Inquilab Logo

ہماری حکومت چین کا نام تک نہیں لینا چاہتی اور ہم چینی اشیا کا بائیکاٹ کرنا چاہتے ہیں

Updated: July 12, 2020, 10:07 AM IST | Qutbuddin Shahid

چین کی دراندازی سے پورا ملک صدمے میں ہے اور اس کیخلاف سخت کارروائی چاہتا ہے مگر چند چینی ایپس پر پابندی کو ہماری حکومت ’منہ توڑ‘ جواب سمجھ رہی ہے۔ حزب اقتدار کے لوگ ملک بھر میں چینی اشیا کی ’ہولی‘ جلا رہے ہیں اور چین کیخلاف مظاہرہ بھی کررہے ہیں لیکن ان میں مرکزی حکومت سے یہ کہنے کی جرأت نہیں کہ وہ چینی اشیاکا امپورٹ بند کرے۔یہ ظاہر کرتا ہے کہ برسراقتدار طبقے کو سانپ مارنے میں دلچسپی ہے، نہ لاٹھی بچانے میں.... بس وہ لکیر پیٹ کر دیش بھکتی کا اظہار کرنا چاہتی ہے

China Boycott - Pic : PTI
منالی میں مقامی تنظیم کے افراد چینی اشیا کی ہولی جلانے کی تیاری کرتے ہوئے (تصویر: پی ٹی آئی

سرحد پر۲۰؍ سے زائد جوانوں کی شہادت کوئی معمولی بات نہیں۔ ۷۰؍ جوان زخمی بھی ہیں۔ اس کی وجہ سے ملک بھر میں غم و غصے کا ماحول ہے۔چین کی دراندازی سے پورا ملک صدمے میں ہے اور اس کے خلاف سخت کارروائی چاہتا ہے مگر ہماری حکومت چین کا نام تک نہیں لینا چاہتی۔۵۶؍ انچ سینے کا دعویٰ کرنے والوں کی جانب سے چند ایپس پر پابندی کو ’منہ توڑ‘ جواب قرار دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ جملے بازی اور اس کی تشہیر میں ہماری حکومت کا جواب نہیں۔ ’سرجیکل اسٹرائیک‘کی طرز پر اسے ’ڈیجیٹل اسٹرائیک‘ کا نام دے دیا گیا اور اسے بڑی کامیابی بنا کر کچھ لوگوں کو بغلیں بجانے کیلئے میدان میں بھی اُتار دیاگیا۔یہ دیکھ کر ایک لطیفہ یاد آرہا ہے۔ بدھو کا پڑوسی اس کی تین بھینسیں کھو ل  لے گیا۔ گھر والوں نے بدھو سے جوابی کارروائی کیلئے کہا تو اس نے طیش میں آکر اپنے موبائل فون سےپڑوسی کا نمبر ڈیلیٹ کردیا۔ یہ کارروائی دیکھ کر گھر والے خوشی سے ناچنے لگے۔
   یہاں بھی یہی کچھ دیکھا جارہا ہے۔برسراقتدار طبقے کی جانب سے جہاںیہ مشتہر کیا جا رہا ہے کہ حکومت نے چین کو ’سخت‘ جواب دے دیا  وہیں  اس کی ذیلی تنظیمیں  دیش بھکتی کے اظہار میں جگہ جگہ مظاہرے کررہی ہیںاور چینی اشیا کی ’ہولی‘ جلا رہی ہیں۔ وہ یہ جانتی ہیں کہ ان مظاہروں کا کوئی مطلب نہیں اور چینی اشیا کی ہولی جلانا مسئلے کا حل نہیں لیکن وہ ایسا کر رہی ہیں، اسلئے کہ ایسا کرنے سے ایک طبقے کو ’حرارت‘ ملتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ چین کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں  میں مرکزی حکومت سے یہ کہنے کی جرأت نہیں کہ وہ چینی اشیاکا امپورٹ بند کرے۔یہ ظاہر کرتا ہے کہ برسراقتدار طبقے کو سانپ مارنے میں دلچسپی ہے، نہ لاٹھی بچانے میں... بس وہ لکیر  پیٹ کر دیش بھکتی کا اظہار کرنا چاہتی ہے۔
 چین کی مخالفت میں ان دنوںچائے سے زیادہ کیتلی کے گرم ہونے کی کہاوت  بالکل صادق نظر آرہی ہے۔ سرکار کو چین سے کوئی شکوہ نہیں لیکن اس کی حامی جماعتیں چینی صدر کے پُتلے جلارہی ہیں۔ حکومت نےبین الاقوامی پلیٹ فارم توکسی قسم کی دراندازی ہی سے انکار کردیا۔پتہ نہیں وہ ان شہیدوں کی موت کیلئے کسے ذمہ دار ٹھہرائے گی؟ وہ حکومت جو ابھی تک گزشتہ ۷۰؍ برسوں کی حکومتوں پر ’نااہلی‘ کا ٹھیکرا پھوڑکراپنے لئے اقتدار پر قابض رہنے کا جواز پیدا کرتی رہی ہے اور ملک کی جانب آنکھ اُٹھاکر دیکھنے والوں کی آنکھیں پھوڑ دینے کا دعویٰ کرتی رہی ہے، وہ ۲۰؍ فوجیوں کی شہادت پر یوں خاموش ہے گویا کچھ ہوا ہی نہیں۔ ملک کے تئیں ذمہ داریوں پر حکومت کی سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اِس وقت جبکہ کورونا کا پھیلاؤ اور چین کی دراندازی سے ملک ایک اضطرابی کیفیت سے دوچار ہے، ہماری حکومت بعض ریاستوں میں انتقامی کارروائی اور بعض ریاستوں میں انتخابی ہما ہمی میں مصروف ہے۔اسے اس بات سے کچھ مطلب نہیں کہ ملک کیا سوچتا ہے؟ اسے   بس  یہ دیکھنا ہے کہ اس کا ایجنڈہ کیا ہے اوراسے کس طرح پورا کرنا ہے۔ وہ اپنی سوچ کو ملک کی سوچ بنانے پر مصر ہے۔
 چین سے نمٹنے کے بہت سے طریقے ہوسکتے ہیں لیکن حالات و واقعات بتارہے ہیں کہ حکومت کو ان میں سےکسی بھی طریقےمیں دلچسپی نہیں ہے،اسلئے عوام میں چینی اشیاکے بائیکاٹ کا ایک شوشہ چھوڑ دیاگیا ہے تاکہ لوگوں کا غصہ کچھ حد تک اسی طرح سرد پڑ جائے۔ یہ ایک نفسیاتی حربہ ہے۔ انسان صدمے میں ہو تو اسے رُلا دیا جاتا ہے یاوہ  غصے کی حالت میں ہو تو اس کا غصہ کہیں اور نکالنے کی کوئی تدبیر نکالی جاتی ہے۔ ہماری حکومت بھی وہی کررہی ہے۔   اس کا مقصد چین کو کوئی زک پہنچانا قطعی نہیں ہے، بس وہ عوام کے غصے کووقتی طور پر زائل کردینا چاہتی ہے۔
 کیاچینی اشیاءکا بائیکاٹ ممکن ہے؟ اگرہاں تو کس طرح؟اور کیا یہ عوام اور حکومت کے مفاد میں ہوگا؟ میرے خیال سے یہ بائیکاٹ عوامی سطح پر ممکن نہیں اور اگر کیا گیاتو سراسر گھاٹے کا سودا ہے۔بائیکاٹ ایک جذباتی فیصلہ تو ہوسکتا ہے لیکن مسئلے کا حل نہیں، ایسا کرنے سے چین سے زیادہ نقصان ہم ہندوستانی بالخصوص عام آدمی کوہوگا۔اگر بائیکاٹ کرنا ہی ہے تو یہ سرکاری سطح پر ہونی چاہئے، لیکن اس کیلئے ہماری سرکار آمادہ نہیں ہوگی۔کیا یہ دانشمندی ہوگی کہ ہم اپنا  چینی لیپ ٹاپ توڑ کر پھینک دیں جس کی قیمت چین کو ادا کر دی گئی ہے؟ کیا اس سےچین کوکچھ فرق پڑے گا؟ہم اپنے محلے کی دکانوں میں موجود چینی اشیاء کا بائیکاٹ کردیں تو کیا اس کی وجہ سے چینی معیشت اُکھڑ جائے گی؟قطعی نہیں! اس کا نقصان ہوگا تو محلے کےاُس  دکاندار کو جو ہماری اور آپ کی طرح عام آدمی ہے کیونکہ وہ سامان خرید چکا ہے اور اس کی قیمت چین کو ادا کرچکا ہے۔  اگر چینی اشیاء کے بائیکاٹ کو موثر بنانا ہے تو اس کیلئے ضروری ہے کہ سرکار ان اشیاء کے ملک میں داخلے پر پابندی عائد کرکے۔درخت سے گرچکی پتیوں کو آگ کے حوالے کرنے سے اُس درخت کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ اسے نقصان پہنچانا ہے تو اس کی جڑ پر وار کرنا ہوگا .... لیکن اس کیلئے ہماری حکومت تیار نہیں ہوگی کیونکہ اسی حکومت کے دور میں اسے کھاد پانی دے کر مزید ہرا بھرا کیا گیا  ہے۔ گزشہ ۶؍ برسوں میں ہمارے وزیراعظم اور چینی صدرکے درمیان ۱۸؍ ملاقاتیں ہوچکی ہیں، اس دوران ایک دوسرے کو جھولا جھلا کر اور چائے پلاکر اربوں کے معاہدے بھی کئے جا چکے ہیں۔  ایک رپورٹ کے مطابق ۲۰۱۴ء تک چین سے ہونے والا امپورٹ  ہمارے کل امپورٹ کا ۱۱ء۶؍ فیصد ہوا کرتا تھا جو۲۰۱۸ء تک بڑھ کر ۱۶ء۶؍ فیصد ہوگیا جبکہ چین کو ہم صرف ۵؍ فیصد ہی ایکسپورٹ کرتے ہیں۔ اسی طرح ۲۰۱۴ء تک ہندوستان میں چین کی سرمایہ کاری ۱ء۶؍ ارب ڈالر کی تھی جو ۱۶؍ گنا بڑھ کر ۲۶؍ ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔
  یہی سبب ہے کہ حکومت چینی ایپس پر پابندی لگا کر اور چینی اشیاء کے بائیکاٹ کا شوشہ چھوڑ کر سرحد ی نگہبانوں کی شہادت کا ’انتقام‘ لینا چاہتی ہے۔اس کے باوجود اگر ہم نے حکومت سےکچھ’ سخت‘ کارروائیوںکی امید لگا رکھی ہے تو اس میں حکومت کا کوئی قصور نہیں، یہ ہماری سادہ لوحی ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK