• Tue, 02 December, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

جب دو درجن اَموات سے بھی کچھ نہ ہو!

Updated: December 02, 2025, 2:26 PM IST | Inquilab News Network | mumbai

ایس آئی آر نے ملک کو عجیب و غریب حالات سے دوچار کردیا ہے۔ بی ایل اوز کی اموات کی خبریں اب تواتر کے ساتھ آرہی ہیں ۔ ایس آئی آر مہم پر اکثر اساتذہ کو مامور کیا گیا ہے جن کا کام پڑھانا لکھانا ہے۔ انہیں اپنے فرض منصبی سے ہٹا کر اس خصوصی مہم پر مامور کرنا کتنا درست ہے یہ اہم سوال ہے مگر چونکہ حالات ناگفتہ ہیں اور سب کی نگاہ ان حالات پر ہی ہے اس لئے کوئی یہ نہیں پوچھ رہا کہ اگر اساتذہ کلاس روم سے غیر حاضر ہوں گے تو طلبہ کی تعلیمی تربیت و رہنمائی کا کیا ہوگا؟

INN
آئی این این
ایس آئی آر نے ملک کو عجیب و غریب حالات سے دوچار کردیا ہے۔ بی ایل اوز کی اموات کی خبریں  اب تواتر کے ساتھ آرہی ہیں ۔ ایس آئی آر مہم پر اکثر اساتذہ کو مامور کیا گیا ہے جن کا کام پڑھانا لکھانا ہے۔ انہیں  اپنے فرض منصبی سے ہٹا کر اس خصوصی مہم پر مامور کرنا کتنا درست ہے یہ اہم سوال ہے مگر چونکہ حالات ناگفتہ ہیں  اور سب کی نگاہ ان حالات پر ہی ہے اس لئے کوئی یہ نہیں  پوچھ رہا کہ اگر اساتذہ کلاس روم سے غیر حاضر ہوں  گے تو طلبہ کی تعلیمی تربیت و رہنمائی کا کیا ہوگا؟
اساتذہ کی تنظیمیں  اس کی مخالفت کررہی ہیں  اور حقیقت یہ ہے کہ جب جب اساتذہ کو درس و تدریس سے ہٹا کر کسی اور کام پر مثلاً مردم شماری، انتخابی فہرستوں  کی درستی وغیرہ کی ذمہ داری دی گئی، تب تب اساتذہ کی تنظیموں  نے مزاحمت کی مگر اربابِ اقتدار نے نہ تو اس کو قابل اعتناء سمجھا نہ ہی اساتذہ کی دشواریاں  دور کرنے پر توجہ دی۔ یہ سب چل ہی رہا تھا کہ آئی آر نے بہت کچھ تہ و بالا کردیا۔ اب تک کئی بی ایل او خود کشی کرچکے ہیں  جن کی تعداد دو درجن سے زیادہ بتائی جارہی ہے۔ شکایت کرنا، دھرنا دے کر یا مظاہرہ کرکے اپنا مطالبہ ارباب اقتدار تک پہنچانا معمول ہے مگر تنگ آکر جان دے دینا معمول نہیں  ہے۔ سمجھا جاسکتا ہے کہ ایسا تبھی ہوتا ہے جب صورت حال قابو سے باہر ہو۔ یوپی کے شہر مراد آباد کے معاون معلم سرویش کمار (۴۶؍ سال) کا وہ ویڈیو دل دہلانے والا ہے جس میں  اُنہوں   نے کہا : ’’ماں  میرے بچوں  کا خیال رکھنا، الیکشن کے کام میں  ناکامی کے بعد اب ایک قدم اُٹھانے جارہا ہوں ، اس کیلئے مَیں  ہی ذمہ دار ہوں ، اس میں  کسی کا قصور نہیں ، مَیں  کسمپرسی کی حالت میں  ہوں ، بیس دن سے سو نہیں  سکا، میری چار چھوٹی چھوٹی بیٹیاں  ہیں ، مجھے معاف کرنا، مَیں  اس دُنیاسے بہت دور جارہا ہوں ۔‘‘ 
این ڈی ٹی وی نے اس خبر کے ساتھ جو تصویر اپنی ویب سائٹ پر پوسٹ کی ہے اس میں  سرویش کمار کو روتے بلکتے دیکھا جاسکتا ہے۔ کیا الیکشن کمیشن ملک بھر میں  پھیلے ہوئے تعلیم یافتہ بے روزگار نوجوانوں  کو اس مہم پر مامور نہیں  کرسکتا تاکہ اُنہیں  عارضی ہی سہی، روزگار مل جائے اور اِن اساتذہ کی جان چھو‘ٹے جن کا کام ایس آئی آر نہیں  ہے مگر اُنہیں ، نہ صرف یہ کہ مجبور کیا گیا ہے بلکہ مختصر سی ڈیڈ لائن کی وجہ سے وقت پر کام پورا کرنا اُن کیلئے مصیبت بن گیا ہے؟ بی ایل اوز کو شکایت ہے کہ کم وقت میں  زیادہ کام کے باوجود اُنہیں  قابل قدر محنتانہ نہیں  دیا جاتا اور اگر کام میں  تاخیر ہوجائے تو افسرانِ بالا سخت سست کہتے ہیں  حتیٰ کہ تحقیر آمیز زبان استعمال کرتے ہیں ۔ کیا بی ایل او بنائے گئے سرکاری ملازمین کو غلام سمجھ لیا گیا ہے؟ کیا جو کچھ ہورہا ہے وہ حقوق انسانی کی خلاف ورزی نہیں ؟
کئی بی ایل اوز کہہ چکے ہیں  کہ رائے دہندگان کی جانب سے اُنہیں  تعاون نہیں  ملتا۔ تو کیا رائے دہندگان کو قصور وار ٹھہرایا جانا چاہئے؟ جی نہیں ، قصور انتخابی کمیشن کا ہے جس نے ایس آئی آر کیلئے عوامی بیداری مہم نہیں  چلائی بلکہ پہلے بہار میں  اور اس کے بعد بارہ ریاستوں  اور مرکزی علاقوں  میں  اسے فی الفور نافذ کیا۔ 
جہاں  ہمیں  خود کشی جیسا انتہائی قدم اُٹھانے والے بی ایل اوز کی موت کا غم ہے اور اُن کے اہل خانہ سے ہمدردی ہے وہیں  یہ سو ال پریشان کررہا ہے کہ کیا انتخابی کمیشن تب ہوش میں  آئے گا جب مزید بی ایل اوز اپنی جان گنوا دیں  گے! 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK