Inquilab Logo

می نویس و می نویس و می نویس

Updated: January 23, 2021, 11:30 AM IST | Shahid Latif

خوش نویسی ایک فن ہے۔ کمپیوٹر کے دور میں بھی اس کی قدرومنزلت باقی ہے یہ الگ بات کہ پہلے جیسی نہیں رہ گئی ہے۔ زمانہ بدلا تو خوش نویسی کے ساتھ ہی اس کے لوازمات یعنی قلم، کاغذ، سیاہی، دوات وغیرہ بھی اب اپنی وقعت کھورہے ہیں۔ اب تو فاؤنٹین پین بھی مشکل سے دستیاب ہوتے ہیں۔

Writing - Pic : INN
رائٹنگ ۔ تصویر : آئی این این

کیفی صاحب کے انتقال کے بعد اُن کی صاحبزادی شبانہ اعظمی نے اُن پرجو طویل مضمون لکھا تھا اس کی چند سطور اس طرح تھیں: ’’وہ ہمیشہ مانٹ بلینک پین سے لکھتے تھے۔ اُن کے پاس اس کا بڑا ذخیرہ تھا۔ اکثر مَیں دیکھتی کہ وہ سارے قلم  باہر نکالتے، اُنہیں محبت سے دیکھتے اور دوبارہ دراز میں رکھ کر تالا لگا دیتے تھے۔ ایک بار میرے ایک دوست نے مجھے مانٹ بلینک تحفے میں دیا تو وہ ابا نے ’ہتھیا‘ لیا اور اس عرض مدعا کیلئے میرے دوست کو ایک پیارا سا خط لکھا کہ کس طرح وہ قلم اُن کے پاس زیادہ محفوظ رہے گا بجائے میرے۔‘‘ 
 اس اقتباس میں قلم کے ذخیرہ کو دراز سے باہر نکالنا، اُسے محبت سے دیکھنا اور واپس دراز میں رکھ کر تالا لگا دینا ایسا عمل ہے جسے قلم کے اعلیٰ معیاری ذوق کا حامل شخص ہی محسوس کرسکتا ہے۔ کیفی صاحب کی طرح اور بھی کئی مشاہیر گزرے ہیں جو عمدہ قلم جمع کرتے، اُن کی دیکھ بھال کرتے اور اُنہیں اپنا قیمتی اثاثہ تصور کرتے تھے۔ قلم کے اس ذخیرہ میں بال پوائنٹ پین نہیں ہوتے تھے جو بہت بعد میں آئے۔ یہ فاؤنٹین پین ہوتے تھے جن میں سیاہی بھرنے کا خاص اہتمام بھی قلم سے دوستی اور محبت کا غماز ہوا کرتا تھا۔ وہ زمانہ اب نہیں رہا۔ اب تو فاؤنٹین پین بھی مشکل سے دستیاب ہے۔ چند ہفتے پہلے اپنے ایک محسن کو فاؤنٹین پین تحفتاً دینے کیلئے مَیں نے کتاب کاپیوں کی کئی دُکانیں چھان ڈالیں مگر فاؤنٹین پین کے دس بارہ نمونے بھی کسی کے پاس نہیں تھے۔ ’’پارکر‘‘ کے ایک قلم پر مجھے سمجھوتہ کرنا پڑا جو اس دکان میں اکلوتا فاؤنٹین پین تھا۔ 
 آج بھی کئی ادیب اور شاعر ایسے مل جائینگے جو عمدہ قلم کے ساتھ عمدہ کاغذ کا بھی ذوق رکھتے ہیں۔ شاید اس لئے کہ خیال اُن کے سروں پر اُس وقت تک منڈلاتا رہتا ہے اور گرفت میں نہیں آتا جب تک وہ قلم اور کاغذ لے کر بیٹھ نہ جائیں۔ ادیبوں اور شاعروں کی بعض تصاویر اس کا ثبوت ہیں جن میں وہ قلم اور کاغذ لئے بیٹھے ہیں اور کچھ سوچ رہے ہیں۔ وقت کے ساتھ یہ ساری باتیں قصہ ٔ پارینہ ہوگئی ہیں۔ اعلیٰ اور عمدہ قلم تو کیا اب معمولی قلم بھی اپنی قدروقیمت گنوا بیٹھا ہے۔ تکنالوجی نے قلم اور کاغذ ہی کی حرمت کو پامال نہیں کیا، خوش خطی کی اہمیت کو بھی متاثر کیا ہے۔ ایک زمانے تک اسکولوں میں خوش خطی کے مقابلے ہوا کرتے تھے اور وہ طلبہ جو خوش خط ہوتے اُنہیں خوش قسمت سمجھا جاتا اور  انعام سے نوازا جاتا تھا۔ اُس دور میں خوش خط طلبہ اساتذہ کے پسندیدہ ہوتے اور بدخط ناپسندیدہ۔ بدخطوں کو ناپسند کرنے کا رجحان طلبہ تک محدود نہیں تھا۔ اُنہیں سماج میں بھی اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا تھا۔ انگریزی کے مشہور ادیب مائیکل انجیلو کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے ۱۵۴۹ء میں، جب اُن کی عمر ۷۵؍ سال تھی، اپنی بھانجی کو خط لکھا کہ ’’تم مجھے خط نہ لکھا کرو۔  جب بھی تمہارا خط آتا ہے اُس کی تحریر پڑھنے کی مشقت سے مجھے بخار ہوجاتا ہے۔‘‘
 قلم، کاغذ اور خوش خطی۔ کمپیوٹر اور کی بورڈ نے انہیں زندہ در گور کردیا ہے۔ بلاشبہ کمپیوٹر اور کی بورڈ کے اپنے فوائد ہیں جن سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ میرے دفتر میں کمپیوٹر آجانے کے باوجود مَیں کافی عرصے تک قلم اور کاغذ کا استعمال کرتا رہا۔ پھر وہ وقت آیا جب تھوڑا کام روایتی انداز میں کرتا اور بقیہ کمپیوٹر پر۔ کمپیوٹر کا جواب نہیں مگر اس میں ’’وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی۔‘‘ میرے پاس جتنے قلم تھے، اب دیکھتا ہوں تو کسی کی سیاہی سوکھ گئی ہے، کسی کی نب پر زنگ چڑھ گیا ہے، کوئی بدرنگ ہوگیا ہے اور کسی کو سینت سینت کر رکھنے کا اب کوئی جواز نہیں رہ گیا ہے۔ مشہور فارسی مثل ’’داشتہ آید بکار‘‘ کے خیال سے انہیں سنبھال کر رکھتا ہوں کہ کبھی تو ان کی ضرورت پڑے گی مگر کب تک؟ دستخط کرنے کے علاوہ قلم کا استعمال اب ہوتا ہی کہاں ہے! اور اب تو دستخط کا رواج بھی ختم ہوتا جارہا ہے۔ بینکوں اور دیگر اداروں کے کئی خطوط آپ دیکھ چکے ہوں گے جن پر دستخط نہیں ہے۔ اس کی جگہ لکھا ہے یہ کمپیوٹر سے بنایا گیا (کمپیوٹر جنریٹیڈ) خط ہے جسے دستخط کی ضرورت نہیں۔ 
 آگے بڑھنے سے قبل معافی کے ساتھ عرض کردوں کہ مجھے یہ ساری باتیں اس لئے یاد آرہی ہیں کہ آج (۲۳؍ جنوری) یوم خوش خطی (ہینڈ رائٹنگ ڈے) ہے۔ مَیں نے یہ تحقیق ضروری نہیں سمجھی کہ یہ دن کہاں کہاں منایا جاتا ہے اور اگر منایا جاتا ہے تو کس طرح۔ خوش خطی پر کچھ لکھنے کیلئے اتنا جان لینا ہی کافی محسوس ہوا کہ آج کا دن خوش خطی سے معنون ہے۔ خوش خطی یا عمدہ لکھائی انسان کا طرۂ امتیاز ہے۔ یہ انسان کو پُراعتماد بناتی ہے۔ آپ چاہیں اس کی قدر نہ کریں مگر جب کوئی شخص خوش خط لکھتا ہوا دکھائی دیتا ہے تو آس پاس کے لوگ حیرت سے اس کی جانب متوجہ ہوہی جاتے ہیں۔ سابقہ ادوار میں خوش خطی کے ماہرین کی بھی الگ پہچان تھی۔ وہ تحریر دیکھ کر کسی شخصیت کے راز کھول سکتے تھے۔ کہا جاتا تھا کہ جو لوگ چھوٹے حروف لکھتے ہیں وہ شرمیلے، پڑھاکو اور باریک بیں یا جزویات کا خیال رکھنے والے ہوتے ہیں جبکہ بڑے یا جلی حروف لکھنے والے دوسروں کی توجہ اپنی جانب مرکوز کرنے کے خواہشمند ہوتے ہیں۔ جو لوگ الفاظ کے درمیان زیادہ فاصلہ رکھتے ہیں وہ آزاد رہنا پسند کرتے ہیں انہیں بھیڑ بھاڑ پسند نہیں۔ اس کے برخلاف جو لوگ الفاظ کے درمیان کم فاصلہ رکھتے ہیں وہ تنہا رہنا پسند نہیں کرتے، دوچار دس لوگوں کے ساتھ رہنے کو فوقیت دیتے ہیں بلکہ یہ جاننے کے آرزو مند بھی ہوتے ہیں کہ کون کیا کررہا ہے۔ 
 تحریر شناسوں کے ایسے انکشافات کتنے درست اور کتنے نادرست تھے، مجھے اس کا اندازہ نہیں ہے مگر تحریر شناسی بحیثیت فن مسلمہ ہے، اور چونکہ مسلمہ ہے اس لئے مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ 
 طالب علمی کے زمانے میں اساتذہ ایک فارسی شعر سناتے تھے: ’’گر تو می خواہی کہ باشی خوش نویس=می نویس و می نویس و می نویس۔‘‘ ( اگر تو چاہتا ہے کہ خوش خط لکھے تو لکھتا جا اور لکھتا جا اور  لکھتا جا)۔ خدا اُن اساتذہ کی قبروں کو نور سے بھردے۔ اُنہوں نے خوش نویسی کی اہمیت نہ سمجھائی ہوتی تو غیر ممکن تھا کہ یوم خوش خطی پر اس مضمون نگار کو اس تحریر کی توفیق ہوتی ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK