Inquilab Logo

بہار کے تعلیمی اداروں کی سرگرمیوں میں اضافہ

Updated: September 27, 2020, 4:08 AM IST | Dr Mushtaque Ahmed

طلبہ کی آمد کے بعد معمولات زندگی بحال ہو رہے ہیں۔اساتذہ کی آمد بھی یقینی ہونے لگی ہے ۔یہ اور بات ہے کہ اب بھی ہر چہرے پر کوروناکی خوفناکی نمایاں ہے کہ روزانہ اس وبا سے متاثرین اور مہلوکین کی تعداد میں اضافہ ہو رہاہے ۔ چوں کہ اب تک اس کی کوئی دوا بھی وجود میں نہیں آئی ہے، اسلئے ہر شخص اپنی جان کو ہتھیلی پر رکھ کر ہی گھر سے باہر نکلنے پر مجبور ہے

School Students - Pic : INN
اردو اسکول ۔ تصویر : آئی این این

عالمی سطح پر کورونا کا زور کم نہیں ہوا ہے۔ خود اپنے وطنِ عزیز ہندوستان میں بھی اس مہلک وبا کے مضر اثرات کا دائرہ بڑھتا ہی جا رہا ہے ۔یہاں لمحہ بہ لمحہ کورونا متاثرین کے ساتھ ساتھ اس مہلک وبا سے جاں بحق ہونے والے افراد کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہےلیکن گزشتہ ۶؍ ماہ سے ملک کے تعلیمی اداروں میں کلاس روم تعلیم کی پابندی کو اب مرحلہ وار آہستہ آہستہ ختم کیا جا رہاہے ۔قومی سطح پر بھی مختلف مقابلہ جاتی امتحانات منعقد کئے جا رہے ہیں اور یونیورسٹیوں وکالجوں کے طلبہ کے ملتوی امتحانات بھی لئے جانے لگے ہیں ۔اس کی وجہ سے اب تعلیمی اداروں میں سرگرمیاں تیز ہورہی ہیں۔ اگرچہ حکومت کی جانب سے جاری اعلامیہ میں یہ ہدایتیں دی جاتی ہیں کہ اسکولی بچوں کے گارجین کی صواب دید پر منحصر ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اسکول بھیجیں یا نہ بھیجیں کیوں کہ آن لائن تعلیم کی سہولت ابھی بحال رکھی گئی ہے لیکن سچائی یہ ہے کہ اب چھوٹے بچے گھروں میں بند رہتے ہوئے اوب چکے ہیںاور وہ اسکول جاناچاہتے ہیں۔اس لئے ڈائریکٹر ہائر سکنڈری ، حکومتِ بہار کی جانب سے ایک نوٹیفیکیشن بھی جاری کیا گیا ہے جس میں یہ ہدایت دی گئی ہے کہ درجہ اول سے بارہویں تک کی تعلیم دینے والے ادارے اب کھلیں گے اور طلبہ اپنے اساتذہ سے نصابی مسائل کے حل کیلئے رابطہ کر سکیں گے۔
  اگرچہ اس نوٹیفیکیشن میں بھی کووڈ۔۱۹؍کے اصول وضابطے کی پابندی کو لازمی قرار دیا گیا ہے اور تعلیمی اداروں کے سربراہوں سے یہ بھی گزارش کی گئی ہے کہ طلبہ کو مختلف گروپوں میں تقسیم کرکے انہیں اسکول بلائیں تاکہ کیمپس میں بیک وقت تمام طلبہ جمع نہ ہو سکیں۔
  واضح ہو کہ حکومتِ بہار نے پہلے بھی تعلیمی اداروں کیلئے اس طرح کے ہدایت نامے جاری کئے تھے کہ اسکول اورکالجوں میں  بھیڑ جمع نہ ہو سکے لیکن سچائی یہ ہے کہ امتحان فارم بھرنے اور پھر رجسٹریشن اورداخلے کے آغاز کی وجہ سے طلبہ کی بھیڑ لگ جانا فطری عمل ہے ۔ البتہ اب تک کلاسیز ملتوی تھے اور اساتذہ آن لائن تعلیم دے رہے تھے لیکن اس نئے نوٹیفیکیشن کی روشنی میں اساتذہ کو بھی اسکول اور کالج آنا ہوگا کیوں کہ بہار کے اکثر کالجوں میں گیارہویں اور بارہویں درجے کی بھی پڑھائی ہوتی ہے البتہ فی الوقت گریجویشن کے طلبہ کیلئے کلاس بند رہیں گے اور آن لائن کے ذریعہ ہی ان کی نصابی ضروریات پوری کی جائیں گی۔ یہی وجہ ہے کہ ریاست بہار کی تمام یونیورسٹیوں میں اب نئے سیشن کیلئے داخلے کا عمل شروع ہوگیا ہے اور امتحانات کی تاریخ بھی طے ہونے لگی ہے ۔اکتوبر کے مہینے میں ملتوی امتحانات کو مکمل کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں ۔
 بہار کی اکثر یونیورسٹیوں میں سیشن کے تاخیر ہونے کا اندیشہ ہے ،اسلئے کورونا کی وبا کے مضر اثرات کے خطرات سے واقفیت کے باوجود تعلیمی سرگرمیاں تیز کی گئی ہیں ۔ گزشتہ کل ریاستی سطح کے بی ایڈ میں داخلہ کیلئے انٹرنس امتحان کا اہتمام کیا گیا اور اس کیلئے پوری ریاست میں۲۷۸؍امتحانی مراکز بنائے گئے تھے جن میں ایک لاکھ ۲۲؍ ہزار ،۳۳۳؍ امیدواروں نے حصہ لیا ۔
 یہاں گزشتہ کئی برسوںسے اساتذہ تربیتی کالجوں میں داخلے کیلئے ریاستی سطح کا ٹیسٹ لیا جانے لگا ہے ورنہ پہلے گریجویشن پاس کرنے والے طلبہ اپنی خواہش کے مطابق بی ایڈ کالجوں میں داخلہ لیا کرتے تھےلیکن حکومت کا موقف ہے کہ بی ایڈ کی تعلیم کو معیاری بنانے کیلئے اس طرح کا قدم اٹھایا گیا ہے ۔ ریاست بہار میں بی ایڈ کورس میں۳۵؍ہزار سیٹیں ہیں جس کیلئے ہر سال لاکھوں امیدوار ہوتے ہیں  جبکہ ریگولر موڈ میں اور فاصلاتی نظام کے ذریعہ بھی بی ایڈ کی پڑھائی ہوتی ہے لیکن دونوںکیلئے مشترکہ داخلہ ٹیسٹ میں حصہ لینا لازمی قرار دیا گیاہے ۔ ہر سال یہ امتحان مارچ میں ہوتا تھا اور جون جولائی تک داخلے کاعمل پورا ہو جاتا تھا لیکن اس سال کورونا کی وجہ سے تاخیر ہوئی ہے لیکن جاری کیلنڈر کے مطابق۳۰؍ستمبر کو اس کا نتیجہ آجائے گا اور۳؍اکتوبر سے۲۳؍نومبر تک آن لائن کونسلنگ اور اسپاٹ کونسلنگ کے بعد۱۸؍دسمبر تک داخلے کے عمل کو پورا کرلیا جائے گا تاکہ جنوری سے ان طلبہ کی پڑھائی شروع ہو سکے۔
 اس میں کوئی شک نہیں کہ اس مشترکہ داخلہ ٹیسٹ کی وجہ سے بی ایڈ کالجوں کوبھی آسانی ہوگئی ہے کہ ٹیسٹ کی بنیاد پر ہی انہیں داخلہ لینا ہے اور داخلے کیلئے کامیاب ہونے والے طلبہ کی لسٹ نوڈل ایجنسی کے ذریعہ کالجوں کو مہیا کرائی جاتی ہے۔اس امتحان کو صاف وشفاف بنائے رکھنے کیلئے ہر سال الگ ا لگ یونیورسٹیوں کو نوڈل ایجنسی بنایا جاتاہے۔ اس سال اس امتحان کے انعقاد کیلئے للت نرائن متھلا یونیورسٹی ، دربھنگہ کو نوڈل ایجنسی بنایا گیا تھا جس نے۲۲؍ستمبر کو پوری ریاست میں۲۷۸؍امتحان مراکز بنائے تھے ۔ان میں پٹنہ میں ۸۴؍، گیا میں۱۹؍، بھاگلپور میں۲۶؍، مظفرپور میں۳۰؍، آرہ میں ۱۷؍، چھپرہ میں۱۰؍، دربھنگہ میں۳۶؍، مدھے پورہ میں۲۴؍، مونگیر میں ۱۰؍ اور پورنیہ میں۲۲؍مراکز قائم کئے گئے تھے۔ ان تمام مراکز پر کووڈ۔۱۹؍کے اصول وضابطے کی پابندی کے ساتھ امتحان منعقد کئے گئے ۔ 
 مختصر یہ کہ اب ریاست بہار کے تعلیمی اداروں میں امتحانات اور داخلے ورجسٹریشن کے آغاز کی وجہ سے طلبہ کی آمد ہونے لگی ہے اور تعلیمی اداروں میں سرگرمیاں تیز ہوگئی ہیں ۔ گزشتہ مارچ سے اب تک بند تعلیمی اداروں میں سناٹے پھیلے ہوئے تھے ،اب طلبہ کی آمد کے بعد حسب معمول زندگی لوٹ رہی ہے۔اساتذہ کی آمد بھی یقینی ہونے لگی ہے ۔یہ اور بات ہے کہ اب بھی ہر ایک چہرے پر کورونا کی خوفناکی نمایاں ہے کہ  روزانہ اس وبا سے متاثرین اور مہلوکین کی تعداد میں اضافہ ہو رہاہے ۔
  چوں کہ اب تک اس کی کوئی دوا بھی وجود میں نہیں آئی ہے، اسلئے ہر شخص اپنی جان کو ہتھیلی پر رکھ کر ہی گھر سے باہر نکلنے پر مجبور ہے ۔بہار میں اسی اکتوبر میں اسمبلی انتخاب ہونا ہے، اس کیلئے بھی انتخابی سرگرمیاں تیز ہوگئی ہیں ۔ اسکول اورکالج کے اساتذہ کو انتخابی عمل میں شامل کیا جاتا ہے جس کی ٹریننگ بھی شروع ہوگئی ہے۔ اس کی وجہ سے بھی اب سڑکوں پر بھیڑ دکھائی دینے لگی ہے مگر سرکاری ملازموں کی یہ مجبوری ہے کہ انہیں سرکاری احکامات کی تعمیل کرنی ہےمگر سچائی یہ ہے کہ ہر شخص ڈرا سہما اور متفکرہے کہ نہ جانے کورونا کی وبا کب اسے اپنا شکار بنا لے۔
 اگرچہ حکومت اپنے ہر اعلامیے میں یہ ہدایت جاری کرتی ہے کہ گھر سے باہر نکلتے وقت ماسک کا لازمی طورپر استعمال کریں لیکن سچائی یہ ہے کہ لوگ باگ کی جانب سے اس میں لا پروائی بھی برتی جار ہی ہے اور طبی جانچ کا عمل بھی سست روی کا شکار ہوگیا ہے ۔ اس لئے بھی کورونا کا دائرہ بڑھتا جارہا ہے۔ظاہر ہے کہ حکومت کے پاس بھی کوئی ایسا نسخہ نہیں ہے کہ اس پر قابو پایا جا سکے اور سرکاری کام کاج کا ہونا بھی ضروری ہے کہ بہت دنوں تک سرکاری دفاتریا تعلیمی اداروں کو بند رکھنا بھی مضر ہے۔ایسے وقت میں انفرادی حفاظتی انتظامات اور احتیاطی قدم ہی اس وبا سے بچنے کا بہتر حل ہے ۔اگرچہ حکومت کی جانب سے خصوصی مہم بھی چلائی جا رہی کہ لوگ ماسک کا استعمال لازمی طورپر کریں اور اس کیلئے ماسک نہ لگانے والوں سے جرمانہ وصول کیا جا رہاہے اور حکومت کو اس فنڈ میں کروڑوں کی آمدنی ہورہی ہے لیکن اب بھی صد فیصد لوگ ماسک کا اہتمام نہیں کررہے ہیں۔ بالخصوص سرکاری اسپتالوں ، کورٹ کچہریوں ، ضلع اور بلاک دفاتر میں یومیہ خدمات کو انجام دینے کیلئے لوگوں کی بھیڑ لگی رہتی ہے اور وہاں اکثریت ماسک کا استعمال نہیں کرتی ۔ ایسی صورت میں اس وبا کے مضر اثرات کا دائرہ بڑھنا یقینی ہے، اسلئے صرف سرکاری احکامات ہی سے اس بیماری پر قابو نہیں پایا جا سکتا بلکہ عوام الناس کی جانب سے بھی یہ مہم تیز ہونی چاہئے کہ بغیر ماسک کے نکلنے والوں پر نکیل کسیں۔ایسا اس لئے بھی ضروری ہے کیوں کہ یہ مہلک وبا صرف فردِ واحد کو متاثر نہیں کرتی بلکہ ایک متاثر شخص پورے معاشرے کیلئے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK