل ہے ۔
 اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ ریاست میں فلم انڈسٹری کے قیام سے ترقی اور روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے تو یہ سوال پھر بھی پیدا ہوگا کہ اس ترقی سے سماج کے کتنے فیصد لوگوں کا بھلا ہوگا؟ فلمی صنعت سے سماج کی مجموعی ترقی کے تصور کو وابستہ کرنا ان زمینی حقائق کو نظر انداز کرنے کے مترادف ہے جو سماج کے کمزور طبقات کے سامنے زندگی کے بنیادی مسائل اور مشکلات کی شکل میں ان کو پریشان کرتے ہیں۔کورونا اور لاک ڈاؤن کے سبب پیدا ہونے والے حالات نے جن ریاستوں کے عوام کے سامنے روزگار کے مسائل پیدا کئے ہیں ان میں اترپردیش کو نمایاں حیثیت حاصل ہے ۔ گزشتہ تین چار مہینوں کے دوران اس ریاست کے ہزاروں ایسے افراد ملک کے بڑے شہروں سے یہاں واپس آچکے ہیں جو دہلی ،ممبئی اور کولکاتا جیسے شہروں میں رہ کر محنت مزدوری کرکے اپنا اور اپنے کنبے کا پیٹ بھرتے تھے۔ان افراد کیلئے اپنے گاؤں اور گھروں میں بے روزگار بیٹھنا ان کے اور ان کے اہل خانہ کیلئے تشویش ناک مسئلہ بنتا جارہا ہے ۔یوپی کی ریاستی حکومت اگر واقعی عوام کے مسائل کے تئیں سنجیدہ ہے تو اسے ریاست میں فلم انڈسٹری کے قیام کے اعلان کے بجائے ان ہزاروں  بلکہ لاکھوں افراد کیلئے روزگار کا ایسا متبادل فراہم کرنا چاہئے جو اُن کیلئے دو وقت کی روٹی کا بندوبست کر سکے۔ اس کے علاوہ ریاست کے ان شہروں کو صنعت و حرفت کی جدید ترین سہولیات فراہم کرنے کی کوشش حکومت کی طرف سے ہونی چاہئے جو شہر بے روزگاری کے پریشان کن مسئلے پر قابو پانے میں اس کی عوامی فکر مندی کو عملی شکل عطا کر سکیں۔
 اس ریاست کے دیگر شہروں کی بات جانے دیجئے اگر راجدھانی لکھنؤکے حالات پر نظر ڈالی جائے تو یہ حقیقت سامنے آجاتی ہے کہ عوام کی ترقی اور خوشحالی سے متعلق حکومت کے اعلان اور اس کی نیت میں کتنا فرق ہے؟یوپی کا یہ بڑا شہر جو ریاست کی راجدھانی ہونے کے ساتھ ہی ریاست کے بڑے شہروں میں سے ایک ہے ،یہاں بجلی پانی ،طب و صحت اور تعلیم کے معاملے میں حکومت کی کارکردگی اس کی ناقص حکمت عملی کو اجاگر کرتی ہے۔لکھنؤ اور اس کے اطراف میں رہنے والوں کیلئے پانی اور بجلی کی متواتر دستیابی ایک بڑا مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ لاک ڈاؤن کے سبب صرف اس شہر کے ہزاروں افراد کے سامنے روزگار کا حصول ایک بڑا مسئلہ بن گیا ہے۔ ایسے حالات میں ریاست کے ایک مخصوص علاقہ میں فلم انڈسٹری  کے قیام سے مجموعی طور پر ریاستی عوام کا کتنا بھلا ہوگا، اس کا اندازہ بخوبی کیا جا سکتا ہے۔ریاست میں بجلی اور پانی کے ناقص نظام کے سبب کسانوں ، چھوٹے صنعت کاروں اور طلبہ کیلئے اپنے معمول کو بہتر انداز میں جاری رکھ پانا ایک مسئلہ بن گیا ہے۔روزگار فراہمی کے نام پر ریاست میں فلم انڈسٹری کے قیام کا اعلان کرنے سے قبل یوگی حکومت کو ان حقائق پر توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ معاشرہ کی مجموعی ترقی کا وہ تصور برقرار رہ سکے جو جمہوری طرز حکومت کا بنیادی مقدمہ ہے۔
 اس حقیقت کونظر انداز یا فراموش نہیں کیا جا سکتا کہ اس وقت ملک کا معاشی نظام مایوس کن اور تشویش ناک صورتحال سے دوچار ہے ۔ ایسے حالات میں اگر ارباب اقتدار حالات کو بہتر بنانے کیلئے مخلصانہ اقدام کرنے کے بجائے محض عوام کا دل بہلانے کی خاطر صرف وعدے کرتے رہیں تو یہ عوام کے اس اعتبار کے ساتھ دھوکہ ہے جس نے انھیں اقتدار تک پہنچایا ہے ۔اگر عوام کسی سیاسی پارٹی کے متعلق یہ اعتبار قائم کر تے ہیں کہ حصول اقتدار کے بعد یہ پارٹی واقعتاً ان کی ترقی اور خوشحالی کیلئے کوشش کرے گی اور اس پارٹی کی یہ اخلاقی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ عوام کے اس اعتبار کا بھرم قائم رکھے۔ اس ضمن میں حکومت کو سنجیدگی اور دیانت داری کے ساتھ ایسے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے جس سے عوام کی ترقی اور خوشحالی کی راہ ہموار ہو سکے لیکن اس وقت ملک کی مرکزی حکومت اور اترپردیش کی ریاستی سرکار کا رویہ اس معاملے میں تقریباً یکساں ہے کہ وہ صرف وعدوں کے ذریعہ عوام کا دل بہلانے کی کوشش کر رہی ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK