Inquilab Logo

عوام کی آنکھیں بند ہوں ہو تو کوئی بھی سرکار اپنی ناکامیوں کو کامیابی بتا کر جشن منا سکتی ہے

Updated: May 31, 2020, 4:03 AM IST | Qutbuddin Shahid

تنازعات کے درمیان مودی حکومت نے اپنی دوسری اننگز کا پہلا سال مکمل کرلیا ہے اور اب وہ اس کا جشن منا رہی ہے۔مسلسل ناکامیوں کے درمیان مودی حکومت اگر جشن کے اہتمام کی ہمت جٹا پارہی ہے تو اس میں حکومت کی بہادری کم، عوام کی کمزوری ، نااہلی اور بے حسی زیادہ ہے۔ ملک کے دستوری اداروں کو کمزور کرکے خود کو مضبوط ثابت کرنےوالی یہ حکومت ایسے وقت میں جشن منارہی ہے جب اس کی ناکامیوں سے پورا ملک پریشان ہے، اس کے دیئے ہوئے زخموں سے چور چور ہے اور کراہ رہا ہے

Migrant Worker - Pic : PTI
مہاجر مزدور ۔ تصویر : پی ٹی آئی

اس سے قبل کہ میں اپنی بات کا آغاز کروں، آئیے ایک  لطیفہ سنتےچلیں، جو ہے تو بہت پرانا مگر اس میں آج کے حالات کی بہترین عکاسی  نظرآتی ہے۔
 دوردرازعلاقےمیں تعینات ایک فوجی افسربہت دنوں بعد اپنے گاؤں پہنچا۔ راستے ہی میں  اسے اُس کا گھریلو ملازم مل گیا۔ ملازم سے اس نے اپنے گھر کے حالات پوچھے تو  اس نے کہا:باقی سب خیریت ہے، بس آپ کا کتا مرگیا ہے۔فوجی نے کہا: میرا کتا مرگیا ،مگر کیسے؟
 سر! وہ آپ کی مری ہوئی بھینس کا گوشت کھا کر کیسے زندہ رہ سکتا تھا؟
 اوہ!تو کیا میری بھینس بھی مرگئی؟
 ہاں سر! وہ بہت دنوں تک بھوک برداشت نہیں کرسکی!
 مگر میں تو تمہیں اس کی خوراک کیلئے پیسے دے کر گیا تھا، وہ کہاں گئے؟
 وہ تو آپ کی والدہ کی آخری رسوم میںخرچ ہو گئے!
 یا خدا! تو کیا میری والدہ کا بھی انتقال ہوگیا ہے؟
 جی ہاں! وہ  شیرخوار پوتے کا غم کیسے برداشت کرتیں!
  تو کیا میرا بچہ بھی......؟؟
  جی سر! ماں کے بغیر بھلا کوئی چھوٹا بچہ کیسے اور کتنے دن زندہ رہ سکتا ہے؟
 یا خدا!تو کیامیری بیوی بھی اب اس دنیا میں نہیں رہی؟
 ہاں سر! گھر کی چھت گرگئی تھی، وہ اس کے نیچے ہی دب گئیں!.... فوجی نے کہا:اُف خدایا! کچھ بچا بھی ہے؟
  ہاں سر! باقی سب خیریت ہے۔
 ان دنوںکچھ یہی کیفیت یہاں بھی ہے۔بہت ساری تباہیوں، بربادیوں اور پریشانیوں کے بعد بھی سب خیریت ہے، اسلئے جشن منایا جارہا ہے۔ حکومت کی نااہلی کی داستان پورے ملک میں بکھری پڑی ہے،  ملک کا چپہ چپہ اس کاگواہ ہے۔ کورونا کی تباہی پورے شباب پر ہے۔۲۵؍ لاکھ سے زائد  افراد قرنطینہ میں ہیں، ایک لاکھ کےقریب اسپتال میں ہیں۔  روزانہ ۸؍ ہزار متاثرین سامنے آرہے ہیں اور اوسطاً تین سو افراد کورونا سے شکست کھا کر داعی اجل کو لبیک کہہ رہے ہیں۔ اسپتال میں ناقص انتظامات کی ہر سوچرچا ہے۔  اس دوران ’امفان‘ کی وجہ سے بھی لاکھوں افراد بے گھر ہوئے اور اب ٹڈیوں کا قہر برپا ہے جس نے کسانوں کی نیند حرام کردی ہے۔ مہاجر مزدوروں کا مسئلہ ہنوز حل نہیں ہوسکا ہے۔ سڑکوں پر اموات کا سلسلہ جاری ہے۔ ٹرینیں راستہ بھٹک رہی ہیں۔ حکومتیں عدالتوں اور بین الاقوامی اداروں سے ڈانٹ سن رہی ہیں مگر بے حسی یوں ہی طاری ہے۔بے روزگاری کی وجہ سےایک بڑا طبقہ نان شبینہ کا محتاج بنا ہوا ہے۔معیشت پوری طرح سے چرمرا گئی ہے۔ میڈیا پر سینسر ہے، جبراً آواز دبانے کی کوشش کی جارہی ہے۔اپوزیشن جماعتوں  اور سماجی اداروں کا ناطقہ بند ہے۔ کسی نے آواز بلند کرنے کی جرأت کی تو اس کے پیچھے تفتیشی ایجنسیاں چھوڑ دی جاتی ہیں۔عدالتوں پر بھی پہرہ ہے۔ اس کے باوجود حکومت جشن منا رہی ہے کیونکہ باقی سب خیریت ہے۔
  حکومت دیدہ دلیری پر آمادہ ہے اور یہ دیدہ دلیری عوام ہی کی وجہ سے اس میں آئی ہے کیونکہ عوام کے ایک طبقے نے اپنی آنکھوں پر پٹیاں باندھ رکھی ہیں اور جن کی کھلی ہیں، ان میں حکومت کے احتساب کی طاقت نہیں رہی۔ عوام نے سوال پوچھنا چھوڑ دیا ہے کیونکہ حکومت کو سوال پوچھنے والے پسند نہیں ہیں۔ اس کے باوجود اگر کچھ لوگ اس کی جرأت کرتے ہیں تو انہیں غدار وطن قرار دیا جاتا ہے اور انہیں جیلوں میں ٹھونس دیا جاتا ہے۔صحافیوں کو ’گدھ‘ اور سماجی کارکنان کو ’موت کا پیمبر‘کہا جاتا ہے۔ عدالت ہی میں عدالت پر انگشت نمائی کی جاتی ہے اوراس پر متوازی حکومت چلانے کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔ الیکشن کمیشن، سی وی سی، سی بی آئی، این آئی اے، ای ڈی ، آر ٹی آئی اور انکم ٹیکس جیسے اداروں کے بعدرفتہ رفتہ اب عدالتوں کو بھی کنٹرول کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ گجرات ہائی کورٹ کے جج جے بی پاردی والا نے  گجرات سرکار کو آئینہ دکھایا تو ان کے بنچ میں تبدیلی کرکے انہیں جونیئر بنا دیاگیا ۔اس سے قبل دہلی ہائی کورٹ  میں جسٹس مرلی دھر نے مرکزی وزیر انوراگ ٹھاکر، بی جے پی لیڈر پرویش ورما اور کپل مشرا کے خلاف کارروائی کرنے کاحکم دیا تو راتوں رات انہیں پنجاب اور ہریانہ کورٹ بھیج دیا گیا۔ یہاں صرف  تبادلے پر اکتفا نہیں کیاگیا بلکہ ان کے ساتھ وہاں بھی امتیازی سلوک کیاگیا۔ پنجاب ہائی کورٹ میںجسٹس مرلی دھر دوسرے سینئر ترین جج ہیں لیکن انہیں وہاں ٹیکس معاملوں کی سماعت کی ذمہ داری دی گئی جبکہ اس سے قبل ساتویں سطح کی بنچ  اس طرح کے معاملات دیکھتی تھی۔اس پر پنجاب ہا ئی کورٹ کے وکلا نے اعتراض بھی کیا لیکن....موجودہ حکومت اعتراض کو خاطر میں کب لاتی ہے؟اس سے قبل مودی حکومت نے جسٹس عقیل قریشی کو مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کا چیف  جسٹس  بنانے سے  انکار کر کے کولیجیم کو اپنا فیصلہ بدلنے پر مجبور کردیا تھا۔عدالت پر حکومت کے دباؤ کی کچھ باتوں کی جانب سپریم کورٹ کے سبکدوش جج جسٹس دیپک گپتا نے بھی   اشارہ کیا ہے۔  اس کے باوجود اگر عوام خاموش ہیں تو.... حکومت جشن نہیں منائے گی تواور کون منائے گا؟
 ۲۴؍ مارچ کو ۴؍ گھنٹے کی مہلت کے ساتھ حکومت نے  ۲۱؍ دنوں کے لاک ڈاؤن کاا علان کیاتھا جس کو اَب ۷۰؍ دن سے زیادہ ہوچکے ہیں اور ابھی تک لاک ڈاؤن ختم نہیں ہوا، نہ ہی اس کے آثار نظر آرہے ہیں۔ اس دوران ملک بھر میں مہاجر مزدوروں پر جو آفت آئی، وہ بیان سے باہر ہے۔ جنہوں نے حکومت کا یہ ستم جھیلا ہے، یا جن گھروں کے وہ فرد تھے، ان کو جانے دیں..... وہ تمام لوگ بھی اپنے آنسوؤں کو روک نہیں سکے ، جنہوں نے تباہی کے وہ مناظر دیکھے۔ ۱۶؍ افراد اورنگ آباد میں ٹرین سے کٹ گئے، یوپی اور بہار کے مختلف جگہوں پر سڑک حادثے میں درجنوں مزدور لقمہ اجل بن گئے، کچھ مزدور بھوک سے تو کچھ سفر کی صعوبتوں کو برداشت کرتے کرتے مر گئے۔ کچھ بچوں نے ماؤں کی گود میں دم توڑ دیا تو کچھ مائیں بچوں کو بھوک سے بلبلاتا چھوڑ گئیں۔ ایسے  میں حکومت کا یہ دعویٰ ہے کہ اس نے ٹرین سے ۵۲؍ لاکھ مزدوروں کو ان کے گھروں تک پہنچایا۔اس دعوے میں کتنی سچائی ہے، یہ تو و ہی جانے لیکن اس سے یہ ضرور اندازہ ہوتا ہے کہ بغیر تیاری کے لاک ڈاؤن سے اس نے کتنے مزدوروںکو پریشان کیا۔ اس درمیان ایک اور عجیب و غریب بات یہ ہوئی کہ کئی ٹرینیں راستہ بھول گئیں،اس کی وجہ سے۳۰؍ گھنٹے کا سفر ۱۰۰۔۱۰۰؍ گھنٹوں میں طے ہوا۔ ایسا  شاید پہلی بار ہوا۔ نتیجتاً کئی مسافر بھوک اور پیاس سے مرگئے کیونکہ ان ٹرینوں میں حکومت نے پینٹری کارکا  انتظام نہیں کیا تھا۔ ریلوے کا کہنا ہے کہ ٹرینیں راستہ نہیں بھولیں بلکہ ’روٹ بزی‘ ہونے کی وجہ سے ۷۱؍ ٹرینوں کا راستہ تبدیل کیاگیا تھا، جس کی وجہ سے انہیں اپنی منزل تک پہنچنے میں تاخیر ہوئی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس وقت ملک  بھر میں لاک ڈاؤن ہے اور ساری ٹرینیں بند ہیں، کیا ایسے وقت میں بھی ’روٹ بزی‘ ہوسکتا ہے؟اس کے بعد بھی اگر عوام خاموش ہیں تو حکومت کو جشن منانے کا پورا پورا حق ہے۔خارجی سطح پر بھی ملک کی حالت ابتر ہے۔ امریکہ اور چین کی دھمکیاں تو ہم سنتے ہی رہتے  تھے، اب نیپال جیسا ملک بھی آنکھیں دکھا رہا ہے جس کی بیشتر بنیادی ضرورتوں کی تکمیل ہندوستان کرتا ہے۔  
 ان حالات میں بھی حکومت اگر جشن منا رہی ہے تو اُسے کون روک سکتا ہے؟ کیونکہ اسے آج بھی اکثریتی عوا م کی حمایت حاصل ہے۔ وہ تمام لوگ جو حکومت کی نااہلی سے پریشان ہیں بلکہ وہ لوگ بھی جن کے پیروں میں پیدل چلتے چلتے  چھالے پڑگئے ہیں اور جن کے گھروں میں لوگ بھوک سے مرے ہیں، وقت آنے پر وہ پھر اسی حکومت کے ساتھ کھڑے ہو سکتےہیں کیونکہ ایک بار پھر انہیں مسلمانوں  سے ڈرایا جائے گا۔نوٹ بندی کے بعد بھی ایسا ہی ہوا تھا۔
 ایسا کیوں ہوتا ہے؟اس پر اُن سے زیادہ ہمیں سوچنا ہے  اور ہمیں اپنا محاسبہ کرنا ہے کہ اکثریتی طبقے کے دلوں میں ہمارے تئیں اتنا خوف اور اتنی نفرت کیوں ہے؟ آخرایسی کیا بات ہے کہ صرف ہم مسلمانوں سے بچنےکیلئے وہ انہیں گلے لگانے پر مجبور ہیں جن سے انہیں اتنی زیادہ پریشانیاں ہیں؟
  دراصل وطن عزیز میں ہماری شبیہ  ایک’لینے والے‘ کی  ہے جبکہ ہمیں ’دینےوالا‘ بننا چاہئے۔ اس لاک ڈاؤن میں یقیناً ہم نے کافی کچھ فلاحی کام کئےاور پریشان حال افراد کی  مدد بھی کی لیکن یہ کافی نہیں۔ہمیں  وقتی نہیں بلکہ کل وقتی طور پر اس قسم کے فلاحی کام انجام دینے ہوں گے۔اسی طرح ہمیں فسادی،   چور اُچکا، گندہ اور بے ایمان بھی سمجھاجاتا ہے۔ اسلئے  اخلاقی اور سماجی سطح پر بھی ہمیں اپنی اصلاح کرنی ہوگی۔ اگرہم اپنی شبیہ بدلنے میں کامیاب ہو گئے تو یہی لوگ جو ہم سے بچنے کیلئے سرکار کی مدد لے رہے ہیں، سرکار بدلنے کیلئے ہماری مدد لینے پر مجبور ہوںگے

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK