Inquilab Logo

بہار میں اُردو کے ساتھ سرکار اور اُردو والوں کا سوتیلا سلوک

Updated: September 13, 2020, 5:10 AM IST | Dr Mushtaque Ahmed

ریاست بہار میں اُردو کو بظاہر دوسری سرکاری زبان کا ’درجہ‘ حاصل ہے لیکن اُردو کے ساتھ نتیش حکومت کا جو رویہ ہے، وہ افسوسناک ہے، موقع ملنے پر اُردو والوں کو بہار حکومت سے اس سلوک کا حساب ضرور لینا چاہئے لیکن اسی کے ساتھ اردو والوںکو اپنا بھی احتساب کرنا ہوگا کہ انہوں نے اردو کے ساتھ کس طرح کارویہ اپنا رکھا ہے؟ اور یہ کہ انہیں اب کیا کرنا چاہئے؟

Urdu Academy Bihar - Pic : INN
اردو اکیڈمی بہار ۔ تصویر : آئی این این

بہار میں قانون ساز اسمبلی کا انتخاب ہونا ہے ۔ امروز فردا میں تاریخ کا اعلان بھی ہو جائے گا کہ۲۴؍ نومبر سے پہلے نئی اسمبلی کی تشکیل ہونی ہے۔ اسلئے ان دنوں راجدھانی پٹنہ سے لے کر چوک چوراہے تک طرح طرح کے مسائل پر بحث ومباحثہ کے ساتھ ساتھ مظاہرے بھی ہونے لگے ہیں۔اس وقت ایک بڑا مسئلہ اُردو کا بھی درپیش ہے کہ حال ہی میں حکومتِ بہار نے اسکولی تعلیم میں اردو کو اختیاری مضمون بنا دیاہے۔ گزشتہ مئی میں ایک حکم نامہ کے ذریعہ اردو اساتذہ کی تقرری حکومت نے اپنے ہاتھ میں رکھی ہے لیکن کس اسکول میں کس موضوع کے اساتذہ ہوں گے؟ اس کا اختیار اسکول کے ہیڈ ماسٹر کو دے دیا گیاتھا جس سے اُردو آبادی کو ایک اندیشہ لاحق ہوگیا کہ اردو کے ساتھ حق تلفی ہو سکتی ہے لہٰذا جمہوری طرز پر مطالبہ شروع ہوا اور حکومت نے ایک دوسرانوٹیفکیشن جاری کیا اور اس میں اردو کو اختیاری مضمون بنا دیا ۔ اب اس کے خلاف آواز بلند ہو رہی ہے۔ ظاہر ہے کہ جمہوریت میں ہر طبقے کو یہ آئینی حقوق حاصل ہے کہ وہ اپنے حقوق کی بازیابی کیلئے جمہوری طریقے سے آواز بلند کرے لہٰذا اردو آبادی بھی تحریک چلا رہی ہے۔
 اس تحریک میں شامل تمام لوگوں کے جذبے کو سلام کہ وہ اردو کی بقا کیلئے فکر مند ہیں لیکن اردو کے تعلق سے ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ کسی بھی زبان کا فروغ صرف سرکاری مراعات سے یا احکامات سے نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس زبان کے چاہنے والے اس کی تعلیم کے تئیں بیدار اور سنجیدہ نہ ہوں۔افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ بہار میں اُردو کی سیاست کی جڑیں بہت گہری ہیں لیکن زمینی سطح پر عملی طورپر خانہ پُری زیادہ ہوئی اور اس میں اُردو والے کم قصوروار نہیں ہیں۔ ۸۰ء کی دہائی میں اردو کو ریاست میں دوسری سرکاری زبان کا درجہ دیا گیا ، حکومت نے تمام اضلاع اور بلاک دفاتر میں اردو مترجم کے عہدے منظور کئے اور تمام جگہوں پر اردو مترجم، نائب مترجم اور اردو ٹائپسٹوں کی بحالی ہوئی ۔ محکمہ راج بھاشا کے تحت اردو کے فروغ کیلئے طرح طرح کی اسکیمیں بنائی گئیں لیکن اس تلخ سچائی کو اردو والے قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں کہ آج کسی بھی بلاک میں اردو میں درخواستیں نہیں دی جا رہی ہیں اور تمام اردو مترجم اردو کے علاوہ دوسرے کاموں میں مصروف ہیں ۔ کیا کل اگر ان مترجم کے عہدے کو ختم کردیا جائے کہ جس کام کیلئے ان کو رکھا گیا تھا، اس کی ضرورت ہی نہیں رہی تو پھر ہمارے جمہوری مطالبے کا حشر کیا ہوگا؟ اس پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے ۔ محکمہ راج بھاشا کو اُردو کی ترقیکیلئے فنڈ مل رہے ہیں، اس فنڈ کا خرچ ہونا ضروری ہے اور ہو رہا ہےلیکن محکمہ کا جو بنیادی کا م تھا، وہ کہیں گم ہو کر رہ گیا ہے ۔ اس کیلئے حکومت سے زیادہ ہم اردو والے ذمہ دار ہیں مگر ہم اس حقیقت کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں ۔ اسی طرح سرکاری اسکولوں میں اردو طبقے کے بچے اردو سبجکٹ نہیں لے رہے ہیں ۔جہاں اساتذہ نہیں ہیں وہاں ہماری مجبوری ہو سکتی ہے لیکن جہاں اساتذہ ہیں وہاں اگر اردو آبادی کے بچے اردو نہیں پڑھ رہے ہیں تو اس کیلئے ذمہ دار کون ہیں؟
 کسی بھی زبان کی ترقی کا انحصار اس کی تعلیم اور اس کے رسم الخط کے فروغ پر ہے لیکن ہم تعلیم اور رسم الخط کے فروغ سے زیادہ جشنِ اردو میں مصروف ہیں اور اردو کی پستی کیلئے کسی اور کو ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں۔اسی طرح کسی بھی زبان کے ادب کے فروغ کیلئے رسائل وجرائد کی اشاعت اور اس کی فروخت بھی لازمی ہے لیکن آج چھوٹے بڑے شہروں کے ادبی رسائل کے دکانداروں کا دکھڑا کبھی سن لیجئے پھر پتہ چلے گا کہ اردو رسائل وجرائد کی دنیا کتنی اندھیری ہو چکی ہے؟
  شمالی بہار کے دربھنگہ میں گزشتہ نصف صدی سے ادبی رسائل وجرائد کے تاجر ایم ایچ بک سیلر ، رحم خاں نے بتایا کہ ایک زمانہ تھا کہ یہاں ’’آج کل، تہذیب الاخلاق، نیا دور، شمع،بانو، کھلونا، بیسویں صدی، پاکیزہ آنچل، شاہراہ اور ہمایوں ‘‘ جیسے درجنوں ادبی او ر نیم ادبی جرائد ورسائل کی سو سو کاکاپیاں دیکھتے ہی دیکھتے نکل جاتی تھیں آج دس پانچ کاپیاں بھی نہیں نکلتیں بلکہ’ آج کل ، نیا دور ، تہذیب الاخلاق‘ جیسے پرچے کی فروخت نہ ہونے کی وجہ سے انہوں نے منگوانا بند کر دیا ہے  جبکہ شہر میں اردو پڑھنے والے کی تو چھوڑئیے اردو اساتذہ کی تعداد سو سے زیادہ ہے مگر دس پرچے فروخت نہیں ہوتے۔ کچھ اسی طرح کا حال فہمی بک ایمپوریم سبزی باغ ،پٹنہ نے بھی بیان کیا کہ اب بیشتر اردو کے ادبی رسائل وجرائد کی خریداری بند کردی ہے کہ اب اس کے خریدار نہیں رہے جبکہ بک ایمپوریم سبزی باغ آزادی کے قبل سے قائم ہے اور تمام طرح کے ادبی رسائل وجرائد کا مرکز رہا ہے۔
 کیا ہم اردو والوں نے کبھی اس پر بھی غور کیا ہے ؟اردو معاشرے میں اردو کی بے رخی سے صرف اردو رسائل وجرائد کے تاجر ہی مایو س نہیں ہیں بلکہ اردو کی ماحول سازی میں جو لوگ شامل تھے وہ بھی فکر مند نظر آتے ہیں ۔ حال ہی میں شمالی بہار کے ایک معروف قوال بدر شہنواز سے ملاقات ہوئی ۔ انہوں نے جو صورتحال بیان کی وہ بہت ہی افسوسناک ہے ۔ بقول ان کے اب قوالی کا رواج ہی ختم ہوگیا ہے ۔ ظاہر ہے کہ اب تفریح کے بہت سے ذرائع موجود ہیں ، اسلئے قوالی کی طرف توجہ نہیں رہی لیکن ان کا کہنا یہ تھا کہ نئی نسل چوں کہ اب اردو کی لذت سے محروم ہوگئی ہے، اسلئے بھی قوالی کا چلن ختم ہوگیا ہے۔ بس خانقاہوں تک قوالی محدود ہو گئی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اردو کو غیر اردو داں طبقے تک پہنچانے میں قوالی کا بہت بڑا کردار رہا ہےبلکہ قومی یکجہتی کو بھی فروغ دینے میں ان کی خدمات سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔
 بہت دنوں کی بات نہیں ہے ، دودہائی پہلے تک قوالی کا بول بالا تھااور شمالی بہار میں درجنوں ایسے قوال تھے جن کی قومی سطح پر پہچان تھی ان میں بدر شہنواز ، ذاکروشاکر شکروی کو امتیازی حیثیت حاصل تھی ۔ اس کے علاوہ امتیاز بھارتی، نسیم کوثر، منور تاج، افروز اقبال، حبیب پرویز، اسلم چشتی، اظہار چاند، تارا کلکتوی،بچہ بھارتی، مسرور پردیسی، وسیم آزاد، شبیر چشتی، نیاز اجمیری، شکیل بھارتی، جہانگیر صابری، حنا وارثی، رینا وارثی، رونق پروین، ریشما پروین، صبا رنگیلی، روحی رنگیلی،انجم ادا ، اور لیلیٰ صابری قابلِ ذکر ہیں ۔ان میں تو بہت سے فوت کرگئے اور جو باقی ہیں وہ کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں کہ اب قوالی یادِ ماضی بن کر رہ گئی ہے۔بدر شہنواز خود شاعر بھی ہیں اور وہ ان دنوں کو یاد کرتے ہیں کہ جب اردو معاشرے میں چوک چوراہے پر بھی شعروشاعری کا ماحول تھا اور جس طرف سے وہ نکلتے تھے لوگ انہیں شعر سنانے کی فرمائش کرتے تھے۔ وہ یہ جملہ کہتے ہوئے ’’کہاں گئے وہ اردو کے دن‘‘ آبدیدہ ہو جاتے ہیں۔انہیں یہ بھی شکایت ہے کہ اب اردو معاشرے کے بچے انگریزی زدہ ہوگئے ہیں اور اردو کا ماحول ختم ہوتا جا رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ صرف سرکاری مراعات سے اگر کوئی زبان زندہ رہ سکتی تھی تو آج سنسکرت کا چہار طرف بول بالا ہوتا کہ مرکزی اور ریاستی حکومتوں کے ذریعہ سنسکرت پر جتنے پیسے بہائے جا رہے ہیں کسی اور زبان کیلئے نہیں بلکہ قومی زبان ہندی کیلئے بھی نہیں کہ آج بھی جنوبی ہند میں اردو کا چلن شمالی ہند کی طرح نہیں ہو سکا ہے ۔ البتہ جنوبی ہند میں اردو کی فضا سازگار ہورہی ہے کہ وہاں کی اردو آبادی نے اردو کے فروغ کیلئے طرح طرح کے اقدامات کئے ہیں۔ مہاراشٹر اور کرناٹک میں اردو میڈیم اسکولوں کے جال بچھ گئے ہیں اوریہ سبھی سرکاری نہیں ہیں۔ان علاقوں میں اردو کتب ورسائل کے فروخت کا ریکارڈ قائم ہے کہ گزشتہ سال قومی کونسل کے ذریعہ مالیگائوں (مہاراشٹر) میں منعقد اردو میلہ میں لاکھوں کی کتابیں اور بچوں کے رسائل فروخت ہوئے تھے۔ آج بھی یہ ماحول بر قرار ہے مگر بہار اور اترپردیش جہاں کبھی اردو کا جادو سرچڑھ کر بولتا تھا، وہاں یہ زبان بے دخل ہوتی جا رہی ہے۔ حکومت سے مطالبہ آئینی حق ہے اور اس کیلئے جد وجہد جاری رہنی چاہئے اور جو لوگ اس تحریک میں شامل ہیں وہ قابلِ مبارکباد ہیں لیکن اردو آبادی کیلئے یہ عمل بھی ضروری ہے کہ وہ بلاک وضلع دفاتر میں اردو میں درخواست دیں اور اپنے بچوں کو سرکاری اور غیر سرکاری اسکولوں میں اردو مضامین کے ساتھ تعلیم کی تلقین کریںتاکہ اردو رسم الخط زندہ رہ سکے اور اس زبان کی تہذیبی شناخت قائم ودائم رہ سکے ۔ یہ ایک لمحۂ فکریہ ہے ۔ فرصت میں اس پر بھی سنجیدگی سے بحث ومباحثہ ہی نہیں عملی اقدام کرنے کی بھی ضرورت ہے ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK