Inquilab Logo Happiest Places to Work

ایکسٹرا مائل چلنے کی خوبی اور اساتذہ

Updated: July 20, 2025, 2:32 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

قیامت آنے میں کتنا وقت باقی ہے اس کی پیش گوئی کوئی نہیں کرسکتا۔ اسی طرح کوئی یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ تب تک مزید کتنے تغیرات رونما ہونگے، کتنی خرابیاں آئینگی یا کتنی خوبیاں پیدا ہوں گی، کتنے اور کیسے انقلابات آئینگے اور جو کچھ برپا ہوگا وہ کتنا مثبت اور کتنا منفی ہوگا۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 قیامت آنے میں  کتنا وقت باقی ہے اس کی پیش گوئی کوئی نہیں  کرسکتا۔ اسی طرح کوئی یہ بھی نہیں  کہہ سکتا کہ تب تک مزید کتنے تغیرات رونما ہونگے، کتنی خرابیاں  آئینگی یا کتنی خوبیاں  پیدا ہوں  گی، کتنے اور کیسے انقلابات آئینگے اور جو کچھ برپا ہوگا وہ کتنا مثبت اور کتنا منفی ہوگا۔ یہ سمجھنا غلط ہے کہ موجودہ دور بے شمار خرابیوں  کا حامل ہے اس لئے اندیشہ ہے کہ آئندہ زمانوں  میں  اب سے کہیں  زیادہ خرابیاں  پیدا ہوں  گی کیونکہ ہم نے خرابیوں  کے پھیلاؤ کو امیبا کی افزائش کی طرح دیکھا ہے۔ اس سلسلے میں  یہ فراموش نہیں  کیا جاسکتا کہ وقت اور حالات بدلتے رہتے ہیں  اور آج کی خرابی کل کی خرابیوں  کا نقطۂ آغاز نہیں  ہوسکتی۔ 
 تو کیا انسان کل رونما ہونے والے انقلابات کے انتظار میں  رہے اور کچھ نہ کرے؟ جی نہیں ۔ اگر یہ قوی امکان ہو کہ ہمارے جیتے جی کوئی انقلاب برپا نہیں  ہوسکتا تب بھی ہر اُس شخص کو، جو کچھ کرسکتا ہے اور کسی خوشگوار تبدیلی کی بناء رکھ سکتا ہے، اُسے اِس کارِ خیر سے پیچھے نہیں  ہٹنا چاہئے۔ یہ خیال کہ ہمارے کرنے سے کیا ہوگا کچھ نہ کرنے کا بہانہ ہے۔ جو لوگ کام پر یقین رکھتے ہیں  اور کارِ خیر کی انجام دہی میں  صلے کی پروا نہیں  کرتے اُنہیں  بے یقینی کی زمین پر یقین کا بیج بوتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔ اُنہو ں نے بنجر زمینوں  پر کاشت کی۔آنکھ بند ہونے تک اُنہیں  پھل دیکھنا نصیب نہیں  ہوا مگر جب آنکھ بند ہوئی تو اُن کے چہرے پر اطمینان تھا، ایسا لگتا تھا جیسے اُن کی پیشانی پر فارسی کا یہ مصرعہ تحریر ہو: ’’شادم از زندگی ٔ خویش کہ کارے کردم‘‘ (مفہوم: میں  اپنی زندگی سے خوش ہوں  کہ جو ممکن تھا کرگزرا)۔
 بہت سے پُرجوش لوگ ایک عرصے تک اپنی کاوشوں  کے ثمر بار ہونے کا انتظار کرتے ہیں ، پھر بددل ہوکر بھری محفل میں  گوشہ نشینی اختیار کرلیتے ہیں ۔ ہم نے بعض اساتذہ کو یہ کہتے ہوئے پایا ہے کہ ’’جناب، بہت کوشش کی، مگر جب کوئی تغیر رونما نہیں  ہوا تو ہم نے سب کچھ چھوڑ دیا، اب صرف ملازمت اور اس دُعا کے ساتھ سبکدوشی کا انتظار کررہے ہیں  کہ عزت و آبرو کے ساتھ باقیماندہ دن پورے کرلیں ۔‘‘ ہم ایسے اساتذہ کی قدر کرتے ہیں  جو پوری ایمانداری کے ساتھ اپنی خدمات انجام دیتے ہیں  مگر دورِ جدید کے تقاضوں  کے پیش نظر اضافی قدم بڑھانا اور بڑھاتے رہنا (ایکسٹرا مائل چلنا)، طلبہ کی ذہنی و نفسیاتی نشوونما اور اُن کی قابل رشک تعلیمی ترقی کے مقصد سے زیادہ فعالیت کے ساتھ سرگرم رہنا اور اس جدوجہد میں  ستائش کی تمنا سے بالاتر رہنا وہ غیر معمولی خوبی ہے جو اُنہیں  غیر معمولی صلہ دے گی اور خدا نے چاہا تو آئندہ زندگی میں  وہ ہمیشہ سکون و اطمینان محسوس کرینگے۔ 
 اس سلسلے میں  ایک بات اکثر فراموش کردی جاتی ہے کہ استاد کو شاذ و نادر ہی معلوم ہوتا ہے کہ اُس کا کون سے شاگرد نے کون سے کارہائے خیر انجام دیئے جن کی ترغیب استادِ محترم نے دلائی تھی۔ معلم صرف نصاب نہیں  پڑھاتا، اپنے علم، گفتگو، چال ڈھال اور قیمتی مشوروں  سے طلبہ کو مستفید بھی کرتا رہتا ہے۔ اُسے کبھی یہ علم نہیں  ہوپاتا کہ اُس کی کس خوبی، کس ادا اَور کس بات سے کس طالب علم نے کیا فیض پایا۔ معلم نیکی کرتا اور دریا میں  ڈالتا رہتا ہے۔ تنخواہ تو اُسے اٹینڈنس بُک میں  دستخط کی ملتی ہے، اصل کمائی طلبہ کے مستقبل کی شکل میں  محفوظ ہوتی رہتی ہے۔ وہ اس دولت کو کبھی نہیں  دیکھ پاتا البتہ کبھی کبھی ایسا ہوجاتا ہے کہ کوئی طالب علم سامنے آکر اظہار کرتا ہے کہ (سر یا میڈم) مَیں  جو کچھ ہوں  آپ کی وجہ سے ہوں ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK