• Wed, 19 November, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

جنگ بندی مکمل ہو، ادھوری نہیں!

Updated: October 10, 2025, 4:49 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

حماس اور اسرائیل میں معاہدۂ جنگ بندی پر دستخط ہوجانے کے بعد اس کی شقوں کا نفاذ بھی فوری طور پر کیا جارہا ہے یہ اس وقت کی اہم خبر ہے۔

Picture: INN
تصویر: آئی این این
حماس اور اسرائیل میں معاہدۂ جنگ بندی پر دستخط ہوجانے کے بعد اس کی شقوں کا نفاذ بھی فوری طور پر کیا جارہا ہے یہ اس وقت کی اہم خبر ہے۔ دو سال کے طویل عرصہ تک جاری رہنے والی انسانی تاریخ کی بدترین جنگوں میں سے ایک  کے بعد، جس میں نہتے اہل غزہ پر اسلحہ کی بارش جاری رہی، اس معاہدہ سے اہل غزہ کو راحت کا سانس لینے کا موقع ملے گا حالانکہ یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ راحت کتنی دیر پا ہوگی اور اسرائیل کی حکومت معاہدہ میں طے کی گئی باتوں کو کس حد تک عمل میں لائے گی۔ اس حقیقت کو فراموش نہیں کیا جاسکتا کہ اس سے قبل بھی نیتن یاہو کی حکومت نے وعدہ خلافی کی ہے اس لئے جنگ بندی سے اطمینان کے باوجود شک و شبہ کو بے بنیاد نہیں کہا جاسکتا۔ معاہدہ کے تحت حماس ۲۰؍ اسرائیلی یرغمالوں کو، جو بقید حیات ہیں، رِہا کرے گا (جو فوت ہوچکے اُن کے جسد خاکی بعد میں دیئے جائینگے) جس کے جواب میں تل ابیب ۲؍ ہزار فلسطینی قیدیوں کو آزاد کریگا۔ 
تل ابیب کی نیت کیا ہے اس کا اندازہ کرنے کیلئے طویل انتظار کی ضرورت نہیں۔ ۲۰؍ اسرائیلی یرغمالوں کے رِہا ہوتے ہی جگ ظاہر ہوجائیگا کہ اسرائیل اپنے وعدے کا کتنا پابند ہے، وہ ۲؍ ہزار فلسطینیوں کو رہا کرتا ہے یا نہیں اور اگر رہا کرتا ہے تو کیا دوبارہ قید نہیں کریگا۔ اسے اپنی فوج کو غزہ سے واپس بھی بلانا ہے چنانچہ دیکھنا ہوگا کہ اس فوجی انخلاء کی شکل کیا اور کس حد تک ہوگی۔ چونکہ نوبیل برائے امن کا اعلان آج ہی کل میں ہونا ہے اس لئے معاہدہ کی تاریخ بھی شک و شبہ میں مبتلا کرتی ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ یہ اتفاق ہے یا سوچی سمجھی منصوبہ بندی اور کیا اتنے کم وقت میں نوبیل کمیٹی، امن کے نوبیل انعام کیلئے صدرِ امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ کے نام کا اعلان کردے گی یا نہیں، مگر، گمان غالب ہے کہ اُنہیں اسی سال یہ انعام نہیں ملے گا۔ اس کی وجوہات ہیں۔ غزہ کے خلاف جنگ واقعی بند ہوتی ہے یا نہیں یہ دیکھنا باقی ہے۔ دوسری بات یوکرین کی جنگ ہے جو ہنوز جاری ہے اور ٹرمپ اس کو نہیں رُکوا پائے ہیں۔ جو بھی ہو، ٹرمپ کو نوبیل اس سال مل جائے یا فیصلہ آئندہ سال کیلئے محفوظ کیا جائے، ٹرمپ کیلئے لازم ہے کہ وہ تل ابیب کو اپنے دباؤ میں رکھیں اور جنگ بندی کی خلاف ورزی کے خلاف متنبہ کرتے رہیں۔ 
امریکہ کے علاوہ جن ملکوں نے ثالثی میں اہم کردار ادا کیا اُن کی آزمائش ابھی ختم نہیں ہوئی ہے۔ اُنہیں فوری طور پر اہل غزہ کیلئے ضروری غذائی اور طبی امداد روانہ کرنی ہوگی اور پھر ان کی بازآبادکاری پر توجہ دینی ہوگی۔ یہ تبھی ہوگا جب تل ابیب، غزہ کا محاصرہ ختم کریگا۔ معاہدۂ جنگ بندی میں جتنی تاخیر ہوئی ہے اُتنی ہی تعجیل امداد کی فراہمی میں ہونی چاہئے۔ پڑوسی ملکوں کو اس کارِ خیر میں زیادہ فعالیت کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔چونکہ ابھی غزہ میں کوئی انتظامیہ نہیں ہے اس لئے بہت سے کاموں کی ترتیب اور تنظیم میں کافی دقتیں آسکتی ہیں۔ اقوام متحدہ اس میں نہایت عمدہ کردار ادا کرسکتا ہے اگر اس کے مزید رضاکار فوری طور پر غزہ روانہ کردیئے جائیں جو، وہاں پہلے سے موجود والنٹیئرس کے شانہ بہ شانہ راحتی کام انجام دیں۔ 
بعض خبروں کے مطابق ٹرمپ اتوار کو اسرائیل جائینگے اور اسرائیلی پارلیمنٹ سے خطاب کرینگے۔ اگر اس سلسلے کی خبریں درست ہیں تو اُنہیں غزہ کا بھی دورہ کرنا چاہئے جہاں نیتن یاہو کی فوج نے ۶۶؍ ہزار افراد کو موت کے گھاٹ اُتارا ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK