Inquilab Logo

کہتی ہے ’ہم کو‘ خلق خدا غائبانہ کیا

Updated: January 21, 2021, 12:33 PM IST | Editorial

’’چیٹم ہاؤس‘‘ برطانیہ کا ۱۰۰؍ سال پرانا ادارہ ہے۔ اسے رائل انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل افیئرس بھی کہا جاتا ہے۔اس نے بریگزٹ کے بعد برطانیہ کی ممکنہ خارجہ پالیسی پر روشنی ڈالتے ہوئے ایک رپورٹ تیار کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ عالمی اُمور میں برطانیہ کی ترجیحات کیا ہوں گی اور کس طرح برطانیہ عظمیٰ اب ’’عالمی برطانیہ‘‘ (گلوبل برٹین) کے طور پر اقوام ِعالم سے ازسرنو قربت حاصل کریگا۔

India and UK Flag - Pic : INN
بھارت اور یو کے کا جھنڈا ۔ تصویر : آئی این این

 ’’چیٹم ہاؤس‘‘ برطانیہ کا ۱۰۰؍ سال پرانا ادارہ ہے۔ اسے رائل انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل افیئرس بھی کہا جاتا ہے۔اس نے بریگزٹ کے بعد برطانیہ کی ممکنہ خارجہ پالیسی پر روشنی ڈالتے ہوئے ایک رپورٹ تیار کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ عالمی اُمور میں برطانیہ کی ترجیحات کیا ہوں گی اور کس طرح برطانیہ عظمیٰ اب ’’عالمی برطانیہ‘‘ (گلوبل برٹین) کے طور پر اقوام ِعالم سے ازسرنو قربت حاصل کریگا۔ 
 رپورٹ میں مزید کیا لکھا ہے اس کا ہمیں علم نہیں ہے اور اگر ہو تب بھی شاید وہ ہمارا موضوع بحث نہ بنے ۔ ہمارے موضوع کا تعلق رپورٹ میں وطن عزیز کی درجہ بندی اور شامل کئے گئے تاثرات سے ہے۔ اس میں ہندوستان کو ’’مشکل ملکوں‘‘ میں شمار کیا گیا اور ملک میں بڑھتی ہوئی فرقہ پرستی اور عدم رواداری کو بالواسطہ طور پر موردِ الزام ٹھہراتے ہوئے ایک سیکولر اور جمہوری ملک کی ہماری شناخت پر تشکیک کا اظہار کیا گیا ہے۔ اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ہندوستان کی موجودہ شبیہ ایک ’’متذبذب‘‘ ملک کی ہے جو وسیع القلبی اور کشادہ ذہنی پر مبنی جمہوریت سے دور جارہا ہے۔ (ریلکٹنٹ سپورٹر آف لبرل ڈیموکریسی)۔ 
 رپورٹ میں ہندوستان کو مشکل کیوں کہا گیا ہے اس کی وضاحت یہ کہتے ہوئے کی گئی ہے کہ یہ اُن ملکوں سے اپنی روش کو الگ کررہا ہے جہاں کے شہریوں کو اپنے حقوق کیلئے لڑنے کی مکمل آزادی ہے۔ رپورٹ کی اس درجہ بندی کے مطابق جو ممالک مشکل کے زمرہ میں رکھے گئے ہیں اُنہیں برطانیہ کا  ’’ناموزوں ہم منصب‘‘ سمجھا گیا ہے حالانکہ اس سلسلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ حکومت برطانیہ کا مطمح نظر نہیں ہے۔
 یہ بات باعث ِ تشویش ہے کہ بیرونی ملکوں کے ادارے ہمارے تعلق سے ایسا تاثر قائم کررہے ہیں۔ یہ تاثر ملک کی صاف ستھری سیکولر روایات کے منافی ہے۔ جنگ آزادی کے مجاہدین اور جدید ہندوستان کے معماروں نے اس ملک کا مستقبل اس طرح نہیں دیکھا تھا جس طرح ظاہر ہورہا ہے۔ یہ بتانا ضرو ری نہیں کہ اس کیلئے وہ افراد اور تنظیمیں ذمہ دار ہیں جنہوں نے ملک کی سیکولر روایات کو زندہ در گور کرنے کی ٹھان رکھی ہے۔ اُنہیں یہ پروا نہیں ہے کہ ملک کی جس شبیہ کو خراب کیا جارہا ہے وہ چند روز میں نہیں بنی۔ اس کیلئے ہزارہا قربانیاں دی گئیں۔ یہ قربانیاں رنگ لائیں تو دُنیا نے اس ملک کو وسیع القلب اور روادار معاشرہ کی حیثیت سے دیکھا اور تسلیم کیا۔ مگر اِدھر چند برسوں سے جو کچھ بھی ہورہا ہے وہ بھلے ہی ماضی میں بھی ہوا ہو، مگر نہ تو اس تواتر کے ساتھ ہوا نہ ہی مرتکبین کو کھلی چھوٹ ملی۔
  اس کیلئے وہ اہل اقتدار بھی ذمہ دار ہیں جنہوں نے قانون کا مذاق اُڑانے  والوں کی گرفت کرنے کے بجائے اُن کی جانب سے آنکھیں موند کر اُنہیں کھل کھیلنے کی اجازت دی۔ حکام نے کسی واردات کے ملزمین کو قانون کے دائرے میں لانے کے بجائے متاثرین کو حراست میں لیا اور اُن کا قافیہ تنگ کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے سماجی خدمتگاروں کو تحویل میں لیا اور جیل میں ٹھونس دیا۔ ایسے ہی اقدامات سے ہماری شبیہ خراب ہوئی اور مسلسل ہورہی ہے جس کی جانب توجہ دینا حکومت کی ترجیحات میں شامل ہونا چاہئے۔ اگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ معاشی مفادات کی ماری یہ دُنیا اتنی بڑی صارف مارکیٹ کے خلاف کچھ نہیں کہے گی تو یہ ہماری بھول ہے۔ہمیں اپنی شبیہ کو درست رکھنے کیلئے امن و آشتی، عدل و انصاف اور شہریوں کے آئینی حقوق کو یقینی بنانا ہوگا کہ مہذب ملکوں کا یہی طور ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK