Inquilab Logo

ہندوستان کا گودی میڈیا اور پاکستان کا سوتیلا میڈیا

Updated: April 12, 2022, 12:52 PM IST | Hassan Kamal | Mumbai

ہندوستان کے مین اسٹریم میڈیا کیلئے ہندوستان ہی میں نہیں دنیا میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ یہ میڈیا مودی سرکار کی مٹھی میں ہے۔ بڑے بڑے ٹی وی چینل اور اخبارات جانبدار ہونے کی حد تک اقتدار پرست ہیں۔

Picture.Picture:INN
علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این

ہندوستان اور پاکستان دو ایسے پڑوسی ہیں،جن میں مخاصمت بھی مثالی نوعیت کی ہے اور مماثلت بھی۔دونوں ملکوں کے عوام کے پہناوے، کھان پان، ریت رواج اور ثقافتی طور طریقے بھی ایک جیسے ہیں۔بس ایک معاملہ ایسا ہے جس میں یہ دونوں ملک ایک دوسرے سے اسی طرح منہ موڑے کھڑے نظر آتے ہیں جیسے ۲۶؍کے ہندسے ایک دوسرے سے منہ موڑے ہوتے ہیں۔ یہ معاملہ دونوں ملکوں کے خاص دھارے یا مین اسٹریم میڈیا کے رویے کا ہے۔ ہندوستان کے مین اسٹریم میڈیا کے لئے ہندوستان ہی میں نہیں دنیا میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ یہ میڈیا مودی سرکار کی مٹھی میں ہے۔ بڑے بڑے ٹی وی چینل اور اخبارات جانبدار ہونے کی حد تک اقتدار پرست ہیں۔بیشتر معروف اورمقتدر صحافی اور چینلوں کے اینکرس نہ خود حکومت کے خلاف بولتے ہیں، نہ کسی اور کو بولنے دیتے ہیں۔ اگر کوئی بولنا چاہے تو اس پر یوں جھپٹ پڑتے ہیں جیسے چیلیں گوشت کے ٹکڑوں پر جھپٹتی ہیں۔ اسی لئے ہندوستان کے مین اسٹریم میڈیاکو گودی میڈیا کا نام دے دیا گیا ہے۔ پاکستان میں معاملہ اس کے بالکل الٹا اور بر عکس ہے۔ پاکستان کا مین اسٹریم میڈیا نہ خود عمران خان اور ان کی سرکار کے حق میں ایک لفظ بولتا ہے، نہ کسی اور کو بولنے دیتا ہے۔ اگر کوئی بولنے کی کوشش کرے تو اس کا حشر بھی وہی ہوتا ہے جو ہندوستانی مین اسٹریم میڈیامیں مودی سرکار کے خلاف بولنے والوں کو ہوتا ہے۔ بات عجیب ضرور لگتی ہے ، لیکن حقیقت ہے کہ پاکستان کا مین اسٹریم میڈیا پوری طرح عمران خان کے سیاسی بلکہ ذاتی مخالفین کی گرفت میں ہے۔ ان مخالفین میں تین بار کے سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے اہل خانہ یعنی بھائی، بیٹی اور بھتیجے ہیں۔ یہ خاندان پاکستان کا دولتمند ترین خاندان بھی ہے اور ان کی پارٹی مسلم لیگ(ن)پاکستان کی مالدار ترین سیاسی پارٹی بھی ہے۔ بعد میں فضل الرحمان اور آصف علی زرداری بھی ان کے ساتھ ہو لئے۔ ’جیو‘جیسے کچھ چینلوں کے مالکان اور ان کے درجن بھر سے بھی زیادہ موٹی موٹی تنخواہیں پانے والے ملازم اینکر اور صحافی عمران خان اور ان کی پارٹی کے برسراقتدار آتے ہی ان کے اور ان کی حکومت کے پیچھے ہاتھ دھوکر پڑ گئے تھے اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔عمران خان سے خدا واسطے کا بیر رکھنے والے صحافیوں میں کچھ ایسے بھی ہیں ، جن کے معروف ہونے میں کوئی شک نہیں ہے اور جن کی ہندوستان میں بھی خاصی پذیرائی ہوتی رہی ہے۔ نجم سیٹھی اور حامد میر دو ایسے ہی نام ہیں ، جنہیں ہندوستان میں کافی پذیرائی حاصل رہی ہے۔ ان کے رشحات قلم ہندوستان کے آن لائن میڈیا پر منتقل ہوتے ہیں اور جن کے یو ٹیوب چینل ہندوستان میں دیکھے جاتے ہیں۔ ہم خود بھی نجم سیٹھی کا یو ٹیوب دیکھتے تھے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ ان کے پاس ایک چڑیا، جی ہاں چڑیاہے،جو انہیں حکومت،فوج اور عدلیہ کے اندر کی وہ خبریں لاکرد یتی ہے جن کا حصول کسی دوسرے صحافی کے بس کی بات نہیں ہوتی۔یہ اور بات ہے کہ ان کی چڑیا کی لائی ہوئی ’’اندرونی‘‘ خبریں سچ کم اور گپ بازی زیادہ ثابت ہوئی ہیں۔   لوگ انہیں دلچسپی سے سنتے تھے۔ لیکن جس دن ان کی چڑیا اندرونی سیاست کے نام پر یہ خبر لائی کہ عمران خان اگلے دن اپنی اہلیہ اور پاکستان کی خاتون اول بشریٰ بیگم کو طلاق دےدیں گے،اور وہ خبر بھی ان کی باقی خبروں کی طرح جھوٹ اور گپ نکلی، اسی دن ہندوستان اور پاکستان میں لوگوں نے ان کوصحافی کے بجائے چڑیمار کہنا شروع کر دیا۔ حامد میر کو بھی ہندوستان میں بے باک اور نڈر صحافی سمجھا جاتا تھا۔ لیکن جس دن وہ فضل الرحمان کی جمعیت  العلماء پاکستان کے ڈنڈابردار رضاکاروں ’انصار الاسلام‘ کی وردی زیب تن کئے ہوئے ان کے دھرنے میں شامل نظر آئے۔ اسی دن انہوں نے اپنی صحافی کی حیثیت مٹی میں ملا دی۔ اگر مذکورہ پاکستانی صحافی بھی عمران خان اور ان کی ٹیم کی نا تجربہ کاری، نا اہلی، نا پختہ کاری اور بد حکومتی کی تنقید کرتے یا ان کی اس روش کی مذمت کرتے کہ وہ ایسے نااہلوں کا بھی دفاع کرتے ہیں، جن سے عوام کو شکایت ہے تو وہ یقیناََ حق بجانب ہوتے اوراگر عمران خان ان کی سنی ان سنی کر رہے ہوتے تو عمران خان اور بھی سخت تنقید کے مستحق ہوتے۔ایسی صورت میں میڈیا کارویہ قابل فہم بھی ہوتا۔ لیکن پاکستان کا میڈیا عمران خان کی مخالفت ہی نہیں ساتھ ہی ساتھ نواز شریف، شہبازشریف، آصف زرداری اور فضل الرحمان کی حمایت بھی کر رہا تھا۔ وہ نواز شریف جو ایک سزا یافتہ مجرم ہیں، جنہیں پاکستان کی سب سے بڑی عدالت نے سیاست میں حصہ لینے کے لئے تا حیات نا اہل قرار دے رکھا ہے۔وہ شہباز شریف ، جو آج تک یہ نہیں بتا پائے کہ ان کے چپراسی مقصود کے بینک اکائونٹ میں پونے چار ارب کہاں سے آئے تھے اور پھر ان کے اکائونٹ میں کیسے چلے گئے، وہ آصف زرداری جن کی بدعنوانی پر بی بی سی دو ڈاکیومنٹری فلمیں بنا چکا ہے۔ جن کو امریکی میڈیا نے ’’مسٹر ۱۰؍پرسنٹ‘‘ کا خطاب دیا تھا، کیونکہ بے نظیر جب وزیر اعظم تھیں تو ہر تجارتی سودے میں ان کے شوہر کا دس فیصد کمیشن لازمی سمجھا جاتا تھا۔ وہ فضل الرحمان جو اپنے مدارس کے بچوں کو سڑکوں پر لا کر اپنی سیاست کو فروغ دیتا ہے۔ جو لوگ پاکستان کے موجودہ سیاسی ماحول پر نظر رکھے ہیں، انہیں صاف نظرآتا ہے کہ پاکستان کا مین اسٹریم میڈیا اور اس کے صحافی اور اینکرس عمران خان کے ساتھ وہی سلوک کررہے ہیں جو برادرانِ یوسف نے کیا تھا بالکل ان کے سوتیلے بھائیوں کی طرح کاسلوک۔اسی بنا پر پاکستان کی مین اسڑیم میڈیا کو سوتیلا میڈیا کہا جاسکتا ہے۔مضمون کااختتام ہم ایک واقعہ سنا کر کرنا چاہتے ہیں۔ واقعہ اس وقت کا ہے جب کورونا کے قہر کا آغاز ہی ہوا تھا۔عمران خان پر چاروں طرف سے دبائوپڑ رہا تھا کہ ملک بھر میں مکمل لاک ڈائون کیا جائے۔ عمران انکاری تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ مکمل لاک ڈائون کر دیاگیاتو اس دہاڑی مزد ور اور خوانچہ فروش کا کیا ہوگا جو روز کماتا ہے ،خود کھاتا ہے اور کنبہ کو کھلاتا ہے ۔ سوتیلے میڈیا کے ایک معروف اینکر محمد مالک عمران سے بات کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اگر مکمل لاک ڈائون نہ لگایا گیا اور تباہی پھیلی توآپ کا گریبان پکڑوں گا۔ہمیں معلوم نہیں کہ دور عمرانی میں صحافی اور صحافت کو پاکستان میں کتنی آزادی حاصل رہی ہے لیکن ہمیں یہ ضرور معلوم ہے کہ ایشیا کے کسی اور ملک کا صحافی سربرا ہِ حکومت سے یہ بات کہتا تو آج کہاں ہوتا۔ بفضل خدامحمد مالک آج بھی وہیں ہیں جہاں گریبان پکڑنے کی دھمکی دینے سے پہلے موجود تھے ۔محمد مالک ذرا پاس پڑوس کے گھروں میں بھی جھانک کر دیکھ لیں کہ وہاں صحافی اور صحافت کس حال میں ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK