Inquilab Logo

ہوں اگر شہروں سے بن پیارے تو شہر اچھے کہ بن؟

Updated: July 11, 2020, 10:43 AM IST | Shahid Latif | Mumbai

کورونا نے شہروں کو زیادہ ستایا ہے جبکہ دیہی علاقوں کے لوگ اس سے محفوظ ہیں ۔ اس کی کئی وجوہات میں سے ایک یہ ہے کہ دیہی آبادی فطرت سے اپنا رشتہ اب بھی برقرار رکھے ہوئے ہے۔ عنقریب چار مہینے مکمل ہوجائینگےکورونا کا درد اور اس کی وجہ سے نافذ کئے گئے لاک ڈاؤن کی اذیت سہتے ہوئے۔ ان کم وبیش چار مہینوں میں انسانی زندگی عجیب و غریب کیفیات سے گزری ہے۔ اس نے اپنی بے بسی اور بے بضاعتی کا مشاہدہ کیا ہے۔

For Representation Purpose Only. Photo INN
علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این

عنقریب چار مہینے مکمل ہوجائینگےکورونا کا درد اور اس کی وجہ سے نافذ کئے گئے لاک ڈاؤن کی اذیت سہتے ہوئے۔ ان کم وبیش چار مہینوں میں انسانی زندگی عجیب و غریب کیفیات سے گزری ہے۔ اس نے اپنی بے بسی اور بے بضاعتی کا مشاہدہ کیا ہے۔ وسائل کے غرور میں مبتلا ملکوں کے وسائل کی قلعی کھلتے اور غرور کا سر نیچا ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ یہ بھی ہوا ہے کہ ان چار مہینوں میں انسانی زندگی نے اپنے آپ سے ملاقات کی ہے۔ ممکن ہے اپنا محاسبہ اور یہ تجزیہ بھی کیا ہو کہ کورونا کی وباء نے شہروں بالخصوص بڑے شہروں کو جتنا متاثر کیا، اُتنا قصبوں اور دیہاتوں کو نہیں کیا۔ شہری آبادی ہلکان ہوتی رہی مگر دیہی آبادی نے معمول کے مطابق شب و روز گزارے۔ اپریل میں ملک کے ۷۳۱؍ میں سے ۳۵۴؍ اضلاع ایسے تھے جن پر کورونا کا سایہ بھی نہیں پڑا تھا۔ یہ دیہاتوں پر مشتمل اضلاع تھے۔ کافی عرصے تک ملک کا ہر دوسرا ضلع گرین زون میں تھا۔ اس لئے کہ یہ اضلاع اور یہاں کے لوگ سرسبزو شاداب علاقوں میں زندگی بسر کرتے ہیں ۔ دیہی علاقو ں میں کورونا کی دھمک اُس وقت سنائی دی جب شہروں سے پریشان حال لوگ ہجرت کرکے اپنے آبائی وطن لوٹے۔ اس کے باوجود آج بھی ملک کے دیہی علاقوں میں لاک ڈاؤن ہے بھی تو برائے نام۔ وہاں کے باشندوں کو گھر سے باہر نکلنے، سودا سلف لانے، چوپال پر بیٹھنے، عورتوں کو پنگھٹ سے پانی بھرنے او ر لڑکوں کو گھروں کے احاطے میں کھیلنے کودنے کی آزادی ہے۔ عام دنوں میں ممبئی جیسے شہروں کو حسرت سے تکنے والے یہ علاقے کورونا کے دور میں ان شہرو ں کو حیرت سے تک رہے تھے۔ 
 دیہی علاقوں ہی میں ہزاروں قبائل بھی آباد ہیں ۔ جھارکھنڈ اور چھتیس گڑھ میں ایک غیر سرکاری تنظیم سوسائٹی فار اِمپاورمنٹ نے سروے کیا تو معلوم ہوا کہ قبائلیوں کے رہن سہن کا طریقہ اور فطرت سے دوستی نے انہیں کورونا سے محفوظ رکھا ہے۔ سروے رپورٹ کہتی ہے کہ چولہے کی راکھ سے ہاتھ دھونے، چپل جوتے گھر میں نہ لانے، مل جل کر بیٹھتے وقت حسب مراتب کا خیال رکھتے ہوئے فاصلے سے بیٹھنے کی عادت اور دیہی یا گھریلو نسخوں سے قوت مدافعت بڑھانے کے طور طریقے ان قبائلیوں کے روزمرہ میں شامل ہیں چنانچہ جن احتیاطی تدابیر کو شہری آبادی نے کورونا کے خوف سے اختیار کیا وہ ان قبائلیوں کی زندگی کا حصہ ہیں ۔ رپورٹ کے مطابق، یہی وجہ ہے کہ چھتیس گڑھ میں بستر جیسے علاقے میں ۳۱؍ مئی تک کورونا کا ایک بھی مریض نہیں تھا۔ (ملاحظہ ہو مشہور ویب سائٹ ’’دی پرنٹ‘‘ میں ارون آنند کی رپورٹ)۔
 کورونا کی وباء کے پھیلاؤ کیلئے ’’کانٹیکٹ‘‘ کو بنیادی وجہ قرار دیا گیا ہے چنانچہ کہا جاسکتا ہے کہ دیہاتی و قصباتی زندگی اس لئے محفوظ رہی کہ یہ ’’کانٹیکٹ‘‘ میں نہیں آئی۔ یہ دلیل اپنی جگہ بالکل درست ہے مگر ایسے دور میں جبکہ شہری اور دیہی علاقوں میں آمدورفت کے ذرائع نے ہر دو طرح کے علاقوں کو ایک دوسرے سے براہ راست جوڑ رکھا ہے، لاک ڈاؤن شروع ہونے سے پہلے بھی کافی لوگوں نے شہروں سے دیہی علاقوں کا رُخ کیا ہوگا۔ اس کے باوجود یہ علاقے محفوظ رہے اور اب بھی بڑی حد تک محفوظ ہیں لہٰذا دیگر وجوہات کو مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ 
 کورونا کو موضوع نہ بنایا جائے تب بھی اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ دیہی علاقوں کے لوگ شہروں میں رہنے بسنے والوں کے مقابلے میں زیادہ صحتمند ہوتے ہیں ۔ ان کی صحت کا راز وہ’’ہری بھری‘‘ زندگی ہے جو اُن کی شناخت ہے۔ کھلی فضا میں سانس لینا اور محنت مشقت کرنا اُن کی دوسری شناخت ہے۔ شہروں میں ہری بھری زندگی ڈرائنگ روم کے وال پیپرس پر یا گھروں میں لگائے گئے آدھے فطری اور آدھے مصنوعی پودوں ہی میں نظر آتی ہےجو آکسیجن کی فراہمی یا فطرت سے قربت کے مقصد سے کم اور گھر کی خوبصورتی کے مقصد سے زیادہ لگائے جاتے ہیں ۔ شہری زندگی میں کثافت ہے، آلودگی ہے، ہیجان ہے، تشنج ہے اور خود فراموشی ہے اس کے باوجود علاقوں کو ’’شہریانے‘‘ (اربنائزیشن) کا جنون ہے کہ کم نہیں ہوتا۔ اسی جنون کا نتیجہ ہے کہ آج دُنیا کی ۵۰؍فیصد آبادی شہروں میں رہتی ہے جبکہ شہر انسانی زندگی سے اپنی قیمت وصول کئے بغیر نہیں رہتے۔ وہ زندگی کا ڈھرہ بدل دیتے ہیں ۔ 
 شہروں میں ’’جدید کاری‘‘ کی وجہ سےایک سے بڑھ کر ایک طبی سہولت دستیاب ہوتی ہے، لوگ بہت کچھ جاننے اور سمجھنے لگتے ہیں اس لئے اُمور صحت سے اُن کی واقفیت بڑھ جاتی ہے چنانچہ ان لوگوں کو دیہی آبادی کے مقابلے میں زیادہ صحتمند ہونا چاہئے مگر ایسا نہیں ہے۔ اربنائزیشن، موڈرنائزیشن کی علامت تو ہے مگر صحت بگڑنے پر اچھی طبی سہولت ملنا بہتر ہے یا صحت کا نہ بگڑنا بہتر؟ 
 ستم ظریفی یہ ہے کہ ہزار خرابیوں کے باوجود سماجی، معاشی، تعلیمی، ہر زاویئے سے کشش شہر ہی میں محسوس ہوتی ہے چنانچہ ضرورت تھی کہ ’’شہریانے‘‘ کے ماہرین شہروں کی تعمیر میں انسانی زندگی کی نزاکتوں اور ضرورتوں کو ملحوظ رکھتے مگر ان کی ناقص منصوبہ بندی نے شہر بسانے سے پہلے اُجاڑے ہیں اور لوگوں کے سانس لینے سے پہلے فضا میں کثافت گھولی ہے۔کاش ہم ہوا سے پوچھ پاتے او رہوا ہمیں بتا پاتی کہ شہروں میں داخل ہوتے ہوئے اسے کیا محسوس ہوتا ہے اور کانکریٹ جنگل دیکھ کر اس پر کیا گزرتی ہے۔ اگر اسے گویائی اور ہمیں اس کی سرگوشی کو سمجھنے کی صلاحیت حاصل ہو جائے تو بہت ممکن ہے کہ ہوا اپنی بپتا سنائے کہ شہروں میں تو اس کا بھی دم گھٹتا ہے۔ 
 حد تو یہ ہے کہ جو لوگ دیہی علاقوں سے شہروں کا رُخ کرتے ہیں وہ بھی اپنے عادات و اطوار بھول کر شہری طور طریقے اپنا لیتے ہیں جہاں رہنے بسنے والوں نے ماحول سے دوستی کا سبق بھلا دیا ہے۔ اب یہا ں ہر ایک نے طلوع وغروب آفتاب کے نظارے فراموش کردیئے ہیں ۔ درختوں اور پھول پتیوں سے گفتگو ترک کردی ہے۔ پرندوں ، تتلیوں اور جگنوؤں سے اپنائیت کا رشتہ ختم کردیا ہے۔ مٹی کی سوندھی خوشبو سے رابطہ توڑ لیا ہے۔ کھل کر سانس لینے کی انہیں کبھی یاد بھی نہیں آتی اور ندی، تالاب اور جھرنوں سے اپنائیت پر غیریت کے پردے پڑ چکے ہیں ۔ یہ فطرت سے بغاوت ہے جس کا خمیازہ شہروں میں رہنے والے بھگتتے ہیں اور اکثر بے مزا نہیں ہوتے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK