Inquilab Logo

کیا کہتے ہیں ارباب دانش بیچ اس مسئلہ کے

Updated: July 07, 2020, 12:25 PM IST | Hasan Kamal

اجے شکلانے ہی پہلی بار وادیٔ گلوان میں کرنل سنتوش بابو سمیت ۲۰؍ ہندوستانی فوجیوں کی شہادت اور افسروں سمیت۱۰؍ ہندوستانی فوجیوں کی چینیوں کے ذریعہ حراست اور پھر رہائی کی خبر دی۔

India and China - Pic : INN
انڈیا اور چین ۔ تصویر : آئی این این

آج ہم آپ کو، اجے شکلا،پریم شنکر جھا اورکرن تھاپر جیسے چند مقتدر صحافیوں اور ایک سابق نیشنل سیکوریٹی ایڈاوائزر این کے ناائنن کے موجودہ حالات پر تاثرات اور مشاہدات سے واقف کروانا چاہتے ہیںتاکہ کہ آپ کو اندازہ ہو کہ پالتو گودی میڈیا حقائق سے کتنا دور جا چکا ہے۔سب سے پہلے اجے شکلا۔ اجے شکلا  نے ایک اچھے خاصے عرصہ تک ہندوستانی فوج میں بحیثیت کرنل خدمات انجام دی ہیں۔ پھر انہوں نے فوج سے رضاکارانہ سبکدوشی لے لی اور صحافت کی طرف راغب ہوئے، آج کل وہ روزنامہ بزنس اسٹینڈرڈ میں دفاعی معاملات کے نامہ نگار کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ان کا نام قومی اور عالمی توجہ کا مرکز اس وقت بنا جب انہوں نے پہلی بار حقیقی لائن آف کنٹرول کو پارکرکے ہندوستانی سرحدوں کے اندر چینی فوجوں کی در اندازی کی خبر بریک کی۔ انہوں نے ہی پہلی بار وادیٔ گلوان میں کرنل سنتوش بابو سمیت ۲۰؍ ہندوستانی فوجیوں کی شہادت اور افسروں سمیت۱۰؍ ہندوستانی فوجیوں کی چینیوں کے ذریعہ حراست اور پھر رہائی کی خبر دی۔علاوہ ازیں انہوں نے ہندوستانی اور چینی افواج کی کیفیتوں کا بھی بہت بے لاگ تجزیہ کیا۔ مودی سرکار کے اندھے عقیدت مندوں اور پالتو مویشی کی طرح دم ہلاتے میڈیا نے انہیں فوراََ اور حسب توقع ’دیش دروہی‘ کے خطاب سے نواز دیا۔ گزشتہ ہفتہ ’نیوز کلک‘ یو ٹیوب چینل پر ایک معروف صحافی پرنجئے گوہا نے ان سے لداخ اور اروناچل پردیش میں جاری ہندوستان چین کشاکش کے حوالہ سے بات کی۔ ان سے جب یہ پوچھا گیا کہ انہیں’ دیش دروہی ‘ کہے جانے پر ان کا کیا رد عمل ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ یہ خطاب آج کل ہر اس صحافی کو دیا جاتا ہے، جو قوم اور ملک کے مفاد میں عوام کو سچ سے باخبر کرتا ہے۔ اس لئے وہ اس خطاب کو اپنے لئے اعزاز سمجھتے ہیں۔ اس کے بعد ہندوستان اور چین کی افواج کا تقابلی جائزہ لیتے ہوئے بتایا کہ جنگ کسی کے مفاد کیلئے بہتر نہ ہوگی اور جنگ سے ہر حال میں بچنا ہوگا۔ انہوں نے سب سے اہم بات یہ کہی کہ چین کا مقصد ہندوستان سے کچھ زمین یا کچھ علاقہ جیتنا نہیں ہےبلکہ چین کی خفگی کی اصل وجہ لداخ کی حیثیت میں تبدیلی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب وزیر داخلہ امیت شاہ لوک سبھا میں یہ کہہ رہے تھے کہ ۳۷۰ ؍ کو رد کرنے کے بعد اب اقصائے چن اور پاک مقبوضہ کشمیر کو بھی ہندوستان میں شامل کر لیا جائے گا، تو وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ ان کی بات صرف ہندوستانی سن رہے ہیں۔ کوئی اور یا تو سن نہیں رہا ہے اور اگر سن رہا ہے تو اس پر کوئی خاص توجہ نہیں دے گا۔ یہ ان کی غلط فہمی تھی۔ چین نے نہ صرف ان کی بات سنی اور سن کر وہ رد عمل ظاہر کیا، جو آج ملک کی سلامتی اور سیکوریٹی کیلئے ایک سنگین چیلنج بن چکا ہے۔اجے شکلا کا خیال ہے کہ نریندر مودی اور شی جن پنگ کے مابین ۱۸ ؍ ملاقاتیں ہوئیں۔ان ملاقاتوںمیں مودی شی جن پنگ کو بالکل نہیں سمجھ پائے، لیکن شی جن پنگ اچھی طرح سمجھ گئے کہ مودی کا مسئلہ اپنی مقبولیت کو بڑھانا اور بچانا ہے۔ اجے شکلا کا یہ بھی خیال ہے کہ شی جن پنگ کو یقین تھا کہ مودی حالیہ معاملات پر اپنی مقبولیت کو بچانے کیلئےخاموش ہی رہنا پسند کریں گے۔
  پریم شنکر جھا ملک کے بزرگ ترین صحافیوں میں سے ایک ہیں۔ انہوں نے اپنی عملی زندگی کا آغاز اقوام متحدہ میں ہندوستانی عملہ کے ایک اہم عہدیدار کی حیثیت سے کیا تھا۔ ان کا رجحان بھی صحافت کی طرف تھا۔ اس لئے انہوں نے جلد ہی سرکاری ملازمت کو خیر باد کہہ کر قلم اٹھا لیا۔ وہ کئی انگریزی اخبارات کے کالم نویس اور مدیر رہ چکے ہیں۔پریم شنکر نے کہا کہ ٹک ٹاک جیسے ایپ کو ہندوستانی استعمال کر رہے تھے۔ اس سے متعلقہ کمپنیوں کو تھوڑا سا نقصان ہو سکتا ہے، لیکن یہ سمجھنا کہ اس سے چینی معیشت کو کوئی جھٹکا لگ سکتا ہے، خام خیالی ہے۔ انہوں نے بھی جنگ کو خارج از امکان قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ چین کے پاس پڑوس کے ۲۳؍ ملکوں سے سرحدی تنازعات تھے۔ روس ان میں  سب سے اہم تھا۔ لیکن جاپان اور ہندوستان کے سوا تمام ۲۱ ؍ممالک سے چین نے تنازعات حل کر لئے ہیں۔ 
 کرن تھاپر خالص صحافی ہیں۔ انہوں نے عمر بھر صحافت کے سوا کچھ اور کیا ہی نہیں۔ وہ اپنے سیدھے اور تیکھے سوالات کیلئے مشہور ہیں۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ سامنے والے کا اس وقت تک پیچھا نہیں چھوڑتے جب تک کہ انہیں اپنے سوال کا جواب نہ مل جائے۔ان کی شہرت نے اس وقت آسمان چھو لیا تھا جب انہوں نے نریندر مودی کا بحیثیت   وزیر اعلیٰ گجرات انٹر ویو لیا تھا۔ اس انٹر ویو میں انہوں نے نریندر مودی سے گجرات کی نسل کشی کے بارے میں اتنے تیکھے سوال کئے کہ مودی نے پہلے ایک گلاس پانی طلب کیا اور پھر اچانک اٹھے اور انٹر ویو ادھورا چھوڑ کر باہرنکل گئے۔ یہ تاریخی مگر ادھورا انٹر ویو آج بھی انٹر نیٹ کے خزانے میں بطور امانت موجود ہے اور دیکھا بھی جا سکتا ہے۔انہوں نے گزشتہ ہفتہ ’دَی وائر‘ یو ٹیوب چینل کیلئے ایک معروف امریکی صحافی اور مصنف ایڈورڈ لوس سے بات چیت کی۔ کرن تھاپر نے ان سے پوچھا کہ  ہندوستان اور چین کے بیچ سرحدی تنازع کے تعلق سے امریکی ایڈمنسٹریشن میں کیا تاثرات پائے جاتے ہیں۔ ایڈورڈ لوس کا جواب قدرے حیران کن تھا۔ انہوں نے جواب دیا کہ ایڈمنسٹریشن کے نچلی سطح پر اس مسئلہ کو ضرور زیر بحث لایا جا رہا ہے، لیکن اعلیٰ ترین سطحوں پر اسے ویسی توجہ نہیں دی جا رہی ہے، جس کی امید کی جا رہی تھی۔انہوں نے کہا کہ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ ٹرمپ کی اس وقت اولین ترجیح امریکی معیشت کو غوطہ خوری سے بچانا ہے۔ ان کے نزدیک چین کو اس معاہدہ پر قائم رکھنا زیادہ ضروری ہے ، جس کے تحت چین امریکہ سے ۲۵۰؍ ارب ڈالر کی زرعی پیداوار خریدنا چاہتا ہے۔
 این کے نارائنن سابق ڈپلومیٹ ہیں اور نیشنل سیکوریٹی ایڈوائزر بھی رہ چکے ہیں ۔ انہوں نے روزنامہ ’ہندو‘ میں ایک مضمون لکھ کر کچھ اہم نکات کی طرف توجہ دلائی ہے۔ وہ  لکھتے ہیں کہ ہندوستانی وزارت خارجہ نے پاکستان کے سوا کسی اور ملک کی طرف وہ توجہ ہی نہیں دی جو دینی چاہئے تھی۔ انہوں نے یہ اہم انکشاف کیا کہ وزارت خارجہ میں ایسے لوگوں کی سخت کمی ہے، جو چینی بھاشا ’منڈرین‘ سے واقف ہوں۔ نتیجہ یہ ہے کہ معاملات کو ہینڈل کرنے میں سخت دشواری پیش آتی ہے۔ انہوں نے بھی اعتراف کیا کہ لوک سبھا میں امیت شاہ کے اقصائے چن کی بابت بیان نے معاملات کو بہت الجھا دیا ہے۔اہل دانش کی  ان باتوں کو پالیسی ساز کتنی سنجیدگی سے لیتے ہیں اورلیتے بھی ہیں یا نہیں ، یہ دیکھنا واقعی دلچسپ ہوگا ۔

china ladakh Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK