Inquilab Logo

بھوک، معیشت اور چھوٹے کاروبار

Updated: November 18, 2021, 1:45 PM IST

 سپریم کورٹ کا یہ موقف کہ ’’لوگ بھوک سے مررہے ہیں‘‘، جس پر ہم نے کل اس کالم میں گفتگو کی تھی، کئی تبصروں کا ایک تبصرہ ہے۔ اس میں معیشت کی بدحالی کا شکوہ بھی مضمر ہے،

Picture.Picture:INN
علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این

سپریم کورٹ کا یہ موقف کہ ’’لوگ بھوک سے مررہے ہیں‘‘، جس پر ہم نے کل اس کالم میں گفتگو کی تھی، کئی تبصروں کا ایک تبصرہ ہے۔ اس میں معیشت کی بدحالی کا شکوہ بھی مضمر ہے، بے روزگاری کی بڑھتی شرح کی شکایت بھی پوشیدہ ہے اور مہنگائی کا گلہ بھی مخفی ہے۔ اسے صرف بھوک سے نہیں جوڑا جاسکتاکیونکہ بھوک کے اپنے اسباب ہیں۔ بھوک اس لئے ہے کہ کام کرنے والے ہاتھوں میں کام نہیں ہے۔ کام اس لئے نہیں ہے کہ ملک کے معاشی حالات دگرگوں ہیں اور ان میں سدھار کی کوئی اُمید فوری طور پر دکھائی نہیں دے رہی ہے۔
  بیرونی ریٹنگ ایجنسیاںایک بار پھر ہماری جانب پُر اُمید نگاہوں سے دیکھ رہی ہیں مگر اُن کی اُمیدوں کے کے چراغ میں ’’اگر‘‘ اور ’’مگر‘‘ کا تیل ہے۔ اگر ایسا ہوا تو اتنی روشنی ہوگی اور ویسا ہوا تو اتنی۔ ہمیں ان ایجنسیوں کی باتوں پر کان دھرنے کی ضرورت نہیں ہے جو کبھی سبز باغ بھی دکھاتی ہیں۔ ہمیں شعبہ ہائے مالیات و معاشیات میں انقلابی اقدامات کی ضرورت پہلے سے زیادہ ہے بالخصوص کووڈ۔۱۹؍ کےبعد کے دور میں، مگر مسئلہ یہ ہے کہ ہماری توجہ بڑے معاشی پیمانوں پر ہے۔ بڑی صنعتوں، سرمایہ کاری اور برآمدات وغیرہ سے حالات ضرور بدلتے ہیں مگر ایسے دور میں جب معیشت اپنی نچلی سطح پر پہنچ چکی ہو، زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ چھوٹی صنعتوں اور چھوٹے کاروبار کو سہارا اور سنبھالا دیا جائے جو روزگار کی فراہمی کا بھی مؤثر ذریعہ ہیں اور جو جی ڈی پی کی گروتھ کو بھی یقینی بناتے ہیں۔ چونکہ یہ سب غیر منظم زمرہ میں آتے ہیں اور اس جانب بیرونی ایجنسیوں کی توجہ نہیں ہوتی اس لئے انہیں ہماری حکومت بھی نظر انداز کرتی ہے جبکہ ان کی حیثیت جسم کے رگ و ریشے جیسی ہے۔  جسم میں اعضائے رئیسہ کی اہمیت و صحت سے انکار نہیں کیا جاسکتا مگر ان کی کارکردگی جسم میں پھیلے رگ و ریشے کے نظام کی بہتر کارکردگی پر منحصر ہے۔ دل کو خون پہنچانے والی شریانوں میں نقص پیدا ہوتا ہے تو قلب کی صحت متاثر ہوتی ہے۔ ملک بھر میں پھیلی ہوئی چھوٹی چھوٹی صنعتی و کاروباری اکائیاں شریانوں کا کردار ادا کرتی ہیں۔ ان میں خون کا دوران کم ہوجائے تو مسئلہ اور رُک جائے تو بڑا مسئلہ پیدا ہوتا ہے۔ کووڈ۱۹؍ سے پہلے کے حالات ہی میں معیشت کی سست رفتاری خون کے دوران کو متاثر کرچکی تھی۔ کووڈ ۱۹؍ بالخصوص لاک ڈاؤن کے دوران اس میں بڑا خلل پیدا ہوا۔ اب ان چھوٹی اکائیوں کو مستحکم کرنے سے دیگر معاشی کسوٹیوں میں ازخود بہتری پیدا ہوگی یہ تو یقینی ہے، اس کا فائدہ یہ بھی ہوگا کہ روزگار کے جتنے مواقع پیدا ہوں گے، کام کرنے والے ہاتھوں کو اُتنا کام ملے گا اور سماج میں نچلی معاشی سطح پر رہنے والے لوگ حکومت کی امداد کے محتاج نہیں رہ جائینگے، وہ اپنی روزی خود کمائینگے جو کہ وہ چاہتے بھی ہیں۔  ا س کا نتیجہ یہ ہوگا کہ معیشت کی بالائی سطح پر بھی خو شگوار اثرات مرتب ہوں گے۔ حکومت کی تھیوری اسکے برخلاف ہے۔ حکومت کا خیال ہے کہ بڑی کسوٹیوں پر معیشت پورا اُترے تو نچلی تمام سطحیں پھلنے پھولنے لگیں گی۔ یہ جعلی نسخہ ہے جو پہلے بھی آزمایا جاچکا ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ معیشت جب دو عددی رفتار سے فروغ پاتی  ہے تو بڑے صنعتی و تجارتی اداروں کے وارے نیارے ہوتے ہیں، نچلی سطح پر اس کا فائدہ نہیں پہنچتا۔ غریب، غریب ہی رہتا ہے بلکہ غریب تر ہوجاتا ہے۔ اگر اب بھی اسی نسخے کو آزمانےکی کوشش کی گئی تو نتیجہ وہی نکلے گا جو پہلے برآمد ہوا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK