• Fri, 20 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

ہندوستان کا وزیر اعظم کون ہے؟

Updated: August 06, 2024, 1:21 PM IST | Hasan Kamal | Mumbai

نریندر مودی کو اب یہ سمجھ میں آنے لگا ہے کہ ملک کی مختلف ریاستیں بھی انہیں اپنے گھر میں بن بلایا مہمان سمجھ رہی ہیں۔ ایک بات اور سمجھ لیجئے کہ اِس وقت ملک کی سیاست نے راہل گاندھی کو اپنے گھیرےمیں لے رکھا ہے۔کیا اب یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ اس وقت ملک کے اصل وزیراعظم تو راہل گاندھی ہی ہیں۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 گزشتہ دنوں  بجٹ پیش کیا گیا،ہماری معاشی معلومات اس قابل نہیں  کہ ہم بجٹ کی باریکیوں  پر کچھ لکھیں ، ہم نے یہ کام اردو کے ان صحافیوں  پر چھوڑ دیا ہے جو بجٹ پر بات کر سکتے ہیں ، جہاں  تک ہماری معلومات کا تعلق ہے، ہم بس اتنا جانتے ہیں  کہ بازار میں  اشیاء خوردو نوش آ ج بھی اتنی ہی مہنگی ہیں  جتنی بجٹ آنے سے پہلے مہنگی تھیں ، ہمیں  یہ بھی معلوم ہے کہ بازار میں  اب بھی وہ چیزیں  اتنی ہی گراں  ہیں  جتنی گراں  کل تھیں  لیکن میرا مقصد بجٹ کے اس تقریر سے تھا جو این ڈی اے کے وزیر اعظم نریندر مودی نے اخبار نویسوں  اور چند دوسرے لوگوں  کے سامنے کی تھی، اس تقریر میں  انہوں  نے کہا کہ وہ تو ملک کو ان ترقیوں  کے بارے میں  بتاناچاہتے تھے جو ان کے دس سالہ دورحکومت میں  ہندوستان نے کی تھیں  لیکن دیکھئے اپوزیشن یعنی راہل گاندھی اور اکھلیش یادو نے ان کی آواز کو دبا دیا، ہمیں  بھی حیرت ہوئی، وہ لیڈر جو پچھلے دس برسوں  سے ہندوستان کے عوام سے من کی باتیں  کر رہا تھا، یا تو اس کے آگے کوئی بول ہی نہیں  سکتا تھا یا اگر کوئی بولنے کی کوشش کرے تو نریندر مودی اسے چٹکیوں  میں  اڑا دیتے تھے، آج وہی لیڈر زبان بے زبانی سے یہ شکوہ کر رہا تھا کہ؎  یہ دستور زبا ں بند ی ہے کیسا تری محفل میں 
یہاں  تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری
  ہائے کیسی بے چارگی تھی، خیر یہ تو دنوں  کی بات ہے ،کبھی کے دن چھوٹے اور کبھی کی راتیں ۔
  ایک اور بات ہے۔ یہ تو عوام اب بھی جانتے ہیں  کہ تیلگو دیشم کے چندرا بابونائیڈو نے نریندر مودی کی اقلیتی سرکار کی مدد کرنے سے پہلے ہی نہ تواسپیکر کے عہدے سے کوئی دلچسپی دکھائی اور نہ آج بھی دلچسپی رکھتے ہیں ، انہوں  نے آندھر پردیش کی نئی راجدھانی بنانے کے لئے ایک طویل مدتی قرضـ سودپر لے رکھا تھا اور انہیں یہ قرض ادا ہی کرنا تھا، اس کے لئے انہیں  ایک بڑی رقم کی ضرورت تھی جو صرف مرکزی حکومت سے ہی مل سکتی تھی، انہوں  نے الیکشن سےپہلے ہی مرکزی حکومت یعنی نریندر مودی اور امیت شاہ سے یہ درخواست کر رکھی تھی، جی نہیں  انہیں حکم دے رکھا تھا کہ مجھے بجٹ میں  اس رقم کا انتظام کیا جائے ورنہ وہ اپنی دی ہوئی بیساکھی کو ان کے قدموں  کے تلے سے گھسیٹ لیں  گے، ان کی آرزو پوری بھی ہوئی۔
 یہ کہا جا رہا تھا کہ اگر نائیڈو کو یہ رقم نہ ملتی تو ،معاملہ گڑ بڑ ہو سکتا تھا لیکن اس معاملہ میں  بھی نائیڈو کو جیت ہوئی۔مرکز سے لاکھوں  کروڑ کی رقم پاتے ہی نائیڈو پہلےسے بھی مضبوط ہو گئے،نائیڈو کو معلوم ہے کہ اگر آج نریندر مودی اور امیت شاہ کو موقع ملا تو وہی پتے چلیں  گے جوو ہ کئی ریاستوں  میں  کھیل چکے ہیں  ،تو اب یہ پتہ کام نہیں  کرے گا، اب ایسی کوئی انکم ٹیکس یا ای ڈی تیلگو دیشم کو نہیں  ڈرا سکتی ، تیلگو دیشم کے معمولی سے ر کن کوبھی معلوم ہے کہ اگر کسی نے آندھرپردیش میں  نائیڈو سےکوئی غداری کی تو آندھرپردیش میں  اس کی سیاست اس طرح ختم ہوجائے گی کہ اسے پہچاننا بھی مشکل ہوجائے گا۔
 نریندر مودی نے یہ کھیل پہلے مدھیہ پر دیش میں  کھیلا تھا، وہاں  جیوترادتیہ کو مرکز میں  ایک معمولی وزارت دے کر اس کے ممبروں  کو اپنے قبضے میں کرلیا تھا، لیکن یہ اس و قت کی بات ہے جب بی جے پی کے پاس دینے کے لئے کچھ تھا، آج عالم یہ ہے کہ بی جے پی کے پاس لینے کے لئے تو بہت کچھ ہے، لیکن دینے کے لئے کچھ بھی نہیں  ہے، کانگریس کے جتنے لیڈر بک سکتے تھے وہ چلے گئے۔
یہ کھیل بڑی مہارت سے مہاراشٹر میں  کھیلا گیا تھا، یہاں  اجیت پوار اور کچھ دوسرے لیڈر مالی بدعنوانیوں  میں  شامل تھے، یقیناً وہ بے قصور نہیں  تھے، بی جے پی نے انہیں  اپنے جال میں  پھنسا لیا تھا لیکن مودی مہاراشٹر میں  یہ بھول گئے یہا ں ان کا مقابلہ شرد پوار جیسے لیڈروں  سے تھا۔ نریندر مودی شردپوار کی سیاست کے سامنے طفل مکتب کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ شرد پوار نے اجیت پوار کو اشارہ دیا کہ وہ اپنی چند شرطیں  بی جے پی کے سامنے رکھیں اور اگر بی جے پی ان کی یہ شرطیں  مان لیتی ہےتووہ بی جے پی میں  شامل ہوجائیں ، ہو ایہ کہ اجیت پوار نے یہ شرطیں  سامنے رکھیں  اور آدھی رات کو ان کی شرطیں  مان لی گئیں  اور مرکزکی تمام ایجنسیوں  نے اجیت پوار کے دوسرے معاملات ختم کردیئے اور انہیں  کلین چٹ مل گئی،لیکن واقعہ یہ ہے کہ مہاراشٹر کےصوبائی الیکشن میں  شرد پوار سے بات نہیں  بنتی ہے توان کی سیاست کی بساط بگڑ جائے گی کہ وہ بعد میں  بی جے پی کے پھندے میں  نہیں  پھنسا پائیں  گے۔
 نریندر مودی سے ایک اور غلطی ہوئی۔ وہ سمجھتے تھے کہ راہل گاندھی کا یہ نعرہ کہ ’نفرت کے بازار میں محبت کی دوکان‘ کھولنا ایک شاعرانہ خیال ہے ،نریندر مودی سے شاعری اور کویتا سے کتنی دلچسپی ہے یہ تو نہیں معلوم لیکن جن علاقو ں میں بی جے پی کا اثر ہے وہاں  شاعری کا اچھا خاصا ذوق ہے اس لئے انہوں  نے شاعرانہ خیال کو آزادی کی اصل حقیقت سمجھ لیا، اس کی مثال انہوں  نے عام الیکشن میں دی تھی۔ حال ہی میں  جب مودی سرکار نے یہ حکم دیا کہ ’کانوڑ یاترا‘ کے دوران دوکاندار اپنی دوکان پر ایک بورڈ لگائیں  جس پر اپنا نام لکھیں  لیکن ہوا یہ کہ دوکانداروں  نے بورڈ ضرور لگایا لیکن اس پراپنا نام لکھنے کے بجائے ’نفرت کے بازار میں  محبت کی دوکان‘ لکھ دیا۔ اس طرح ہم یہ دیکھ رہے ہیں  کہ نفرت کے بازار میں  محبت کی دوکان روز کھل رہی ہے۔اس طرح یہ لگ رہا ہے کہ راہل گاندھی ملک کے اصل وزیر اعظم ہیں ۔
  نریندر مودی کو اب یہ سمجھ میں  آنے لگا ہے کہ ملک کی مختلف ریاستیں  بھی انہیں  اپنے گھر میں  بن بلایا مہمان سمجھ رہی ہیں ۔ ایک بات اور سمجھ لیجئے کہ اس وقت ملک کی سیاست نے راہل گاندھی کو اپنے گھیرےمیں  لے رکھا ہے کیا اب یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ اس وقت ملک کے اصل وزیراعظم تو راہل گاندھی ہی ہیں ۔ ہمارا خیال ہے کہ ملک کی چار ریاستوں  یعنی کشمیر ، ہریانہ ، جھارکھنڈ اور مہاراشٹر کے بعد بن بلائے مہمان کو اپنی حیثیت کا اندازہ ہوجائے گا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK