Inquilab Logo

ہند چین تنازع

Updated: June 19, 2020, 9:45 AM IST | Editorial

ایسے وبائی دور میں جب پوری دُنیا ایک خطرناک نادیدہ لیکن مشترکہ دشمن سے لڑرہی ہو، کسی ملک کا دوسرے کے خلاف جارحیت پر اُتر آنا انسانی و اخلاقی اور بین الاقوامی ضابطوں کی شرمناک خلاف ورزی ہے جس سے چین کی فطرت جگ ظاہر ہوجاتی ہے کہ وہ کس طرح دوسروں کی پریشانی اور اُن کی آزمائش سے اپنے ظالمانہ مفادات کی تکمیل کو مقدم رکھتا ہے۔

India and China - Pic : INN
انڈیا اور چین ۔ تصویر : آئی این این

ایسے وبائی دور میں جب پوری دُنیا ایک خطرناک نادیدہ لیکن مشترکہ دشمن سے لڑرہی ہو، کسی ملک کا دوسرے کے خلاف جارحیت پر اُتر آنا انسانی و اخلاقی اور بین الاقوامی ضابطوں کی شرمناک خلاف ورزی ہے جس سے چین کی فطرت جگ ظاہر ہوجاتی ہے کہ وہ کس طرح دوسروں کی پریشانی اور اُن کی آزمائش سے اپنے ظالمانہ مفادات کی تکمیل کو مقدم رکھتا ہے۔ ہندوستان اِس وقت اپنی ساری توجہ اورتوانائی کورونا کی وباء کے خاتمے پر مرکوز کئے ہوئے ہے۔ کل اسی بحران سے بیجنگ ہلکان تھا اور اس کی بھی ساری توجہ اور توانائی کورونا سے نمٹنے پر صرف ہورہی تھی۔ اُس وقت تونئی دہلی نے ایسی کوئی پیشقدمی نہیں کی بلکہ آزمائش کی اس گھڑی میں بیجنگ سے ہمدردی رکھی۔ ضرورت ہوتی یا چین کی جانب سے مطالبہ ہوتا تو نئی دہلی کورونا کے خلاف چین کو ہرممکن تعاون دیتا جیسا کہ امریکہ نے مطالبہ کیا تو ہندوستان نے اسے ملیریا کے علاج میں استعمال ہونے والی ہائیڈروآکسی کلوروکوین نامی دوا فراہم کی ۔ مصیبت کے وقت میں مدد کرنا عالم انسانیت کی خو ‘ ہے اور دُنیا اسی طرز عمل پر یقین رکھتی ہے۔ ہر چھوٹے بڑے ملک سے اسی کی توقع کی جاتی ہے مگر شاید ایسے اُصول اُن ملکوں کیلئے نہیں ہیں جو کسی اُصول کو ماننا نہیں چاہتے۔ 
 بیجنگ نے لداخ میں جس جارحیت کا مظاہرہ کیا وہ ایسی شرانگیزی ہے کہ بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کرنے والے جمہوری ہندوستان کے علاوہ کوئی اور ملک ہوتا تو اس سے اُلجھ جاتا اور ممکنہ طور پر اسے اچھا خاصا سبق سکھا دیتا۔ نئی دہلی نے مذاکرات کو اوّلیت دی او ر اب بھی دے رہا ہے۔ اس دوران بیجنگ کی شیطنت کو روکنے کیلئے اس سے دو دو ہاتھ بھی کرنے پڑے۔ ان جھڑپوں کے باوجود مذاکرات پر اصرار ضروری اور عالمی سفارت کاری میں کلیدی اہمیت کا عمل ہے۔ مذاکرات کو فوقیت دے کر نئی دہلی نے دُنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ گفتگو کے ذریعہ پُرامن حل نکالنا ہی مسائل سے نمٹنے کا بہترین طریقہ ہوسکتا ہے جس پر دُنیا کے ہر ملک کو کاربند رہنا چاہئے۔ یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ جنگ کسی مسئلہ کا حل نہیں ہے بالخصوص ایسے دور میں جب پوری دُنیا ایک گلوبل ولیج کی حیثیت رکھتی ہے اور کوئی بھی ملک دوسروں سے کٹ کر نہیں رہ سکتا۔ یہ بات اس وقت بھی کہی گئی تھی جب امریکہ نے ’’امریکہ پہلے‘‘ کی نئی پالیسی کو اولیت دے کر دُنیا کے دیگر ملکوں سے اپنے روابط اپنی یکطرفہ اور غیر متوازن شرطوں پر استوار رکھنے کی کوشش کی۔ فی زمانہ یہ ممکن نہیں ہے۔ 
 بیجنگ کی جارحیت کا ایک سبب ’’موقع سے فائدہ اُٹھانا‘‘ ہے۔ اس نے دیکھا کہ نئی دہلی کورونا کی وبا سے نمٹنے میں اپنی پوری توانائی صرف کررہا ہے۔ اسے امریکہ کا سپورٹ مل سکتا تھا مگر اس کے ایجنڈے میں بھی فی الحال کورونا سے نمٹنا، سیاہ فاموں کا احتجاج اور صدارتی انتخابات ہیں اس لئے یہ ’’موقع‘‘ ہے کہ ہندوستان کوتنگ کیا جائے جو ممکنہ طور پر بیرونی سرمایہ کاروں اور کمپنیوں کیلئے ایک اچھا متبادل ہوسکتا ہے۔ ایک سابق ہندوستانی سفارتکار ٹی پی سری نواسن نے اس سلسلے میں جو کچھ کہا اس کا مفہوم یہ ہے کہ۱۹۶۲ء کی جنگ کے دوران بھی بیجنگ کا رویہ ایسا ہی تھا۔ اُس وقت امریکہ کیوبا کے بحران میں اُلجھا ہوا تھا۔ اس کا فائدہ اُٹھا کر چین، ہندوستان سے جنگ کرتا رہا مگر جیسے ہی کیوبا کا بحران ختم ہوا اور امریکہ اس قابل ہوا کہ کسی دوسری طرف توجہ مبذول کرسکے، چین نے ہندوستان کے خلاف جنگ روک دی۔  
 اِدھر نیپال نے بھی نقشے میں تبدیلی کرکے ہند مخالف تیور اپنائے ہیں چنانچہ جو بات ہم نے چین کے تعلق سے کہی وہی نیپال کیلئے بھی کہی جائیگی کہ مذاکرات کے ذریعہ پُرامن حل ہماری اولین ترجیح ہونی چاہئے!

china ladakh Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK