Inquilab Logo

اس بہانے ہی مَیں ہوجاؤں مکمل بیدار

Updated: January 25, 2020, 1:32 PM IST | Shahid Latif

ملک کے کئی شہروں میں احتجاج جاری ہے ۔ اس میں شرکت کرنے والوں اور اُنہیں شرکت کرتا ہوا دیکھنے والوں کو اپنے اندر یہ عزم پیدا کرنے کی ضرورت ہے کہ اُن کی قربانیاں سی اے اے کی واپسی تک محدود نہیں بلکہ جمہوریت کے استحکام کیلئے آئندہ بھی جاری رہیں گی۔

شہریت ترمیمی قانون اور این آر سی کیخلاف احتجاج جاری ہے
شہریت ترمیمی قانون اور این آر سی کیخلاف احتجاج جاری ہے

ابراہم لنکن کی سوانح لکھنے والے امریکی شاعر کارل سینڈبرگ (پیدائش: ۱۸۷۸۔ انتقال: ۱۹۶۷) کی ایک نظم ’’مَیں عوام ہوں، مجمع ہوں ‘‘ کا مرکزی خیال یہ  تھا کہ عوام جب تک خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں تب تک اُن کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی مگر جب اُن میں لب کشائی کی جرأت پیدا ہوتی ہے تب اُن کے آگے کوئی نہیں بول سکتا۔ اس نظم کا آزاد ترجمہ کچھ اس طرح ہوسکتا ہے: 
 ’’میں عوام ہوں/ مجمع ہوں/  بھیڑ ہوں/ جمگھٹا ہوں/  ہر کارِ عظیم میرا مرہون منت ہے/  میں مزدور ہوں /  موجد ہوں / کھانا پکاتا ہوں/  کپڑا بنتا ہوں/  میں وہ جم غفیر ہوں جو لمحات کو تاریخ میں ڈھلتا دیکھتا ہے/  نپولین میری ہی صفوں سے اُٹھتے ہیں/ لنکن میرے ہی خیموں سے اُبھرتے ہیں/  مگر جب اس دارِ فانی سے کوچ کر جاتے ہیں/  تب میں (اپنی صفوں سے) نئے نپولین اور لنکن برآمد کرتا ہوں! .......مَیں تخم زمیں ہوں/  درختوں سے خالی گھاس کا میداں/  طوفان بلاخیز مجھی پر سے گزرتے ہیں/  مگر میں بھول جاتا ہوں/  مری محنت اکارت ہوتی جاتی ہے /  مگر میں بھول جاتا ہوں/  ماسوا موت، ہر شے مجھ تک آتی ہے/  اور مجھے مصروف کار رکھتی ہے/  پھر کچھ چھین لیتی ہے/  مگر میں بھول جاتا ہوں/ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے/  میں غراتا، لرزتا ہوں/  اور اپنا خوں بہاتا ہوں/  تاکہ تاریخ یاد رکھے/ مگر میں بھول جاتا ہوں/  میں عوام ہوں/  اگر کچھ یاد رکھنا چاہوں/ گزشتہ کا سبق تازہ کروں/  تو یہ احساس جاگے گا/  کہ کس کس نے مجھے لو‘ٹا/ فریب مسلسل دیا/  اگر سب یاد آجائے /  کسی میں تاب گویائی نہ ہو/ عوام کہہ کر کوئی مجھ سے مخاطب نہ ہو/ کسی کی آواز میں زہرخند نہ ہو/ تمسخر نہ ہو ....... جس دن یہ ہوگا/  تب ہی منصہ شہودپر عوام ہوں گے/  مجمع ہوگا/  بھیڑ ہوگی/  جمگھٹا ہوگا!!
 اس نظم میں عوام کے جس مجمع کا ذکر ابتدائی بند میں کیا گیا ہے وہ اہل سیاست کی تقریر سننے اور تالیاں بجانے والی بھیڑ ہے مگر جب وہی بھیڑ بہت کچھ سوچ کر، حالات کا تجزیہ کرکے یہ محسوس کرتی ہے کہ اُسے تو دام فریب میں جکڑ لیا گیا ہے اور اپنی مٹی سے اُس کی محبت بے قیمت اور محنت بے وقعت ہے بلکہ اُس کا وجود بھی بےمعنی ہے، تب تالیوں کیلئے اُٹھنے والے ہاتھ نعرہ ٔ انقلاب کے ساتھ لہرانے والے ہاتھوں میں تبدیل ہوجاتے ہیں اور بھیڑ کا ایک ایک شخص اپنی اس ادا سے خود تقویت پاتا ہے۔ 
 علی سردار جعفری نے کم و بیش اسی خیال کو ’’جمہور کا اعلان نامہ‘‘ میں بڑی خوبصورتی سے یہ کہتے ہوئے بیان کیا تھا: 
 ’’زمانے کے انداز بدلے گئے / نئے راگ ہیں ساز بدلے گئے / مبارک زمانے کو یہ انقلاب/ محبت کے جذبے اُبھاریں گے ہم/  پریشان زلفیں سنواریں گے ہم / پھلے اور پھولے گا بھارت کا باغ / جلیں گے ہر اک گھر میں گھی کے چراغ /  وہ شاداب چہرو ں پہ ہوگا نکھار / کہ جھینپیں اجنتا کے نقش و نگار / نئی دیں گے ماتھے کو تنویر ہم / بدل دیں گے انساں کی تقدیر ہم۔ ‘‘ 
 دراصل جمہوریت وہی ہے جس میں عوام اپنی قسمت کا فیصلہ خود کریں مگر ہوتا اس کے برعکس ہے جس کے نتیجے میں عوام کی حکومت، عوام کے ذریعہ اور عوام کیلئے نہیں رہ جاتی بلکہ ایک گروہ یا ایک جماعت کی جاگیر بن جاتی ہے جو جمہوریت کی دُہائی دے کر عوام کو بانٹنے، اُن کا استحصال کرنے اور اُن پر اپنے فیصلے مسلط کرنے سے دریغ نہیں کرتی۔ ایسا کرتے وقت  جمہوریت کو حصول اقتدار کا ذریعہ بنائے رکھنے کی حد تک نافذ العمل رکھا جاتا ہے جس کی رونمائی چند خاص موقعوں پر انجام پاتی ہے۔ 
 جمہوریت کے اس منظرنامے کا حقیقت پسندانہ تجزیہ کیا جائے تو یہ راز فاش ہوگا کہ طبقۂ حکمراں، خواہ کسی ملک کا ہو، یہی چاہتا ہے کہ جمہوریت سے فائدہ اُٹھاتا رہے اور اسے تقویت نہ پہنچنے دے۔ عوام غافل رہے تو اسے یہ سہولت اور آزادی میسر رہے گی۔ اس کے برخلاف، عوام جمہوریت کو فعالیت عطا کرنے کیلئے بیدار رہیں اور جمہوری قدروں کے ساتھ سمجھوتے کی ہرگز ہرگز اجازت نہ دیں تو کوئی وجہ نہیں کہ جمہوریت الیکشن جیتنے کی مشین بن کر رہ جائے۔
 شہریت ترمیمی قانون کے خلاف عوام کا ردعمل، اس قانون سے نجات پانے سے زیادہ جمہوریت کو استحکام بخشنے کی عظیم جدوجہد کے طور پر یاد رکھا جائیگا۔ اپنے وقت کے امریکی سیاستداں الفریڈ اسمتھ نے بڑی عمدہ بات کہی تھی کہ ’’جمہوریت کے نقائص جمہوریت کی پُرجوش فعالیت سے دور کئے جاسکتے ہیں۔‘‘ بہ الفاظ دیگر، طبقہ ٔ  حکمراںجمہوری قدروں اور اُصولوں کو بالائے طاق رکھ دے تو عوام کا فرض ہے کہ جمہوریت کو زیادہ سے زیادہ سرگرم بنائیں۔ اسی فرض کی ادائیگی، جو حب الوطنی کا تقاضا ہے، ملک بھر کی مظاہرہ گاہوں میں جاری ہے جن میں طلبہ پڑھائی لکھائی کی ذمہ داری، خواتین اپنی گرہستی کے فرائض اور مرد حضرات ستم ہائے روزگار سے وقت نکال کر جمہوریت کو حقیقی جمہوریت میں بدلنے، اس کا استحصال روکنے اور آئین کی بالادستی کو یقینی بنانے کیلئے اپنے اپنے شہر کی مظاہرہ گاہ کی رونق بنے ہوئے ہیں۔ ان کا حوصلہ ان کی پہچان ہے، وطن دوستی شناخت نامہ ہے اور حب آئین سند افتخار ہے۔ 
  آفرین ہے ان جیالوں پر جو مظاہرہ گاہوں میں صرف پلے کارڈ لے کر بیٹھے ہوئے نہیں ہیں یا صرف نعرہ نہیں لگا رہے ہیں بلکہ اپنے عزم و استقلال اور قربانیوں کے ذریعہ ایک ایسی تاریخ رقم کررہے ہیں جو آئندہ نسلوں کو روشنی دے گی، اُن کیلئے رہنما ہو گی اور صرف ہندوستانیوں کو فیض نہیں پہنچائے گی بلکہ دیگر ملکوں کی جمہوری تحریکوں کیلئے بھی مثال بنے گی۔ مظاہرین کا یہ مجمع وہ ہے جس کا ذکر کارل سینڈ برگ نے اپنی نظم کے دوسرے حصے میں کیا ہے۔
  یہ بامقصد اور بامعنی مجمع ہے۔ اس کا ایک پہلو اور ہے۔ اس تحریک کی یادیں اُن بچوں کیلئے بھی سرمایۂ افتخار ہوں گی جو اِس وقت اپنی ماؤں کی گود، نعروں کی گونج اور پلے کارڈس کے سائے میں ہیں۔ یہ معصوم شرکت اُن کے انقلابی ہونے کی پیش گوئی ہے ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK