ٹرمپ ،مسک ، صہیونی لابی اور امریکی میڈیا کی شدید مخالفت کے باوجود ظہران ممدانی کا، جو ہندنژاد ہیں اور جن کا جنم افریقہ میں ہوا ، نیویارک کا مئیر منتخب ہونا بہتوں کو اب بھی ہضم نہیں ہوا ہوگا۔ اُن کو اشرافیہ کی نہیں عوام کی حمایت حاصل تھی۔
ظہران ممدانی نے نیویارک کے مئیر کا الیکشن جیت کر ناممکن کو ممکن بنایا ہے۔ انہوں نے صرف اینڈریو کومو کو ہی شکست نہیں دی، دنیا کے طاقتورترین شخص امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کو بھی ہرایا اور دنیا کے امیر ترین شخص ایلون مسک کو بھی۔ انہوں نے دنیا کی سب سے بااثر اور دولتمند صہیونی لابی کو بھی شکست دی جس نے ظہران کو روکنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا تھا۔ امریکی ارب پتیوں اور نیویارک ٹائمز جیسے بااثر اخبار کی مخالفت کے باوجود ظہران جیتے۔ سماجی اور اقتصادی اشرافیہ، طاقتور میڈیا اور امریکی سیاسی اسٹیبلشمنٹ کے گٹھ جوڑ نے ظہران کو ہرانے کا ہر حربہ آزماکے دیکھ لیا لیکن انہیں نہیں روک سکا۔
نیویارک میں ، جسے Capital of Capitalism کہا جاتا ہے، ظہران نے سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف یہ ہکہ کر اعلان جنگ کر دیا کہ ان کے خیال میں ملک میں ارب پتی نہیں ہونے چاہئیں ۔ انہوں نے دھنا سیٹھوں پر دو فی صد اضافی انکم ٹیکس عائد کرنے کے اپنے پلان کا اعلان کرکے سرمایہ داروں کو اور ناراض کردیا۔ ارب پتیوں نے ان کے خلاف محاذ کھول دیا اور کومو (ظہران کے حریف اُمیدوار) کیلئے اپنے خزانوں کے منہ کھول دیئے۔ ظہران اس امریکہ میں اپنا تعارف ڈیموکریٹک سوشلسٹ کی حیثیت سے کراتے ہیں جہاں لوگوں کو سوشلسٹ یا کمیونسٹ لفظ سے ہی الرجی ہے۔ ظہران کے ساتھ ایک بڑامسئلہ ان کی مذہبی شناخت کا بھی تھا۔ نیویارک وہ شہر ہے جہاں ۹/۱۱ کی وجہ سے اسلاموفوبیامیں بے پناہ اضافہ ہوا۔ ظہران بلاجھجھک اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کرکے اسی شہر کی قیادت کے دعویدار بنے۔ان کے مخالفین نے انہیں کمیونسٹ کا لقب بھی دیا اور جہادی کا بھی۔انہیں یہود مخالف بھی کہا گیا اور ہندو ورودھی بھی۔انہیں کبھی حماس کا حمایتی قرار دیاگیا تو کبھی حزب اللہ کا۔
ٹرمپ نے پچھلے دس ماہ سے پورے امریکہ میں تارکین وطن کے خلاف بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن کررکھا ہے اورامیگریشن پولیس ICE مہاجرین کی دھر پکڑ میں مصروف ہے۔ امیگرنٹس کے خلاف ایسے ماحول میں ظہران کا، جو ہندوستانی نسل کے ہیں اور جن کا جنم افریقہ میں ہوا، نیویارک کا مئیر منتخب ہونا کسی معجزے سے کم نہیں ہے۔ ظہران کی جیت اس لئے بھی انوکھی ہے کیونکہ ان کا مقابلہ صرف سیاسی حریف ری پبلیکن پارٹی سے نہیں تھا بلکہ خود اپنی ڈیموکریٹک پارٹی سے بھی تھا۔ری پبلیکن پارٹی کا امیدوار کرٹس سلوا تو تیسرے نمبر پر آیا۔ ظہران کے مقابلے پر تو ڈیموکریٹ لیڈر اینڈریوکومو تھے جنہیں وہ پرائمری میں ہراچکے تھے لیکن پھر بھی وہ آزاد امیدوار بن کر میدان میں اُترے تھے۔ ظہران کوروکنے کی خاطر پورا امریکی اسٹیبلشمنٹ کومو کی حمایت کررہاتھا۔ ٹرمپ نے اپنی ری پبلیکن پارٹی کے امیدوارسلوا کے بجائے کومو کی سرپرستی کی۔ ڈیموکریٹک پارٹی کے بڑے بڑے لیڈران خواہ جو بائیڈن ہوں یا بارک اوبامہ، حکیم جیفریز ہوں یا چک شومر کسی نے بھی ظہران کی حمایت نہیں کی۔
ان سب کے باوجود ظہران نے اتنی بڑی فتح حاصل کی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انہیں عام نیویارکرکی حمایت حاصل تھی۔ ان کی پوری انتخابی مہم عوام نے چلائی۔ ایک لاکھ نوجوان رضاکاروں نے گھر گھر جاکر ظہران کا پیغام پہنچایا۔ دوسرے لیڈروں کی طرح ظہران نے صرف اپنے من کی بات ہی نہیں کی بلکہ لوگوں کی بات بھی پوری دلجمعی سے سنی۔ اس طرح انہیں نیو یارک باسیوں کی زندگی کے حقیقی مسائل کا صحیح ادراک ہوا۔ نیو یارک دُنیا کا امیر ترین شہر ضرور ہے لیکن یہاں بھی بے شمار لوگوں کو دا ل روٹی ( بریڈ اینڈ بٹر)کامسئلہ لاحق ہے۔ وہ بھی اشیائے خوردونوش کی بڑھتی قیمتوں سے عاجز ہیں ۔ مکان کے آسمان چھوتے کرایہ کی وجہ سے لاکھوں لوگ نیویارک چھوڑکر پنسلوانیا اور دیگر شہروں میں منتقل ہورہے ہیں ۔لاکھوں لوگوں کو سب وے اور بسوں کا کرایہ بھی گراں گزرتا ہے اور ڈاکٹروں کی اونچی فیس بھی۔ بڑھتی مہنگائی سے نیویارکرز کو بھی اپنی کم تنخواہ میں گزارہ مشکل لگتا ہے۔ ظہران نے اہل ِنیو یارک کے ان بنیادی مسائل کو غور سے سنا، سمجھااوران کا قابل عمل حل نکالنے کا صرف وعدہ نہیں کیابلکہ ایک ٹھوس اور جامع روڈ میپ پیش کیا۔ ان کی سمجھ میں آگیا تھا کہ معاشی مصائب سے دوچار شہریوں کی اولین ضرورت معاشی انصاف ہے۔
چابکدستی سے چلائی گئی انتخابی مہم اور سوشل میڈیا کے موثر استعمال نے ممدانی کی جیت میں اہم کردار ادا کیا لیکن ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ صرف ماہرانہ مارکیٹنگ کے ذریعہ آپ کسی ناقص چیز کو آسانی سے نہیں بیچ سکتے ۔ جب تک آپ کے پروڈکٹ میں دم نہیں ہوگا تب تک آپ کو لاکھوں خریداروں کی سرپرستی حاصل نہیں ہوگی۔ ظہران نے بلاشبہ عدیم المثال مارکیٹنگ کی لیکن انہیں اتنا بڑا مینڈیٹ اسلئے ملا کیونکہ لوگوں کو ان کی باتوں میں سچائی اور ایمانداری نظر آئی۔ انہیں لگا کہ ظہران عام سیاستدانوں سے الگ ہیں کیونکہ وہ بھی ان کی طرح زمینی انسان ہیں اور اسی لئے انہوں نے انہیں ایک موقع دینے کا فیصلہ کیا۔ ظہران کی کامیابی کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے اقدار اور اصولوں سے سمجھوتہ نہیں کیا۔گورننس کے متعلق ان کے جو نظریات ہیں وہ انہوں نے من و عن عوام کے سامنے پیش کئے۔ لوگوں کو ان کا Courage of Conviction پسند آیا۔ روایتی سیاستدانوں کی ریاکاری کے بجائے ان کی زبان پر وہی تھا جو ان کے دل میں تھا۔ ظہران نے نیویارک میں معاشی انصاف کے ایجنڈہ پر الیکشن لڑا اور عوامی حمایت حاصل کی۔ظہران ملک اور معاشرہ میں دولت کی مساوی یا کم از کم بہتر تقسیم کی وکالت کرتے ہیں ۔نیویارک شہر پر صرف امیروں اور بااختیار لوگوں کا ہی نہیں محنت کشوں کا بھی حق ہے اور ظہران نے اُن کو ان کا یہ حق دلانے کی لڑائی لڑی۔
ظہران نے نہ تو فلسطین کے کاز سے منہ موڑا نہ ہی اسرائیل کی تنقید سے پیچھے ہٹے۔ وہ غزہ میں جاری نسل کشی کو نسل کشی کہنے سے بھی نہیں ہچکچائے۔ سب سے اہم یہ اعلان تھا کہ اگر نیتن یاہو نے نیویارک میں قدم رکھا تو وہ انہیں گرفتار کرنے سے نہیں چوکیں گے کیونکہ آئی سی سی نے انہیں جنگی مجرم قراردیا ہے۔ امریکی سیاست میں اسرائیل کی خوشنودی حاصل کئے بغیر کسی پارٹی یا امیدوار کی کامیابی ممکن نہیں ۔ ظہران نے ڈنکے کی چوٹ پر نیتن یاہو کی صہیونی پالیسیوں کی مذمت کرنے کے باوجودنیو یارک کے ایک تہائی یہودیوں کے ووٹ لئے اور یہ الیکشن جیت کر بلاشبہ تاریخ رقم کی ہے۔